نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟|| اعزاز سید

بھٹو اور عمران کی شخصیات میں کچھ بنیادی فرق بھی ہیں۔ بھٹو نے عوام کو زبان دی اورعالمی سطح پراپنے دشمن بنائے۔عمران خان نے روایتی سیاستداںوں کے خلاف لوگوں کو اکسایا مگرزبان بندی بھی کڑی کی۔ عالمی سطح پرابھی تک کوئی ایسا کردارادا نہیں کیا کہ طاقتیں دشمن بن بیٹھیں۔

اعزاز سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ آنکھیں بندکریں اور 70 کی دہائی می٘ں چلے جائیں۔ آپ کو لگے گا کہ جیسے یہ 70 نہیں 2021 ہے ۔ صرف شخصیات بدلیں اور چند واقعات کا جائزہ لیں تو آپ ششدر رہ جائیں گے لگے گا کہ تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے یا کم ازکم نئے روپ میں پرانے درشن کرا رہی ہے ۔ کہتے ہیں تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔ ہم نے بھی نہیں سیکھا اسی لیے وہیں پرموجود ہیں جہاں برسوں پہلے کھڑے تھے۔ کوہلو کے اسی بیل کی طرح جسکی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور وہ دائرے میں برسوں سے چکر لگارہا ہے۔
تاریخ کے طالبعلم کی حیثیت سےآجکل کےحالات کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہےکہ ہم وآپس کلاسیک 77 کی طرف گامزن ہیں۔نجومی نہیں اس لیے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ سمت ٹھیک نہ ہوتومنزل تباہی کے سوا کچھ ہوہی نہیں سکتی۔
1970کےعام انتخابات کےدوران بھٹو پاکستان کے مقبول ترین لیڈرنہیں تھے بلکہ شیخ مجیب کوان پر واضح برتری حاصل تھی جو انتخابی نتائج میں بھی سامنے آئی چونکہ یہ ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات تھے اس لیے اس وقت کی فوجی جنتا قبل ازوقت دھاندلی،بندے توڑنے یا غائب کرنے کی سیاست سے نابلد تھی۔اسی لیے سرعام شکست کھا گئی۔ ملک بھر کے انتخابی نتائج میں دوسرے نمبرپرآنے والے بھٹواس وقت کے فوجی ڈکٹیٹرجنرل یحیی۱ خان اور جنرل گل حسن کی آنکھوں کا تارا تھے۔اسی لیے جب پاکستان کو 71 کی جنگ میں بھارت نے شکست دی اور فوج کے اندرسے ردعمل آیا تو یحیی۱ خان نے اقتداربھٹو کو دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ گل حسن کواندرونی سازش کے انعام میں فوج کا کمانڈرانچیف لگایا گیا اور کچھ عرصے میں جب گل حسن نے پر پرزے نکالنے کی کوشش کی تو انہیں فارغ کردیا گیا۔
بھٹوبھی فوج کی مدد سےہی اقتدارمیں آئے تھے۔انہوں نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کو سنبھالنے اور ملک کو نیا آئین دینے جیسے عظیم کاموں کے ساتھ ساتھ کچھ تباہ کاریوں کی بنیاد بھی رکھی۔ جن میں سب سے اہم عدم برداشت کا فروغ تھا۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ بھٹودورمیں ایک غیراعلانیہ مارشل لا لگا ہوا تھا۔ وہ تنقید پسند کرتے تھے نہ برداشت۔ انہوں نے دلائی کیمپ بنوائے اوراپنےمخالفین کو جیلوں اوردلائی کیمپوں میں بھیجا۔میڈیا پرپابندیاں عائد کیں۔آج کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے۔
جے اے رحیم اورمعراج محمد خان نے پیپلزپارٹی بنانے اوربھٹو کو بھٹو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا مگر اقتدارمیں آتے ہی دونوں بھٹو کے عتاب کا شکار ہوئے۔ عمران خان کا جہانگیرخان ترین اور اکبر ایس بابر کےساتھ اپنایا گیا رویہ دیکھیں تو آپ کو بھٹو کا جے اے رحیم اور معراج محمد خان کے ساتھ اپنایا گیا رویہ یاد آجائے گا۔بھٹو کے دورمیں میڈیا پربھی کڑی پابندیاں تھیں۔ کراچی کے معروف ٹریڈ یونین رہنما منظوررضی نے ایک باربتایا تھا کہ ہم بائیں بازوکے لوگوں نے بھٹو کی بھرپورحمایت کی تھی مگر اقتدارمیں آتے ہی بھٹو نے ہم سب کوبھی جیلوں میں ڈال دیا۔
بھٹونے اپنے اقتدارکے استحکام کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی خفیہ نگرانی کا کام تیز کیا۔ اس مقصدکے لیےخفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں سیاسی سیل بھی جناب بھٹّونے ہی متعارف کروایا۔ اس سب سے ہٹ کر بھٹو نے ریاست میں مذہب کے استعمال کو بھی دوام بخشا۔ بھٹّو نے ایک حساس نوعیت کے مذہبی معاملے پرقانون سازی کی اور آخرتک اسکا کریڈٹ لیتے رہے۔ ریاستی امورمیں مذہبی اجارہ داروں کے سامنے ہتھیارڈالنےکی مثال ایسی قائم ہوئی کہ آجبھی پاکستان کسی نہ کسی شکل میں اس کے نتائج بھگت رہا ہے۔
بھٹو کےسامنے اپوزیشن کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اپوزیشن بالکل ایسے ہی بے بس تھی جیسے آج ہے۔اسے تاریخ کا جبرکہیں یا حسن اتفاق کہ بھٹو کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی سربراہی مفتی محمود نے کی تھی اور آج عمران خان کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے سربراہ اسی مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمان کررہے ہیں۔
بھٹو کوئی اتنے تواہم پرست نہیں تھے لیکن انکی ماں کو بچپن میں ایک ہندوجوتشی نے بتایا تھا کہ وہ بڑا نام کریں گے اورغیرطبعی موت مریں گے۔ بھٹو کو اپنی ماں کا کمپلیکس تھا تو عمران اپنےوالد کے کمپلیکس کا شکار ہیں۔عمران خان تواہم پرست ہیں انہیں اسی کی دہائی میں ایک ہسپانوی خاتون نے بتایا تھا کہ اگر وہ سیاست میں آئے تو غیر طبعی موت مریں گے ۔ پھر ایک جوتشی نے بتایا کہ سیاست میں جان بچا کررستہ بنایا جاسکتا ہے وہ سیاست میں آگئے اب جان بچا کر سیاست کرنے کے لیے ایک عورت کی ہدایات پر چل رہے ہیں۔ ہدایات اتنی شدت سے لیتے ہیں کہ ایک اہم ترین وزارت کا قلمدان دو بار ہدایت پر ہی بدلا۔
بھٹو اور عمران کی شخصیات میں کچھ بنیادی فرق بھی ہیں۔ بھٹو نے عوام کو زبان دی اورعالمی سطح پراپنے دشمن بنائے۔عمران خان نے روایتی سیاستداںوں کے خلاف لوگوں کو اکسایا مگرزبان بندی بھی کڑی کی۔ عالمی سطح پرابھی تک کوئی ایسا کردارادا نہیں کیا کہ طاقتیں دشمن بن بیٹھیں۔
بھٹو کے دورمیں افغانستان پک رہا تھا تو آج پھر وہاں سے عالمی برادری اور امریکہ کی روانگی کے بعد اندرونی عدم استحکام کے شعلے بلندہوتے نظرآرہے ہیں۔ پاکستان پر اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی اثرات کا بڑا اثررہتا ہے یہ اثر 1977 میں تھا اور آج 2021 میں بھی موجود ہے۔
بھٹوبرجستہ زہین تھے لیکن اقتدار میں آکر غیرمقبولیت کا شکاربھی ہوئے۔ ایک بار جلسے میں لوگوں نے غصے میں جوتے دکھائےتوبولے” مجھے پتہ ہے کہ چمڑے کی قیمت بڑھنے سے جوتے مہنگے ہوگئے ہیں”۔عمران بھی غیر مقبولیت کا شکار ہوئے ہیں لیکن برجستہ اور رواں نہیں ہیں لیکن تاریخ بدستور رواں ہے۔عمران بھی بھٹو کی طرح اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں لیکن جو اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو کے ساتھ کیا کیا وہ عمران کے ساتھ ہوگا؟ کسی کو پتہ نہیں لیکن ڈریہی رہتا ہے کہ تاریخ 5 جولائی 1977 کو نئے روپ میں نہ دھرائے۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید

خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید

وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟—اعزازسید

پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید

اعزاز سید کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author