نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاھور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان کے فرمودات !||رؤف لُنڈ

اب ایک قول منو بھائی کا۔۔۔ منو بھائی بار بار کسی خاص موقع یا صورتحال پر لکھتے تھے کہ " آج بھی ایسے لوگ ہیں جو حکمرانوں کے سامنے کلمہِ حق کہتے ہیں یہ اور بات کہ پوچھ کے کہتے ہیں " ۔۔۔۔۔۔۔

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاھور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان کے فرمودات ! حکمرانوں اور حکمران طبقے کو سانسیں عطا کرنے کو ایک شعوری کتھارسس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کب تلک ؟

اوقاف کی تقریباً پچاس کنال اراضی پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ( DHA ) کے قبضہ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان کے کمنٹس/فرمودات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ آرمی کیا کر رھی ھے "؟ ، "فوج قبضہ گروپ بن چکی ھے” ۔۔۔” فوج کا کام رسہ گیری ھے؟ ” ، ” وردی قوم کی خدمت کیلئے ہوتی ھے بادشاہت کیلئے نہیں” ، ” مَیں کور کمانڈر لاہور کو طلب کرتا ہوں مجھے طلب کرنا آتا ھے” ، ” بریگیڈئر ستی اپنی وردی اور سٹار اتار کے آئے یہیں سے جیل بھیجونگا "، ” یا ادھر سے آئی جی بھیجوں گا مگر آئی جی میں بھی پانی نہیں ھے”۔۔۔۔۔

ان فرمودات پر بے ساختہ طور پر ایک واقعہ/لطیفہ سکھ حکمران رنجیت سنگھ کا یاد آرہا ھے اور ایک قول منو بھائی کا۔۔۔ کہتے ہیں کہ ایک بار رنجیت سنگھ ہاتھیوں کے قافلے پر کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں شام پڑ گئی۔ اچانک ایک ٹُن بندہ رنجیت سنگھ کے سامنے آگیا اور سینہ تان کے کہا کہ "اوے یہ گدھے(ہاتھی) کتنے میں بیچو گے؟”، رنجیت سنگھ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے حراست میں لیکر صبح میرے حضور پیش کیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہوا۔ رنجیت سنگھ نے پوچھا کہ ہاں بھائی "کتنے گدھے(ہاتھی ) خریدنے ہیں؟” ، اب چونکہ رات گزر جانے کے بعد ٹُن بندے کا نشہ ہرن ہو چکا تھا تو اس نے جواب میں رنجیت سنگھ سے کہا ” مائی باپ ! رات والے بیوپاری چلے گئے” ۔۔۔۔۔

اب ایک قول منو بھائی کا۔۔۔ منو بھائی بار بار کسی خاص موقع یا صورتحال پر لکھتے تھے کہ ” آج بھی ایسے لوگ ہیں جو حکمرانوں کے سامنے کلمہِ حق کہتے ہیں یہ اور بات کہ پوچھ کے کہتے ہیں ” ۔۔۔۔۔۔۔

آج اوقاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس صاحب کے کمنٹس ( جو کسی فیصلے کے با قاعدہ ریکارڈ کا با ضابطہ حصہ نہیں بنتے ) پر ہر کہیں ، ہر جگہ خصوصاً سوشل میڈیا پر بڑی دھوم مچی ہوئی ھے۔ ایسے کہ جیسے کوئی انقلاب آ گیا ھو ۔ جیسے سول بالادستی کا بول بالا ہو گیا ھو ۔ جیسے جرنیل فرمانبردار بن گئے۔ جیسے طاقت عوام کے ہاتھوں آ گئی ھو ۔ جیسے سارے مسئلے حل ہو گئے ھوں ۔ جیسے کوئی دکھ باقی رہا ھو اور نہ کوئی ذلت ۔۔۔۔ جیسے ہر کوئی ریلکس ہو کر ساتھ ساتھ اپنے اردگرد والوں کو ریلکس کرنے میں جُت گیا ھو ۔۔۔۔۔۔۔

ایسی کیفیت ھی کو تو سیاسی و سماجی کتھارسس کہتے ہیں۔ اور چیف صاحب کے ان فرمودات کا شعوری مقصد بھی یہی تھا۔ ورنہ کہاں پِدی کہاں پدی کا شوربہ ؟ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بھی مشرف کو انکار کیا تھا۔ بڑا شور اٹھا تھا۔ مگر واقفانِ حال نے اس وقت بھی کہہ دیا تھا کہ مشرف کے سامنے اس انکار کے پیچھے جنرل شجاع پاشا کا ہاتھ ھے۔ اب بھی ممکن ھے کہ کوئی بریگیڈئر ستی سے ناراض ہو ، ڈی ایچ اے سے کوئی معاملہ درپیش ہو یا محض آئی جی صاحب کا پانی نکالنا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال کچھ بھی ہو اور کچھ بھی نہ ہو اتنا تو ہوگیا کہ کچھ وقت کیلئے سہی ہر کوئی ریلیکس ہوگیا ، کئی برننگ ایشوز/سلگتے مسائل کچھ وقت کیلئے سہی دب تو گئے۔ حکمرانوں اور حکمران طبقے کو کچھ وقت مل ھی گیا۔ بہت سے محکوموں اور محروموں کی زندگیوں کو بے رونق کرنے کیلئے حکمرانوں کیلئے کچھ وقت بھی بہت ہوتا ھے۔ یہ طبقاتی سماج ھے۔ طبقاتی سماج کے ہر ادارے کے قیام و استحکام کا حتمی مقصد بالادست طبقے کا مفاد ہوتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔

مگر خیر ! بقول کامریڈ لال خان ” مایوسیوں اور ذلتوں میں سسکتے ہوئے بھی لوگ سوچنا نہیں چھوڑتے۔ اور نہ ھی کبھی اپنے دکھوں ، دکھ دینے والے دشمن طبقاتی نظام اور اس نظام کے گماشتوں سے بدلہ لینے کے آدرشوں سے دستبردار ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے آدرشوں کی شان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ

” ظلم کی بات ھی کیا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظلم کی اوقات ھی کیا ؟ "۔

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

رؤف لُنڈ کی مزید تحریریں

About The Author