شکیل نتکانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایشئن ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے ملتان کے لئے نئے جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کئی سال ہو گئے مکمل ہو چکی ہے کیسز، وکلاء اور ججوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث ضلع کچہری کی تاریخی عمارت کم پڑ گئی اس لئے کئی عدالتیں کرائے کی عمارتوں میں قائم ہو چکی تھیں۔ وکلا کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے چیمبرز کی تعمیر اور حصول ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر گیا ان تمام پہلوؤں کے ساتھ ساتھ مستقبل کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے متی تل روڈ پر لاہور ہائیکورٹ کے زیرنگرانی نیو جوڈیشل کمیشن کا پہلے افتتاح ہوا اور بعد تعمیرات کا آغاز ہوا۔
تعمیر کے وقت جج اور وکلاء بہت پرجوش تھے لیکن جب عمارت مکمل ہو گئی تو وکیلوں کے ایک گروپ نے کچہری کو نیو جوڈیشل کمپلیکس میں شفٹ کرنے کی مخالفت کر دی آہستہ آہستہ وکلاء کے سارے گروپ شفٹنگ کی مخالفت میں ایک دوسرے سے مقابلے میں آ گئے۔ ان وکلاء کو پراپرٹی ڈیلرز کا ایجنٹ کہا گیا جو کچہری منتقلی کے حق میں تھے۔ ججز بحالی تحریک زوروں پر تھی اس لئے جج بھی وکلاء کے ساتھ مل گئے۔
ایک بار عدالتیں نئی کچہری منتقل بھی کر دیں گئیں لیکن وکلاء نے وہ اودھم مچایا کہ خدا کی پناہ۔ چیف جسٹس پاکستان نے معاملے کا نوٹس لیا اور دوسرے دن عدالتیں دوبارہ سے پرانی کچہری منتقل کر دی گئیں۔ اب عدالتوں کی منتقلی کی بات کرنا ایک جرم اور گناہ قرار پایا۔ کچہری سے باہر سڑک مستقل طور پر پارکنگ ایریا میں بدل چکی ہے۔ ڈی سی آفس جہاں مختلف وقتوں میں عارضی بنیادوں پر عدالتیں قائم کر دی گی تھیں اور ملحقہ پولیس لائن کی درجنوں کنال اراضی پہلے وکلاء اور بعد میں ججوں کی نظر میں آ گئیں۔
جب جسٹس قاسم خان جن کا تعلق ملتان سے ہے چیف جسٹس بنے تو کچہری کی توسیع کی مہم زور پکڑ گئی اور حکومت کو واضح الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ توسیع کے لیے زمین ہر صورت دینی پڑے گی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایک تجویز دی گئی کہ سارے ڈی سی آفس کی زمین توسیعی منصوبے کے لیے لے لی جائے اور بدلے میں نیو جوڈیشل کمپلیکس ڈی سی آفس کو دیدیا جائے جسے نہایت حقارت سے رد کر دیا گیا اسی طرح ہائیکورٹ کی عمارت کی توسیع کے لئے پنجاب ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کی عمارت بھی حاصل کر لی گئی اب دونوں ضلعی اور ہائیکورٹ عدالتوں کی توسیع پر کام زور و شور سے جاری ہے۔
ڈی سی آفس سے ملحقہ ضلع کونسل کی عمارت ہے۔ نئی باؤنڈری وال کی تعمیر کے لئے جب پرانی دیوار کو گرایا گیا تو اچانک آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ ضلع کونسل کی عمارت کے آخری کونے میں دکھائی دیا بس پھر قانون اور انصاف کے ٹھیکیداروں کا دل بے قابو ہو گیا اور نئی دیوار کی تعمیر کے لیے ایسی لائن کھینچی گئی کہ وہ واٹر فلٹریشن پلانٹ ضلع کونسل کی عمارت کی بجائے توسیعی منصوبے میں شامل ہو گیا۔
ضلع کونسل کے ایک داخلی گیٹ کا آدھا حصہ بھی اب توسیعی منصوبے میں شامل ہے کیونکہ اسے توسیعی منصوبے میں شامل کئے بغیر فلٹریشن پلانٹ توسیع منصوبے میں شامل نہیں ہو سکتا تھا۔ اب وہ گیٹ ایسے ہو گیا ہے کہ وہاں سے گاڑی نہیں گزر سکتی اس لئے گیٹ کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنا پڑے گا۔ باقی سنا ہے آج چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی زمین پر ڈی ایچ اے کے قبضے پر بہت گرجے برسے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر