طاہر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کے بیٹے جبران نے کینڈا کی ٹورانٹو یونیورسٹی سے ڈاکڑیٹ کرلی۔ انہیں بہت بہت مبارکباد دینا چاہتا ہوں ، ماشاء اللہ والدین کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام اور کیا ہوسکتا ہے ۔
لیا قت بلوچ صاحب کی اس ٹویٹ کو پڑھنے کے ساتھ ہی نوے کی دھائی میں یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم دینی جذبہ سے سرشار نوجوان بھی یاد آئے ، جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں جہاد کے نام پر گمراہ کرکے کشمیر اور افغانستان بھیج دیا گیا ۔
ان میں سے بہت سوں کی لاشیں بے گور و کفن پڑی رہیں اور یہ لوگ تاریک راہوں میں مارے گئے ۔
جہاد افغانستان کے ہیرو جرنیلوں کی اولادوں نے امریکہ سے تعلیم حاصل کرکے نوکری کرنے بھی زحمت گوارا نہ کی ۔ کسی نے شوگر ملیں لگائیں، کوئی پاکستان میں پیپسی کولا کا مالک بن بیٹھا، کسی نے کروڑوں کا بیوپار کیا ، آخر جنگوں میں غریبوں کے بچے ہی جنگ کا ایندھن بنتے چلے آئے ہیں۔
اور ہاں دن رات جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنما جو نوجوانوں کی غیرت ملی اور دینی حمیت ختم ھونے میں گھلے جاتے ہیں، فکر اقبال اور ریاست مدینہ کے تصورات کو قومی نصاب میں شامل کرنے کے مطالبات بڑی شدومد سے دہراتے رہتے ہیں ۔
بے راہ روی ، سیکولرازم اور مغربی طرز فکر کو یونیورسٹیوں میں پروان چڑھتے دیکھ کر قوم کے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے ہیں ۔ مخلوط نظام تعلیم کو بے راہ روی کی سب سے بڑی وجہ گردانتے ہیں لیکن کینیڈا کی ٹورانٹو یونیورسٹی میں اپنے بچوں کی تعلیم کو باعث اعزاز سمجھتے ہیں کیا ٹورانٹو یونیورسٹی میں مخلوط ذریعہ تعلیم نہیں اور کیا یہ کھلا تضاد نہیں ۔
یہ بھی پڑھیے:
اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا المیہ ۔۔۔ طاہر ملک
میڈیا: خبروں اور تبصروں میں اقلیتی برادری کہاں؟۔۔۔ طاہر ملک
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر