احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ گھڑی موت کی ہے۔پاکستان اور بھارت کے عوام ایمبولینسوں میں ،ہسپتالوں کے مرکزی دروازوں اورکورونا وارڈ ز میں ،گھروں کے تاریک کمروں میں اور ہسپتالوں کی طرف دوڑتی ہوئی حالت میں مَر رہے ہیں اور بہت ہی بے بسی سے مَر رہے ہیں۔کہیں آکسیجن نہیں ،کہیں وینٹی لیٹر نہیں،کہیں ہسپتالوں میں خالی بیڈ نہیں،کہیں فارمیسی میں دوائیاں نہیں۔مگر میڈیکل سٹورز ماسک سے بھرے پڑے ہیں ،حتیٰ کہ گلی محلوں میں ماسک بیچنے والوں کی صدائیں گونجتی رہتی ہیں ،یہ ارزاں ہیں اور دسترس میں بھی،مگرکورونا کی لپیٹ میں آئے ہوئے جب چنگے بھلے ہوتے ہیںتو ماسک لگانے کا تردّد نہیں کرتے۔
ایک ماسک بڑے سے بڑے المیہّ سے بچا سکتا ہے۔ایک طرف سڑکوں پر گاڑیوں کے ہارن کے بجائے ایمبولینسوں کے سائرنوں کی گونج ہے ،دوسری طرف لوگوں کا ہجوم بازاروں پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔عجیب طرح کی ترجیحات ہیں،ماہِ رمضان ہے ،عید پر کپڑے جوتے چاہئیں،سجنے سنورنے کا سامان چاہیے،کیا اِن سب چیزوں کی خریداری ،لمحہ ٔموجود کے عظیم انسانی دُشمن پر قابو پانے سے زیادہ ضروری ہے؟
تاجر برادری سراپا احتجاج ہے کہ لاک ڈائون نہیں لگاناچاہیے،یہ وزیرِ اعظم عمران خان کے ہم آواز بن چکے ہیں کہ اگر لاک ڈائون لگایا گیا تو کورونا سے زیادہ بے روزگاری اور بھوک سے لوگ مرجائیں گے؟تاجر برادری کو کب سے مزدور طبقہ کے لوگوں کا غم کھانے لگاہے؟
یہ منافع کی خاطر کورونا کی طاقت بننے کا عزم رکھتے ہیں۔تعلیمی ادارے بند کرنے کا سوچا جائے تو نجی اداروں کی تنظیمیں دھمکیاں دینے پر اُتر آتی ہیں،یہ تنظیمیں ہمارے بچوں کو ’’زیورِتعلیم‘‘سے آراستہ کرنے پر ’’بے چین‘‘نظر آتی ہیں۔لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے زیادہ تر باشندوں کا مسئلہ ذہنی پسماندگی ہے ،یہ طبقہ اپنی ضروریات ِزندگی تو پالیتا ہے ،لیکن جس کو عقلِ سلیم کہتے ہیں ،پانے سے محروم رہتا ہے۔یہ ماسک کو مسلمانوں کے خلاف سازش سمجھتے ہیں اور ویکسین کو زہر کی خوراک ۔
میرا جس طبقے سے تعلق ہے ،یہ سارادِن اور رات بھر کورونا وبا کی خبریں نشر اور پرنٹ کرتا ہے،یہ دُنیا بھرمیں کورونا کی تباہ کاریوں کی رپورٹس اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کی صورت عوام تک پہنچاتا ہے،کورونا سے بچائو کی احتیاطی تدابیر اور ماہرین کی آراء اور مشوروں کو عام کرتا ہے ،مگر اس طبقے کے زیادہ تر لوگ دفاتر میں ماسک نہیں لگاتے ،سماجی فاصلہ نہیں رکھتے اور ایک دوسرے کو جپھیاں ڈال کرملتے ہیں،آج کل چونکہ روزے ہیں تو یہ اجتماعی افطار کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
