نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم سماجیات کے متعدد ماہرین ماضی میں وحشت پھیلاتی کئی وبائوں کے حوالے دیتے ہوئے اصرار کئے جارہے ہیں کہ کرونا کے بعد پورے عالم میں روزمرہّ زندگی کا چال چلن ویسا نہیں رہے گا جس کے ہم برسوں سے عادی ہوچکے ہیں۔ ان کے لکھے چند مضامین جو ٹھوس حوالوں اور اعدادوشمار کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے اپنا مؤقف بیان کررہے تھے، میں نے بھی بہت غور سے پڑھے ہیں۔ کنویں میں بند مینڈک کی طرح مگر اپنے حال میں مست رہا۔
میرے جاہلانہ اطمینان کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران واقعتا گھبرا گیا تھا۔اس کی بدولت اٹلی میں جو قیامت خیز مناظر دیکھنے کو ملے انہوں نے میرے دل کو دہلا دیا ۔چسکہ فروشی کے امکانات سے بھرپور کئی موضوعات کو نظرانداز کرتے ہوئے میں نے تواتر سے کرونا کی بابت لکھنا شروع کردیا۔ وباء کے بارے میں لکھے کالموں کو سوشل میڈیا پر خاص پذیرائی نصیب نہ ہوئی۔کرونا کی لہر آئی اور گزر گئی۔
نظر بظاہر ہمارے ہمسایے میں مودی سرکار کی جانب سے لاگو ہوا سخت ترین اور ہمارے وزیر اعظم کی فراست کی بدولت دریافت ہوا’’سمارٹ‘‘ لاک ڈائون جنوبی ایشیاء کو کرونا کی وباء سے ’’بچاگیا‘‘۔ ایک خوش فہم اتائی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے میں نے اس ’’بحث‘‘ کے حوالے سے ٹیوے لگاتے ہوئے چند ’’وجوہات‘‘ بھی دریافت کرلیں۔یہ طے کرنے کو مائل ہوا کہ اس خطے کے باسی ڈھیٹ ہڈی کے بنے ہوئے ہیں۔ہمارے عوام کی اکثریت جس ’’صاف ستھرے‘‘ ماحول میں رہتی ہے وہ ہر نوعیت کے جراثیموں کو متحرک رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں خوراک بھی بہت ’’خالص‘‘ ہے۔ان سب کے باوجود زندگی رواں رہتی ہے۔ مختلف النوع بیماریاں فقط افراد کو متاثر کرتی ہیں پورے معاشرے کو مفلوج نہیں بنادیتیں۔
صحت عامہ پر کڑی نگاہ رکھنے والے تاہم اصرار کرتے رہے کہ دُنیا کے کسی کونے میں بھی کوئی وباء پھوٹ پڑے تو دیگر ممالک کا اس سے تحفظ ممکن ہی نہیں۔دورِ حاضر کی دُنیا ویسے بھی سمٹ کر ایک ’’گائوں‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے۔کرونا سے تحفظ فقط اسی صورت ممکن ہوگا اگر اس کے تدارک کی ویکسین ایجاد ہوجائے۔ اس کی ایجاد ہی مگر کافی نہیں۔ اصل امتحان یہ بھی ہے کہ کسی ملک کی آبادی کا کم از کم 70فیصد حصہ یہ ویکسین لگوائے اور یوں Herd Immunityکو یقینی بنائے۔
سائنس دانوں کی لگن سے بالآخر دس سے زائد نوعیت کی ویکسین بھی ریکارڈ مدت میں تیار کرلی گئی ہیں۔بھارت ان ممالک میں سرفہرست تھا جنہوں نے آکسفورڈ کے چند ماہرین کے تیارکردہ فارمولے کے مطابق ایک ویکسین کی تیاری میں حیران کن پیش رفت دکھائی۔یہ ویکسین یقینا بہت مؤثر ہے۔مودی سرکار نے اس کی تیاری کے حوالے سے جائز بنیادوں پر فخر کا اظہار کیا۔
گزشتہ دو دہائیوں سے بھارت کی حکمران اشرافیہ کو یہ جنون بھی لاحق ہوچکا ہے کہ اس نے اپنے ملک کو چین کا ’’جمہوری‘‘ متبادل ثابت کرنا ہے۔ ان کے ہاں ویکسین تیار ہوگئی تو دیگر ممالک کو اپنے ہاں تیار ہوئی ویکسین ’’تحفتاََ‘‘ فراہم کرنا شروع کردی۔خود کو اس کی وجہ سے ایک’’رحمدل‘‘ مگر جدید ترین اور طاقت ور قوت ثابت کرنے کی کوشش کی۔یہ حقیقت مگر نظرانداز کردی کہ آبادی کے اعتبار سے وہ دُنیا کا دوسرا بڑا ملک بھی ہے۔اس آبادی کے کم از کم 70فی صد کو ویکسین لگاکر کرونا سے محفوظ رکھنا جوئے شیر لانے جتنا بڑا چیلنج ہے۔
بدقسمتی سے وہ اس چیلنج کے تقاضے نبھانے میں ناکام رہا ۔ بھارت کے بڑے شہروں میں اب کرونا کی وجہ سے ویسے ہی قیامت خیز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جو آج سے ایک سال قبل امریکہ کے کئی شہروں کے علاوہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں نظر آرہے تھے۔ ذاتی طورپر میں ’’دشمن‘‘ کو انتہائی مصیبت میں مبتلا دیکھتے ہوئے میاں محمد کے بیان کردہ ’’…سجناں دی‘‘ والے رویے کا حامل ہوں۔ ربّ کریم سے رحم کی فریاد کررہا ہوں۔
حکمران اشرافیہ کی ڈھٹائی تاہم ذہن کو حیران وپریشان کردیتی ہے۔ مودی سرکار اپنے ہاں ویکسین کی سپلائی چین کو مؤثر تر بنانے اور کرونا کی زد میں آئے بدنصیبوں کو آکسیجن کی فراہمی یقینی بنانے کے بجائے جمعہ کی رات سے ٹویٹر کی انتظامیہ کو مجبور کررہی ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر ایسے پیغامات نظر آنے نہ دے جو بھارت کو کرونا کے روبرو بے بس ہوا دکھائی دے رہے ہیں۔اپنے وطن کے Imageیعنی شوشا کا تحفظ گویا اس کی اولیں ترجیح ہوگئی ہے۔
مودی سرکار کی شکایت کا علم ہوا تو میں نے ہفتے کے روز فراغت کے کئی گھنٹے فقط ٹویٹر کا جائزہ لینے میں صرف کئے۔ Data Analysisمیرا شعبہ نہیں۔ کئی گھنٹوں کی تحقیق کے بعد جبلی طورپر مگر دریافت کیا کہ کرونا کی موجودہ لہر کے حوالے سے غالباََ 5فی صد سے بھی کم افراد بھارت کی ٹویٹس کے ذریعے بھد اُڑانے میں مصروف ہیں۔
بھارت سے اس ضمن میں پوسٹ ہوئے پیغامات کی اکثریت بلکہ نام اور مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فریاد کررہی تھی کہ فلاں شہر کے مقام پر فلاں شخص کو آکسیجن کی اشد ضرورت ہے۔نصابی اعتبار سے ایسے پیغامات کو ہر صورت Public Service Messagesیعنی خلقِ خدا کی مدد کے خواہاں پیغامات شمار ہونا چاہیے۔ ان کی کثیر تعداد یقینا یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ مودی سرکار کرونا کے ہاتھوں بے بس ولاچار ہوچکی ہے۔اس حقیقت کے بارے میں چراغ پا ہونے کی ڈھٹائی مگر اشرافیہ ہی دکھاسکتی ہے اور اس رویے کو کسی ایک ملک کی اشرافیہ تک محدود رکھنا بھی زیادتی ہوگی۔
ٹویٹر پر لگے پیغامات کا مزید جائزہ لیا تو شبہ یہ بھی ہوا کہ مودی سرکار کو درحقیقت ان پیغامات نے پریشان کررکھا ہے جو آکسیجن کی فوری فراہمی کے حوالے سے بھارت کو روس اور چین کی جانب سے آئی پیش کش کا حوالہ دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان جیسے ’’ازلی دشمن‘‘نے بھی انسانی ہمدردی کے جذبے سے مغلوب ہوکر اپنی توفیق کے مطابق چند امدادی آلات واشیاء بھارت بھجوانے کی پیش کش کی ہے۔ چین اور روس کے رویے کا تقابل ٹویٹر پر متحرک کئی بھارتی امریکہ کے برتے رویے سے کررہے ہیں۔
ادویات کی تیاری کے حوالے سے چین کے علاوہ بھارت اس صنعت کے حتمی اجارہ دار تصور ہوتے ہیں۔چند ہی دن قبل بھارت نے امریکہ سے باقاعدہ درخواست کی تھی کہ اس کے دواساز اداروں کو ویکسین کی ان تمام اقسام کی تیاری کے ’’فارمولے‘‘ فوراََ فراہم کئے جائیں جو اس وباء کے تدارک کو یقینی بناتے ہیں۔ان کی تیاری کے لئے لازمی شمار ہوئے مخصوص خام مال کی فوری بنیادوں پر فراہمی بھی ممکن بنائی جائے۔بائیڈن انتظامیہ نے اس ضمن میں ہنگامی طورپر کوئی پیش قدمی نہیں دکھائی۔ بھارتی عوام کی اکثریت کو امریکہ بلکہ سفاکانہ لاتعلقی اختیار کرتا نظر آیا۔ وباء سے گھبراہٹ کے موسم میں ایسے تقابل ’’فطری‘‘تصور ہوتے ہیں۔مودی سرکار کو مگر اپنے Imageکی فکر لاحق ہے۔
حکمران اشرافیہ سے مخصوص رعونت مودی سرکار کو ابھی تک قائل نہیں کرپارہی ہے کہ جغرافیہ اپنی جگہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔چین بھارت کا ہمسایہ بھی ہے۔ موجودہ ہنگامی صورت حال میں فقط چین ہی بھارت کو مؤثر تعاون فراہم کرسکتا ہے۔ لداخ کے بنجر پہاڑوں پر ’’میری زمین -تیری زمین‘‘ والے احمقانہ قضیے کو بھلاکراگر صحت عامہ کے وسیع تر مفاد میں دونوں ممالک کرونا کے تدارک کو یقینی بنانے کے لئے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرتے نظر آئیں تو ہمار اخطہ دنیا بھر کے لئے بلکہ علاقائی ممالک کے باہمی اشتراک کے ذریعے یہاں آباد کروڑ ہا باسیوں کی صحت کو بہتر بنانے کے علاوہ امن،ترقی اور خوش حالی کو یقینی بنانے کا قابل تقلید ماڈل یا مثال بن کربھی اُبھر سکتا ہے۔
نام نہاد Strategic خواب مگر ریاستوں کے پالیسی سازوں کو حقیقی انسانی مسائل کی بابت سفاکانہ حد تک لاتعلق بنادیتے ہیں۔کلام پاک میں ایسے رویوں کے حامل افراد کے دلوں پر مہریں لگی بتائی گئی ہیں۔دلوں کو کھولے بغیر انسانیت کی فلاح وبقاء کی کوئی راہ موجود ہی نہیں ہے۔ مودی سرکار کو لہٰذا کشادہ دلی اختیار کرنا ہوگی۔ ایک مچھر نے نمرود کی’’خدائی‘‘ کو ٹھکانے لگادیا تھا۔ آج کی حکمران اشرافیہ کی رعونت کوبھی کرونا پھیلانے والے جراثیم کے روبرو سرجھکانا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر