عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امکان کے لیے اہتمام کی تیاری ہے یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے امکانات ہیں۔ سیاست میں کچھ حرفِ آخر نہیں، واقعات حالات کا پتہ دیتے ہیں اور حالات تبدیلی کا اشارہ۔۔۔ کھیل دلچسپ ہو گیا ہے مگر نئے کھیل کے ضابطے کیا ہوں گے یہ طے ہونا باقی ہے۔
شہباز شریف کی ضمانت اور لاہور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جہاں اہمیت کا حامل ہے وہیں شہباز شریف کو لندن جانے سے روکنا بھی نہایت دلچسپ۔
آخر کیا وجہ ہوئی کہ عدالت کے حکم کے باوجود ہوائی اڈے پر قائد حزبِ اختلاف کو روک لیا گیا۔ اُس سے بھی دلچسپ کہ شہباز شریف کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے باہر جانے کی ’عاجلانہ اجازت‘ اور تفصیلی فیصلے میں شہباز شریف کے لیے یہ جملہ کہ پبلک آفس ہولڈر کو سو فیصد مسٹر کلین ہونا چاہیے، اُن سارے الزامات کو ’اَن ڈو‘ کر رہا ہے جو اُن پر لگائے جاتے رہے۔
آمدن سے زائد اثاثوں کے ثبوت تاہم نیب پیش نہیں کر سکا یہی وجہ ہے کہ عدالت کو کہنا پڑا کہ نیب نے بے دلی سے کام کیا ہے مگر ثبوتوں کا انتظار رہے گا۔
یہ مرحلہ طے ہوا تو وزیراعظم نے جدہ سے واپس آتے ہی شہباز شریف کی روانگی پر اجلاس کیا اور حدیبیہ پیپر ملز کیس کو ایک مرتبہ پھر شروع کرنے کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔ شہباز شریف کے خلاف تحقیقات پہ تحقیقات کیوں۔۔۔ بلاشُبہ یہ عجلت اور پریشانی بے جا تو نہیں؟
اسلام آباد میں ہونے والی ہِل جُل کہاں چُھپی رہتی ہے مگر سوال یہ ہے ایک بار پھر ’تبدیلی‘ کی باتیں کیوں؟ مقتدر حلقے نئے آپشنز یا متبادل کے لیے متحرک کیوں؟ وجہ معیشت کی خراب صورتحال ہے یا خطے کے بدلتے حالات میں توجہ کا مرکز خارجہ امور۔۔۔ سیاسی حالات میں ناکام پالیسیوں کا وزن شفٹ کرنے کی ضرورت یا بڑھتا عوامی دباؤ؟
بہر حال مقتدر حلقے ’نیوٹرل‘ ہونے اور تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں سیاسی ماحول اور مواقع دینے پر رضامند ہیں۔ اس صورتحال تک پہنچنے کے لیے پیپلز پارٹی پہلے سے تیار اور ن لیگ اختلافات کے باوجود مزاحمت اے مفاہمت کی جانب گامزن ہو رہی ہے۔
ن لیگ میں موجود دو بیانیوں کی جنگ اب حتمی مراحل میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ شہباز شریف کی جیل سے واپسی کے بعد تقریباً اکثریت ’مفاہمت‘ یا راستے کی تلاش پر رضامند دکھائی دیتی ہے اور یہ بیانیہ زور پکڑتا دکھائی دے رہا ہے کہ مزاحمت کے بعد اور انتخابات سے قبل جماعت کو یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا اور اُس کے لیے ’یکساں ماحول‘ کی دستیابی کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا موقع بھی ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہیے۔
اپنے بیانیے کو منوانے کے لیے شہباز شریف کو پارٹی کے اندر اور باہر جنگ لڑنا پڑی ہے تاہم اب ن لیگ کے قائد نواز شریف کو منانا بہر حال ایک اہم مرحلہ ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور شہباز شریف ایک صفحے پر نظر آتے ہیں۔ پنجاب اور وفاق میں اِن ہاؤس تبدیلی کی صورت پیپلز پارٹی اور جہانگیر ترین گروپ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انتخابات سے قبل پنجاب میں تبدیلی نواز لیگ کو سیاسی استحکام دے سکتی ہے اور پنجاب میں تبدیلی وفاق کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
بجٹ کے بعد کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کرنے کے لیے میاں نواز شریف کو بھی اُسی صفحے پر لانا ہو گا جبکہ وہ اب تک کسی مینو فیکچرڈ تبدیلی کی بجائے انتخابات کے انعقاد پر بضد ہیں اور اس ’ہائبرڈ نظام‘ کو کسی طور این آر او دینے پر رضامند نہیں جبکہ شہباز شریف امتحان سے امکان کا سفر طے کرنا چاہتے ہیں۔
یوں عملی سیاست اور نظریاتی سیاست کا ٹکراؤ موجود ہے۔ بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ اس بار شہباز شریف کی کوششیں بارآور ہوتی ہیں یا نہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ شہباز کو پرواز بھرنے سے روکنا مشکل ہو گا۔ لیکن کیا عمران خان کو یہ سب کچھ کرنا پڑے گا اور کیا وہ یہ سب ہونے دیں گے؟
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر