عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجگور کا لفظی معنی پنج (پانچ) گور (قبر) یعنی پانچ قبریں ہے۔اس کانام پنجگور اس طرح پڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ مقبرے اصحابہ کرام کی ہیں۔ تاہم مورخ ان پانچ صحابہ کرام کے نام بتانے سے قاصر ہیں۔ اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ نے ان پانچ گمشدہ قبروں کو دریافت کیا۔ یہ قبریں کہاں واقع ہیں۔ ان کی نشاندہی بھی ایک معمہ بن چکا ہے۔
جس طرح آج پنجگور کی تاریخی قبریں لاپتہ ہیں۔ اس طرح ان کی آدھی آبادی کو حالیہ مردم شماری کے ذریعے لاپتہ کردیا۔ پنجگور کی آبادی کو کم دکھایاگیا۔ جبکہ ان کی آبادی کئی گنازیادہ ہے۔ ضلع پنجگور میں دو صوبائی نشستیں ہوا کرتی تھی۔ ان کو کم کرکے ایک نشست کردی گئی۔ جبکہ دوسری صوبائی نشست کو ضلع آواران میں ڈال دیاگیا۔ جس کی وجہ سے پنجگور ضلع انتظامی اور مالی طور پر کمزوراور غیرمستحکم ہوگیا۔ اس اقدام سے ترقیاتی فنڈز میں کمی آگئی۔ جس کے باعث پسماندہ ضلع مزید پسماندگی سے دوچار ہوگیا۔ سڑک، تعلیم، صحت، بجلی، پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے ایک سونامی کا شکل اختیار کرلی ہے۔ تمام تر بنیادی سہولیات عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی۔
ضلع میں معاشی مسئلہ ایک گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے منسلک تھا۔ تاہم صدیوں سے قائم کاریز سسٹم کی بحالی پر کام نہ ہونے کی وجہ سے زراعت متاثر ہوئی ہے۔ تمام کاریزیں خشک ہوگئیں۔ ۔ کاریز ایک زیرزمین آب پاشی کا نظام ہے۔ کاریزوں کا نظام انگریز دور حکومت سے پہلے بھی موجود تھا۔
دنیا میں سب سے زیادہ کھجور پیدا کرنے والے ممالک میں مصر، سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات کے بعد مکران بلوچستان کا نمبر آتا ہے۔ پنجگور میں ‘‘موزاتی’’ نام کی ایک کھجور ایسی ہوتی ہے جو دنیا بھر میں ذائقے، شکل اور حجم کے لحاظ سے اپنی طرز کی واحد کھجور ہے۔ جس کی بیرون ملک بھی مانگ ہے۔ پنجگور کے علاوہ کہیں بھی ‘‘موزاتی’’ کجھور نہیں لگائی جاتیں کیونکہ ان کے لیے خاص ٹمپریچر اور ہوا میں نمی کا تناسب درکار ہوتاہے۔
پنجگور میں زراعت متاثر ہونے کی وجہ سے اب لوگوں کا ذریعہ معاش ایران بارڈر سے منسلک ہونے لگا۔ وہ ایران بارڈر سے تیل و خورونوش کی اشیاء کا کاروبار کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین ڈیزل اور اشیائےخورونوش کی غیر رسمی تجارت کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس کاروبار سے لوگ اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ بارڈر اکثر بیشتر بند کردیا جاتا ہے۔ جس سے علاقے میں غربت اور افلاس بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاک ایران بارڈر پر باڑ لگانے کا کام تقریبا مکمل ہورہا ہے۔ اس کے بعد بارڈر مکمل سیل ہوجائیگا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاک ایران سرحد پر دو طرفہ تجارت کو قانونی و آئینی شکل دیں تاکہ صدیوں سے قائم یہ کاروبار جاری رہ سکے۔
دوسری جانب یہاں بنیادی سہولیات ناپید ہے۔ پنجگور میں لوڈ شینڈنگ کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہوگیاہے۔ جس کے باعث لوگ بے بسی کے عالم میں اپنے گھروں میں سولرسسٹم لگا کر گزارا کرتے ہیں۔
سول اسپتال پنجگور اور پچاس بیڈ اسپتال خدابادان میں ادویات کی قلت سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے صحت کے ان مراکز میں ادویات کی قلت سمیت اسٹاف کی بھی کمی ہے۔ ان مراکز میں ایکسرے فلمز بھی نایاب ہیں، مریض پرائیویٹ لیبارٹریز کا رخ کرتے ہیں۔
پنجگور میں تعلیمی ادارے صرف عمارتوں کی حد تک محدود ہیں۔ جن میں ایک گرلزڈگری کالج، ایک بوائز ڈگری کالج، دو انٹر گرلز کالجز، ایک نرسنگ اسکول، ایک پولی ٹیکنیک کالج، یونیورسٹی آف تربت کے سب کمیپس سمیت دیگر اسکولز شامل ہیں۔ پنجگور کے بہت سارے دور دراز کے اسکولز بند پڑے ہیں۔
پنجگور ایک طویل تاریخ رکھتا ہے جہاں مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے حکمرانی کی۔ جن میں بلیدی، گچکی اور دیگر شامل ہیں۔ جب مکران میں ہوت حکمران تھے جن کا ہیڈ کوارٹر تمپ تھا۔ بلیدی قبیلے کے سربراہ ملک ابوسعید بلیدی نے گچکی قبیلے کے سربراہ ملک دینار گچکی کی مدد سے ہوت قبیلے کے سربراہ مرزا ہوت کی حکومت پر قبضہ کرلیا ۔ اس طرح ریاست مکران میں بلیدی اور گچکیوں کی حکوت قائم ہوگئی۔ پنجگور بھی ریاست مکران کا حصہ تھا۔ اور آج بھی موجودہ مکران ڈویژن میں ایک ضلع کا درجہ رکھتا ہے۔
بلیدی اپنا نام وادی بلیدہ سے اخذ کرتے ہیں۔ جو موجودہ ضلع کیچ کی ایک تحصیل ہے۔ اور ابوسعید کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو یہاں آکر بس گیا تھا ۔
گچگی جو تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مکران کا طاقتور ترین گروہ ہیں۔ مکران کے اعلی اور حکمران قبائل میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک بلوچ سردار کو اولاد نہیں تھی اس نے ایک راجپوت مارسنگھ کو اپنا بیٹا بنایا تھا جس کی نسل سے یہ ہیں۔
کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ گچکی برصغیر کے علاقے راجستھان سے آئے تھے۔ جہاں وہ پنجگور کے علاقے گچک کے علاقے میں رہائش پذیر ہوئے۔ یہاں انہوں نے بلوچوں سے شادی کی اور مسلمان ہوئے۔ اُن سے جو بچے پیدا ہوئے وہ علاقہ گچک کی وجہ سے گچکی کہلانے لگے۔ اب وہ بلوچ ہی کہلاتے ہیں۔
ریاست مکران اور ریاست قلات کے درمیان مسلک ( نمازی اور ذکری) کی جنگ چھڑ گئی۔ یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب ریاست مکران کے حکمران، گچکیوں اور بلیدیوں نے برصغیر کے علاقے جونپور سے آنے والے روحانی پیشوا اور عالم دین، سید محمد جونپوری کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اس نے کچھ وقت کیچ مکران میں تبلیغ کرنے کے بعد وہ ایران (خراسان)، حجاز سے ہوتا ہوا مکہ مکرمہ کا سفر طے کیا۔ اس کا تبلیغی سفر افغانستان تک جاری رہا۔
قلات کے والی نصیر خان نوری نے ریاست مکران پرحملہ کر دیا۔ انہوں نے مکران پر تین مرتبہ حملہ کئے۔ دو مرتبہ وہ ناکام ہوئے مگر تیسری مرتبہ انہوں نے مکران کے والی ملک دینار گچکی کو ایک بڑے معرکہ میں ہتھیار پھینکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی تاہم ملک دینار گچکی نے ہتھیار نہیں پھینکے اور لڑتے ہوئےجان دے دی۔ یوں پنجگور سمیت پورے مکران میں گیچکیوں کی حکومت ختم ہوئی۔ تاہم جب ملک دینار گچکی کی اس بہادری کو دیکھ کر قلات کے والی نصیر خانوری نے کچھ یوں کہا:
‘‘مجھے شیر کی زندگی اور بہادری کی موت قبول کرنے والے پسند ہیں’’
ملک دینار کی بہادری اور موت کے بعد نصیر خان نوری نے دوبارہ ریاست مکران گچکیوں کے حوالے کردی۔ انہوں نے ملک دینار گچکی کے بیٹے شہ قاسم کو مکران کا والی اور جبکہ کیچ کی سرداری سنگھور قبیلہ کے سربراہ میر کہنر سنگھور (اول) کو مقرر کردیا۔ جبکہ ہوت قبیلے کے سربراہ کو دوبارہ تمپ کا چیف اور بلیدیوں کو بلیدہ واپس کردیا۔ اس طرح نصیر خان نوری یہاں سے واپس قلات کی جانب چلے گئے۔ تاہم ریاست مکران خان قلات کے ہی ماتحت رہا۔ یہ سلسلہ برطانوی دور تک جاری رہا۔ مکران ایک خود مختار نوابی ریاست تھی جو 1955 تک قائم رہی۔
حیرانی کی بات یہاں یہ آتی ہیں کہ قلات کے والی نصیر خان نوری جیسے طاقتور حکمران کے دو حملے پسپا کئے گئے۔ جبکہ تیسرے حملے میں ریاست مکران کو فتح کرلیا گیا۔ واضع رہے کہ قلات کے والی نصیر خان نوری اس خطے میں ایک طاقتور ترین حکمران تھے۔ برصغیر کے مراٹھا سلطنت اور فارس کے حکمران ان کی عسکری طاقت سے کانپتے تھے۔ نصیر خان نوری نے درانی سلطنت کے بانی احمد شاہ ابدالی کی سلطنت کو توسیع دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ نصیر خان نوری نے پانی پت کی جنگ جیت لی۔ انہوں نے فارس کے حکمرانوں سے احمد شاہ ابدالی کی جنگ لڑی اور ہرات جنگ میں فتح حاصل کی اور اس جنگ کے بعد احمد شاہ نے بلوچوں کو شال کوٹ تحفے میں دے دیا۔ شال کوٹ، موجودہ کوئٹہ کا قدیم نام ہے۔ کاش ہمارے موجودہ حکمرانوں کو بلوچوں کی تاریخ سے ان کی عسکری طاقت کا اندازہ کرنا چاہیے اور اس تاریخی پس منظر کے تناظر میں بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بلوچستان کا مسئلہ بندوق کے نوک سے حل نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ ایک سیاسی، آئینی، قانونی اور انتظامی مسئلہ ہے۔ ان بنیادوں سے موجودہ بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ وگرنہ میر نصیر خان نوری، ملک ابوسعید بلیدی، ملک دینار گچکی اور میر مرزا ہوت کی اولادوں سے جنگ لڑنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر