ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان پرندوں کے عالمی دن کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان نے خوشخبری دی ہے کہ جلدنیا پاکستان سامنے آئے گا ۔ سعودی عرب کے دورے کے بارے کہاکہ دورہ بہت کامیاب رہا، نہ جانے کب نیا پاکستان سامنے آئے گا ؟غربت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے بیروزگاروں کی تعداد بڑھ ر ہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے پانچ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر گزار رہے تھے اب یہ تعداد دوگنا ہوچکی ہے ۔صورتحال اس قدر بھیانک ہے کہ بازاروں اور محلوںمیں گداگروں کے سوا کوئی نظر نہیں آتا ۔وزیر اعظم عمران خان کو سب اچھا کی رپورٹ دینے والے بہت ہوں گے مگر حقیقی صورتحال یہ ہے کہ نیا پاکستان باتوں سے نہیں بنے گا اس کے لیے عملی کام کرنا ہو گا ۔
عید کے دن ہیں غریبوں کی بے کسی اور لاچارگی دیکھی نہیں جاتی ،غریبوں کے لیے قدم قدم پر مشکلات ہیں ۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے مجھے ایک ستر سال کے بزرگ نے کہاکہ اس سے بدترین دور ہم نے نہیں دیکھا ، غریب کہتے ہیں کہ نیا پاکستان نہیں بننے میں آ ر ہا تو پرانا ہی واپس کردیں ۔ اب میں اپنے موضوع کی طرف آئوںگا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے مہاجر پرندوں کا عالمی دن منایاگیا ۔کہا جاتا ہے کہ سعودیہ کے عرب شیوخ نے مہاجرپرندوں سے خصوصی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے سعودیہ سے ہجرت کر جانے والے شاہینوں کو وطن واپس لانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مہاجرپرندوں کو مارنے اور بھگانے والے بھی تو یہی شکاری شہزادے ہیں۔خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس سعودی عرب میں شاہین کلب کے زیر اہتمام شروع ہونے والے ھدد پروگرام کا مقصد شاہینوں کو قدرتی ماحول فراہم کرنا، اس بارے عوامی شعور ،مہاجر پرندوں کی نسلوں کو بچانے کے اقدامات کرنا ہے ۔بات صرف عرب کے صحرائوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے صحرا بھی پرندوں اور جانوروں کے مقتل بنے ہوئے ہیں۔ چولستان جو کہ پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل بنا ہوا ہے۔
اگر آج بھی مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو پھر کون سا ایسا وقت آئے گا جب ماحول اور پرندوں سے متعلق مسئلے حل ہونگے ۔ ہماری صرف اتنی درخواست ہے کہ چولستان کو پرندوں کے شکاریوں سے بھی بچایا جائے اور لینڈ مافیا جو کہ مسلسل زمینوں کا شکار کر رہی ہے ‘ اس سے چولستان کو محفوظ بنایا جائے کہ وہ نہ تو چولستان کی تہذیب و ثقافت سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کو چولستان کے تقدس کا کچھ خیال ہے ۔ہمارے عظیم شاعر خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں چولستان کی تعریف مقدس سر زمین کے طوپر کی ہے۔ چولستان کے ٹیلوں کو ’’ کوہ طور ‘‘ سے تشبیہ دی ہے ۔ چولستان کے کانٹے دار درختوں کو شمشاد اور صنوبر کہا ہے مگر میری مقدس سر زمین چولستان کو شکاریوں نے دبوچ لیا ہے ۔
سرائیکی وسیب کا وسیع صحرا چولستان اپنے قدرتی حسن اور شکاریات کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے ، مقامی امراء چولستان میں ہرن کا شکار کرتے ہیں، عرب شیوخ تلور اور دوسرے پرندوں کا ۔
ان کارستانیوں کے سبب چولستان میں ہرن کی نسل ختم ہونے کے قریب ہے اور تلور بھی کمیاب ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورت رہی تو ان کا تذکرہ صرف اور صرف کتابوں میں ملے گا۔ تلور کے شکار کیلئے عرب حکمران بہت ہی قیمتی اور مہنگے باز ساتھ لاتے ہیں ۔ان بازوں کی قیمت ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں ڈالر تک ہوتی ہے۔ باز، عقاب اور شکرا وغیرہ ایک خاندان یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں مگر باز ان سب سے اہم ہے اور ان کا اپنا الگ سسٹم ہے ۔
بازوں کا بادشاہ بھی ہوتا ہے اسے شہباز کہتے ہیں۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ سردی کے اس موسم میں سرائیکی وسیب آنے والے پرندوں تلور، باز، کونج اور مرغابی وغیرہ کو انگریزی میں Migrated Birds جبکہ اردو میں مسافر یا مہاجر پرندے سرائیکی میں ان پرندوں کو ’’ پناہ گیر پکھی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پہلے تو مشکل ہے کہ پناہ کی غرض سے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً چولستان میں آنے و الے پرندوں سے مقامی روایات کے بر عکس سلوک ہو رہا ہے۔
یہ مہمان پرندے معصوم ہی نہیں دلنواز بھی ہیں ۔ سرائیکی وسیب کو ان پرندوں سے مانوسیت اور محبت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی کونج سرائیکی وسیب میں داخل ہوتی ہے ، بچے ، بوڑھے ، جوان غول در غول آنیوالی کونجوں کا استقبال کرتے ہیں ، سب کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں اور سب ملکر کونجوں کو سرائیکی میں صدا دیتے ہیں ’’ کونجا ڑی کونجاں سخی سرور دا پھیرا پاتی ونجو‘‘ یہ آواز اور یہ التجا سنتے ہی کونجوں کے غول ڈیرہ غازی خان میں مدفن حضرت سخی سرور کے نام پر پھیرے مارنا شروع کر دیتی ہیں ، ہم آج ان مہمان پرندوں سے کیا سلوک کر رہے ہیں ؟
یہ سوچتے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ شکاریوں نے چولستان کے بعد سرائیکی وسیب کے اہم ڈویژن ڈیرہ غازی خان کا بھی رخ کر لیا ہے اور وہاں پرندوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کو’’ مال ‘‘ مل رہا ہے ، وہ شکاریوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں کہ وہ یہاں رفاہی کام کرتے ہیں ، ہم کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے ۔ ذاتی مراعات کے بدلے چولستان کے وسیع رقبے ریفارمنگ کے نام پر دیے جاتے ہیں۔اب بھی ہوبارہ فائونڈیشن کو چولستان کا ہزاروں ایکڑ رقبہ پرندوں کی افزائش کے نام پر دیا گیا ہے حالانکہ وہاں افزائش نہیں نسل کشی ہوتی ہے ۔تلور کا گوش شکاریوںکی مرغوب غذا ہے۔
نومبر اور دسمبر کے مہینے میں تلور جونہی سائبیریا سے چولستان کا رخ کرتے ہیں تو شکاری پاکستان آ جاتے ہیں ، ان کے ساتھ ایک فوج ظفر موج گاڑیوں کے کانوائے کے ساتھ موجود ہوتی ہے ۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی سرائیکی وسیب کے چولستان میں چرند پرند کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے۔ اس پر وسیب اس قدر صدمے کا شکار ہے کہ وہ رونا بھی چاہتا ہے تو رو نہیں سکتا ، ایک صدمہ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹوں کا ہے ۔ دوسرا شکاریوں نے چولستان کے قدرتی حسن کو برباد کر دیا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر