عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بادشاہ صرف بچوں کی کہانیوں میں ملے گا جسے مظلوم یتیم بچے کے گرتے آنسو دیکھ کر پھر ساری رات نیند نہیں آئی۔ اور ایسا نرم دل تاجر بھی من گھڑت حکایتوں میں ہوتا ہے جس نے ضرورت مند دیکھ کر اپنے خزانے کا منہ کھول دیا۔
وہ ہیرو تو بس فلموں میں ہوتا ہے جو مشین گن سے نکلی گولیاں ہاتھ سے روک لے۔ ایسے غیرت مند بھی افسانوں میں اچھی جگہ پاتے ہیں جو چھوٹے سے گروہ کی شکل میں ہوتے ہوئے بھی تاریخ کا دھارا بدل ڈالیں۔
حقیقی دنیا یہ ہے کہ 70 برس گزر گئے کشمیر ہو یا فلسطین، نہ کسی یتیم بچے کو دیکھ کر بادشاہوں کو جلال آتا ہے، نہ کوئی نام نہاد کمانڈر نہتے فلسطینیوں کی جانب آنے والے راکٹوں کے آگے سینہ سپر ہوتا ہے۔
یہ نہ ہوا ہے نہ ہی کبھی ہوگا کیونکہ خواہشوں کے محل تعمیر کرنے کے لیے محنت، طاقت، ہمت اور خلوص درکار ہوتا ہے۔ فلسطین کے معاملے میں فی الحال کتابی خواہشات ہیں کہ اقوام متحد آگے آئے یہ کرے وہ کرے یا پھر زبانی لعنت ملامت کہ ’فلسطین پہ بربریت کی مذمت کرتے ہیں۔‘
قدرت نہیں رکھتے کہ کچھ کرسکیں مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسی ہوا چلے کہ سب کچھ ہماری تمناوں کے مطابق ہو جائے۔ کشمیر پاکستان کا ہو جائے اور بیت المقدس فلسطینوں کو مل جائے۔
طاقت اتنی بھی نہیں کہ ایک دریائے نیلم کے اس پار رہنے والے کشمیری بھائیوں کو انصاف دلاسکیں مگر ہم یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ ہمارے خوف سے ہزاروں میل دور بیٹھا غاصب اسرائیل خود ہی ہتھیار ڈال کر پرامن طریقے سے تتر بتر ہو جائے۔
کشمیر، شام، یمن یا پھر فلسطین ہماری دعاوں میں رہتے ہیں۔ ہر جمعے کو دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کو مساجد میں چند دعائیں ویسے ہی رٹ گئیں ہیں کہ یا اللہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو ظالموں سے آزادی عطا فرما۔
دعائیں اور نیک تمنائیں بہت لیکن خلوص اتنا بھی نہیں کہ دفاع مسلم کے ایک نکاتی ایجنڈے پہ تمام مسلمان ممالک ایک میز پہ آمنے سامنے بیٹھ جائیں۔
کوئی اسرائیل کو شیطان بزرگ مانتا ہے، کسی کو خطے میں طاقت درکار ہے سو اسرائیل اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ قبول۔ اور کوئی ہم پاکستانیوں کی طرح ہے جو اسرائیل کے موضوع پہ خالی خالی آنکھوں سے طاقت کے بڑے کھلاڑیوں کی شکل تکتا ہے کہ ہاں بھئی اس سبز پاسپورٹ پہ اسرائیل کے لیے لکھے ایک فقرے کا کیا کرنا ہے، لکھا رہنے دیں یا مٹا دیں؟
شام، عراق سمیت شورش زدہ مسلمان ممالک کو اگر اپنے اور پرائے مل کر برباد نہ کرتے تو وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں کسی کام کے ہوتے۔
ماشااللہ صد ماشااللہ۔ مسلم امہ کو کیا کمی ہے۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ سے لے کر براعظم افریقہ تک قدرتی وسائل، کئی ممالک کی کامیاب بھاری بھرکم معیشت، شاندار فوجی طاقت سب کچھ ہے مگر یہ قوت یہ کامیابیاں فلسطین میں بےگناہ مارے جانے والوں کے کسی کام نہیں آئیں۔ وہی علامہ اقبال کا ایک نوحہ
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر