دسمبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شہباز شریف کو لندن روانگی سے روک دیا گیا

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف کو سات ماہ بعد کوٹ لکھپت جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔شہباز شریف کو 28ستمبر 2020کو نیب نے گرفتار کیا  تھا۔

لاہور ایئر پورٹ پر امیگریشن حکام نے مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو  لندن روانگی سے روک دیا ہے۔ 

ہم نیوز کے ذرائع کے مطابق امیگریشن حکام نے شہباز شریف سے کہا کہ ہمارے سسٹم میں آپ ابھی تک بلیک لسٹ ہیں جس کے بعد نجی ایئر لائن نے شہباز شریف کو آف لوڈ کر دیا۔

شہباز شریف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کا آرڈر ہے، ون ٹائم ٹریول کی اجازت دی گئی ہے۔ صدر مسلم لیگ ن نے ایئرپورٹ حکام کو عدالت کے احکامات بھی دکھائے۔

اس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے ایف آئی اے حکام کو صورت حال سے آگاہ کیا اور عدالتی حکم نامہ بھی پڑھ کر سنایا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے اہلکار عدالت میں موجود تھے، ایف آئی اے کوفیصلے کا معلوم تھا، اس بنیاد پر شہباز شریف کو روکا نہیں جاسکتا۔

دوری جانب مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایف آئی اے عمران خان کے حکم پر توہین عدالت کررہی ہے، ایف آئی اے نے شہباز شریف کا نام ایک اور لسٹ میں داخل کر دیا ہے،  سسٹم اپ ڈیٹ نہ ہونے کی بنیاد پر روکے جانا بدنیتی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف کو سات ماہ بعد کوٹ لکھپت جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔شہباز شریف کو 28ستمبر 2020کو نیب نے گرفتار کیا  تھا۔

 لاہور ہائیکورٹ  کے تین رکنی بنچ نے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو کچھ دیر بعد سنادیا گیا

اس سے قبل دو ججز نے بھی درخواست ضمانت گزشتہ ہفتے منظور کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم بنچ میں شامل جج جسٹس اسجد جاوید گھرال نے اختلافی نوٹ دیا تھا۔ اس کے بعد معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے سپرد کردیا گیا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت کے لئے جسٹس علی باقر نجی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ تشکیل دیا تھا۔

واضح  رہے کہ 28ستمبر 2020 کو لاہورہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کر دی  تھی جس کے بعد نیب نے شہباز شریف کوحراست میں لے لیا۔  

دورانِ سماعت مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا تھا کہ اڑھائی سو سال لگ جائیں گے مگر میرے خلاف  کرپشن ثابت نہیں کی جا سکے گی۔

لاہور ہائی کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ دن رات محنت کر کے  پنجاب کے عوام کی خدمت کی، بے نامی اثاثوں کا الزام  بے بنیاد ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پروکیورمنٹ میں پاکستان کے  ایک  ہزار ارب روپے بچائے، اورنج لائن میں ہم نے بولی لگوائی حالانکہ  قانون اجازت نہیں دیتا تھا۔

قومی اسمبلی میں قاید حزب اختلاف نے کہا کہ میرا ضمیر مجھے مجبور کر رہا تھا اس لیے ہم نے اورنج لائن میں 600 ملین روپے بچائے۔

مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میرے بے نامی اثاثے ہیں، اختیارات سے تجاوز کیا ہوتا تو مجھے پھر اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تھی۔ میرے بچوں اور عزیزوں کی شوگر ملز کو نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد نے 18 ماہ میں 6 فیکٹریاں لگائیں۔ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل مکمل کر لیے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ  کیس کی سماعت کی

قبل ازیں صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف عبوری ضمانت میں توسیع کیلئے لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ گزشتہ سماعت پر شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں پیر تک توسیع کی گئی تھی۔

قومی احتساب بیورو(نیب) لاہور کی جانب سے شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ نیب کے مطابق شہباز شریف نے متعدد بے نامی اکاونٹس سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی۔

نیب نے موقف اختیار کیا ہے کہ شہباز شریف کی درخواست ضمانت ناقابل سماعت ہے لہٰذا اسے مسترد کیا جائے۔

قبل ازیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی ضمانت میں 24 ستمبر تک توسیع کی گئی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی تھی۔ شہباز شریف بھی اس موقع پر عدالت میں موجود تھے تاہم عدالت نے سماعت کو جمعرات تک ملتوی کرتے ہوئے ضمانت میں بھی 24 ستمبر تک توسیع کر دی۔

ضمانت منسوخ ہونے کی صورت میں شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے نیب کی ٹیم بھی عدالت میں موجود تھی جو ضمانت منسوخ ہونے پر شہباز شریف کو گرفتار کرتی۔

شہباز شریف کی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر سی سی پی او لاہور بھی ہائی کورٹ میں موجود تھے۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے لاہور ہائی کورٹ میں سیکیورٹی کا جائزہ بھی لیا۔

About The Author