اگر اِن سے بات کی جائے تو وبا کو مذاق قرار دیتے ہیںاور نیوزرومز میں بیٹھ کر ویکسین کو انسانی زندگی کے لیے مضر قراردیتے ہیں۔حالانکہ یہ سب لوگ جب بیمارپڑتے ہیں تو دوائوں سے ہی دوبارہ صحت کی نعمت کو پاتے ہیں ،ان میں سے کسی کے ساتھ زندگی میں ایسا نہیں ہواہوگا کہ سردرد کی دوا کھانے سے افاقہ کی بجائے دردفزوں ہوا ہو۔لیکن پھر بھی یہ لوگ ویکسین کو خطرہ قراردیتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے عوام پر مصیبت کی گھڑی ہے۔مقامِ افسوس ہے کہ مصیبت کی چادر دونوں طرف کے عوام نے اپنے اُوپر خود اُوڑھ رکھی ہے اور عوام کا بھی وہ طبقہ جو لوئر مڈل کلاس اور غربت سے متعلق ہے۔مجھے یہ لکھتے ہوئے بہت تکلیف ہورہی ہے کہ مصیبت کی یہ گھڑی طویل ہوگی۔دونوں طرف سے انسانی آبادی کا ہجوم ہے،دونوں اطراف میں صحت کا شعبہ کمزور ہے۔ماسک لگانا،سماجی فاصلہ رکھنااور ہاتھ باربار دھونے کا شعور ،جس طبقے کو زیادہ ہے ،وہ ویکسین لگوانے میں قطاروں میں لگا کھڑا ہے،اس طبقہ نے کورونا پھیلائو میں کوئی زیادہ کردار بھی ادانہیں کیا تھا،یہ طبقہ زیادہ تر گھروں میں رہتا ہے ،بلاوجہ باہر نہیں نکلتا۔لیکن کورونا پھیلانے والے طبقات و یکسین سے دُور بھاگ رہے ہیں،
جب یہ ویکسین نہیں لگوائیں گے تو اس وباپر مکمل کنٹرول کیونکر ہوپائے گا؟ماسک اور سماجی فاصلہ احتیاط ہے ،بیماری سے بچائو کا نسخہ ہے ،مگر مکمل علاج نہیں ،مکمل علاج صرف اور صرف ویکسین ہے۔مگر حالات وواقعا ت بتارہے ہیں کہ وبا پھیلانے والے طبقات سیکھنے اور سمجھنے کے لیے ہر گزتیار نہیں ہیں۔اگر یہ ماسک لگابھی لیں تو چھینکتے اور کھانستے وقت ماسک اُتار لیتے ہیں ،زیادہ تر ماسک ناک سے نیچے رکھتے ہیں ،بھیڑ والی جگہ پر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔گھرمیں بیٹھنا گناہ سمجھتے ہیں اور اگر غلطی سے گھر میں بیٹھ جائیں تو باقی گھروالوں کا ناک میں دَم کیے رکھتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے فیصلہ سازوں کے لیے یہ گھڑی فیصلے کی ہے۔اِن کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کورونا کے بعد یہ اپنے اپنے ملکوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟مگر وباکی موجودگی میں اِن کی ترجیحات آنے والے وقت کی تاریخ کا سراغ دے رہی ہیں۔اِن کے انتظامی اقدامات اور بحران سے نمٹنے کی مساعی ،اِن کی صلاحیتوں کا بھرم توڑ چکی ہیں۔عام لوگ اور صاحبانِ اقتدار سے مکمل مایوسی کے بعدساری ذمہ داری دونوں طرف کے اُن لوگوں پر آن پڑتی ہے ،جو عقل و شعور کے حامل ہیں،جو جنگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اور انسانی زندگی کے تحفظ پر ایمان رکھتے ہیں،جن کے دِل محبتوں سے بھرے رہتے ہیں اور جن کے قلم کی روشنائی اَمن کے نغمے تخلیق کرتی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کو دونوں طرف کے عوام میں کوئی فرق نہیں محسوس پڑتا،اِن کی آنکھیں سرحدوں کے آرپار کے منظر دیکھ لیتی ہیں۔اگر بھارت میں شمس الرحمن فاروقی اور مشرف عالم ذوقی کا جنازہ اُٹھے تو صفِ ماتم اِدھر بچھ جائے اور اگر پاکستان میں خالد طور،فرتاش سید کا صدمہ خبر کی صورت نشر ہوتو اُدھر آنکھوں سے آنسوبہہ اُٹھیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو وقت کی پیشانی پر لکھا پڑھ لیتے ہیں اور آنے والے موسموں کی سرگوشیاں سمجھ لیتے ہیں ،مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟تو پھرکیا یہ وباآسانی سے ٹلنے والی نہیں؟
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر