ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو نے کہا تھا کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات پھنس جاتے ہیں جبکہ بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔اور طبقاتی سماج میں قانون طاقتور کے دروازے کے دربان کی حیثیت رکھتا ہے اور کمزور کے لیئے قانون اپنی تمام تر حشر سامانیوں کےساتھ موجود ہوتا ہے ۔اس کی دلیل یہ کہ فٹ پاتھ پر کھڑی ہوئی ریڑھی ناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتی ہے قانون حرکت میں آتا ہے اور ریڑھی الٹ دی جاتی ہے اور ریڑھی مالک کو گرفتار کرلیا جاتا ہے وہی قانون حکم دیتا ہے کہ احتساب کے ادارے طاقتور سیاسی شخصیات کو گرفتار کرنے سے دس دن قبل گرفتاری کا نوٹس دیں گے ۔بنی گالہ میں کپتان کے گھر کے نقشہ کی منظوری سے لے کر کراچی میں بحریہ ٹاون کے نقشہ کی تیاری تک ایک قانون ہی ہے جو آنکھوں پر کالی پٹی باندھے دم سادھے رہتا ہے۔
یہی قانون ہی ہے جس کی بے چارگی پہ دل کڑھتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب قانون کورونا کی وبا کے پھیلاو کے پیش نظر لوگوں کو چھ بجے کے بعد اور عید کی چھٹیوں میں مکمل طورپر گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے رہا اسی قانون کی موجودگی میں چھوٹے میاں صاحب نا صرف جیل سے باہر نکلے ہیں بلکہ علاج کی غرض سے لندن بھی جارہے ہیں۔اس پر چند حکومتی وزیروں مشیروں نے شور ڈالا کہ یہ کیا ہورہا ہے تو شریف فیملی کی طرف سے ٹوئیٹ میں جواب ملا کہ روک سکو تو روک لو۔مگر روکنا کس کے اختیار میں ہے ناتو 2018 کے انتخابات میں تبدیلی کو آنے سے کوئی روک سکا اور نا اب شہباز کی پرواز کو کوئی روک پائے گا۔وجہ یہ کہ جب کوئی کام ملک وقوم کے وسیع ترمفاد میں ہو وہاں قانون ثانوی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ملک وقوم کا مفاد زیادہ معتبر ہوتا ہے ۔
اس حوالے سے ہم ایک قابل تعریف قوم ہیں کہ بات جب بھی ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کی آتی ہے تو ہم اخلاقی رکاوٹ کوبھی باآسانی عبور کرجاتے ہیں مگر ملک وقوم کے مفاد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے ۔گزشتہ ادوار میں ملک خطرات میں گھرا تھا تو ملک وقوم کے وسیع تر مفادات میں نئے پاکستان کے لیے تبدیلی لائی گئی ۔ہر کرپٹ کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ریاست مدینہ ثانی کے بنانے کا تاثر دینے کے لیے کئی بار ننگے پاوں مدینہ منورہ میں حاضری دی گئی ۔مگر ہم شاید یہ اصولی بات بھول گئے کہ مدینہ جیسی ریاست کی تشکیل جس جلیل القدر پیغمبر کے ہاتھوں ہوئی تھی اس جیسی ریاست ثانی کی تشکیل کرنے والے کا کردار قمیض میں سوراخ ہونے سے اور ننگے پاوں چلنے سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا۔جو کہ نہیں تھا اور نتیجہ سب کے سامنے ہےکہ ریاست مدینہ ثانی تشکیل نہیں پاسکی۔
حکومت کی اندر کی خبریں لانے والے ایک صحافی کے وی لاگ میں یہ بریکنگ نیوز دی گئی کہ کپتان کسی وقت اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں۔اور یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرئے گی اب خداجانے اس میں نئی بات کیا تھی یا اس کو بریک کرنے والے کون سی بات تھی ۔حکومت نے جس طرح کا وقت اب تک گذارا ہے اس کے بعد تو ان اسمبلیوں کو کب کا ٹوٹ جانا چاہیے تھا سوال اسمبلیاں توڑنے پر نہیں بلکہ دیر سے توڑنے پر ہونا چاہیے کہ بندہ خدا کیا سوچ کرتبدیلی کے نام پر ملک وقوم کا وقت ضائع کرتے رہے ہو۔
ایک اسسٹنٹ کمشنر تو تم سے سنبھالی نہیں گئی اور چلے تھے ملک کا نظام ٹھیک کرنے بہرحال جنوں میں جتنی گذری بکارہی گذری ہے
قصہ مختصر یہ کہ احتساب کے نام کا ڈرامہ بند ہونے جارہا ہےیہی وجہ ہے کہ ماضی کا ہر مبینہ کرپٹ یا تو جیل سے باہر ہے یا ملک سے باہر ہے۔اگر کوئی ایک آدھا اندر رہ گیا ہے تو پیشگی معذرت کے ساتھ اطلاع ہے کہ وہ بھی باہر ہوں گے کیونکہ اس وقت ملک وقوم کے مفاد کے نام کی نوٹنکی شروع ہونے جارہی ہے ۔ملک کو درپیش گھمبیر حالات کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں اور قائدین کا مل بیٹھ کر سوچنا ازحد ضروری ہوگیا ہے۔
لہذا بلاول ہاوس کراچی میں اسلامی ملکوں کے سفیروں کے افطار ڈنر سے لے کر شہبازشریف کی چینی ، سعودی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقاتیں بتارہی ہیں کہ معاملات کسی اور سمت چل پڑے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ کپتان بھی اس وقت سعودیہ پہنچ چکے ہیں جہاں پر کراون پرنس محمد بن سلیمان نے ان کا استقبال کیا ہے۔خطے میں بڑے ملکوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیئے ایک بارپھر ہماری ضرورت پڑگئی ہے لہذا صرف استقبال نہیں خیرسگالی اور محبتوں کے فروغ کے لیے ایک بہترین پیکج بھی تیار ہے کئی ایم اویوز پر دستخط ہونگے اور برادر اسلامی ملکوں کے درمیان قربتیں اور بڑھیں گی۔
اور ہم ضرورت پڑنے پر اپنے برادر اسلامی ملک کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ہر قدم پر ساتھ دیں گے۔
رہی بات چھوٹے میاں صاحب کی تو وہ بھی لندن بڑے میاں صاحب سے ڈائیلاگ کرنے جارہے ہیں امید ہے کچھ مدت تک خاموش تعاون کی یقین دہانی کے بدلے بہت کچھ حاصل کرنے کی یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔سوال یہ ہے کہ کیا بڑے میاں صاحب خاموش تعاون پر راضی ہوجائیں گے اور اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹ جائیں گے ؟کیا اس طرح بیانیے سے پیچھے ہٹ جانے سے ورکرز کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی اور پارٹی کارکن مایوسی کا شکار نہیں ہوگا تو ان سب سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ جب ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو پھر پارٹی ورکرز کی پسند نا پسند اہمیت نہیں رکھتی۔
ایسے مرحلے پر فیصلہ سازی کے دوران صرف اور صرف ملک وقوم کا مفاد مدنظر رکھا جاتا ہے اور ہونا کچھ یوں ہے کہ بڑے میاں صاحب شائد خاموش ہوجائیں گے اور چھوٹے میاں صاحب دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مفاہمت کی راہ اپناتے ہوئے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کریں گے ۔نتیجہ یہ کہ حصہ بقدر جثہ ملے گا اور پانی پلوں کے نیچے سے بہے گا۔عزیزو بس یہ سمجھ لیجئے کہ جس عطار کے لونڈے کے سب بیمار ہوئے تھے اسی سے دوائی لیں گے تو افاقہ ہوگا
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر