نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Wusat Ullah Khan

یا علاج کیجئے یا زخم چاٹتے رہئے (مکمل کالم)|| وسعت اللہ خان

مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے عملاً اتنا ہی کٹھن ہے۔ یو این ڈی پی کی علاقائی سربراہ اور اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کانی وگنا راجہ کے بقول مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ سمیت فیصلہ ساز اداروں میں بیٹھے جو افراد مراعات کو نیچے تک منتقل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

وسعت اللہ خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور

کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہی کی دولت سے (میر)

دو ہفتے قبل اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) نے پاکستان میں معاشی مساوات کی تازہ تصویر کی بابت قومی انسانی ترقی کی جو رپورٹ شائع کی۔ اس نے میر صاحب کا مذکورہ بالا شعر بصورتِ زخم پھر ہرا کردیا۔

ایک بار پھر یہ تلخ حقیقت آنکھوں کے آگے لہرا گئی کہ معیشت کے کنوئیں میں بھرے آلودہ استحصالی پانی کو خوش نیتی کے ڈول سے بھر بھر کے کنواں جتنا بھی خالی کر لیں۔ کنواں ہرگز پاک و صاف نہیں ہو سکتا اگر اس میں بدنیتی کے کتے کی لاش پڑی رہتی ہے۔

اس رپورٹ نے ایک بار پھر اس حقیقت کو سامنے کر دیا کہ جن کے ہاتھ خزانے پر ہیں وہ کبھی بھی رحم کی کنجی سے ترقی کا تالا نہیں کھولنے دیں گے۔ عام آدمی اپنی ناقابلِ برداشت بے بسی کے ہاتھوں جب جب بھی بلبلائے گا اس کے آگے زیادہ سے زیادہ چند نمائشی رعایتوں کے سوکھے ٹکڑے اور چھچھڑے ڈالے جاتے رہیں گے۔ کچھ کو زیادہ کچھ کو کم تاکہ وہ مرنے نہ پائیں اور حریص نگاہوں سے ایک دوسرے پر پل پڑنے کی سوچ میں ہی الجھے رہیں۔

یہ رپورٹ کسی دشمن کے پروپیگنڈہ سیل، کسی سیاسی گروہ کے خود غرض تھنک ٹینک، کسی اجرتی ماہرِ معیشت یا کسی بڑی طاقت کے دم چھلے نے نہیں بلکہ سب سے ذمہ دار عالمی ادارے نے مرتب کی ہے کہ جس کی قرار دادوں، کنونشنز، پروٹوکولز کا پاکستان نہ صرف دستخط کنندہ ہے۔ بلکہ اس ادارے کی مختلف شاخوں کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے بھی حصہ لیتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی قومی آمدنی کا چھ فیصد یعنی سالانہ سترہ اعشاریہ چار ارب ڈالر اشرافیہ (کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاستداں اور عسکری شعبہ) کو بطور اقتصادی رعایات و سہولیات دان کیا جا رہا ہے۔ طاقتور گروہ اپنے جائز حصے سے زائد غصب کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔

سماجی عدم مساوات کو سٹرکچرل حمایت حاصل ہے جس کے سبب امتیازی مراعات کی تقسیم و عدم تقسیم ہوتی ہے۔ اس فرق کو ختم کرنے کے لئے جو پالیساں بنائی بھی جاتی ہیں وہ یا تو ناکام ہو جاتی ہیں یا پھر عدم مساوات کے ڈھانچے کو اور مستحکم کر دیتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکسوں میں چھوٹ، پیداواری لاگت اور درآمد و برآمد میں امدادی رقوم کی نوازشات نیز سرمائے، زمین اور خدمات تک نسبتاً آسان پہنچ جیسی رعائتوں کا سب سے زیادہ فائدہ کارپوریٹ سیکٹر اٹھا رہا ہے اور اس فائدے کا حجم چار اعشاریہ سات ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

دوسرے نمبر پر جو مراعاتی طبقہ ہے وہ اگرچہ آبادی کا محض ایک فیصد ہے مگر بطور کاروباری طبقے کے نو فیصد قومی آمدنی کا مالک ہے۔ جب کہ تیسرے نمبر پر جاگیردار طبقہ ہے جو کل آبادی کا محض ایک اعشاریہ ایک فیصد ہے البتہ وہ بائیس فیصد قابلِ کاشت زمین کا مالک ہے۔

دونوں طبقات کی پارلیمنٹ میں مضبوط نمائندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار انہی دو طبقات سے آتے ہیں۔ جبکہ عسکری اداروں کو زمین، سرمائے اور پیداواری ڈھانچے تک آسان رسائی اور ٹیکس چھوٹ کے ذریعے سالانہ ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر کا فائدہ پہنچتا ہے۔

ان اداروں کی بڑی سرمایہ کاری مختلف کاروباروں، لینڈ ڈویلپمنٹ اور سرکاری تعمیراتی شعبوں میں ہے۔ اور یہ معلوم کرنا خاصا دشوار ہے کہ ان اداروں کو اپنی با اختیاری اور حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں براہِ راست کس قدر فائدہ پہنچتا ہے اور پھر سرکاری و نجی شعبے سے شراکت داری کے نتیجے میں بالواسطہ کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یعنی مجموعی فوائد کی شرح کیا ہے؟

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ملکی معیشت کے کیک کا حجم دو ہزار اٹھارہ انیس میں تین سو چودہ اعشاریہ چار بلین ڈالر تھا۔ اس کیک کا اگر چھ فیصد حصہ ملک کے ایک فیصد امیر ترین کاروباری طبقے کے تصرف میں ہے تو انتہائی غریب ایک فیصد لوگوں کے تصرف میں محض سو روپے میں سے پندرہ پیسے ہیں۔

مجموعی طور پر بیس فیصد بالائی طبقے کے تصرف میں پاکستان کی انچاس اعشاریہ چھ فیصد (لگ بھگ پچاس فیصد) قومی آمدنی ہے اور سب سے نچلے بیس فیصد غربا کی پہنچ محض سات فیصد قومی آمدنی تک ہے۔

رپورٹ میں یو این ڈی پی نمائندہ برائے پاکستان الیونا نکولیتا کے بقول پاکستان کے امیر اور غریب تعلیم، صحت اور معیارِ زندگی میں شدید فرق کے اعتبار سے عملاً دو مختلف ممالک کے باسی ہیں۔ اس پر مستزاد متوسط طبقہ مسلسل سکڑ رہا ہے۔ دو ہزار نو میں متوسط آمدنی والا طبقہ بیالیس فیصد تھا جو دو ہزار انیس میں سکڑ کر چھتیس فیصد پر آ گیا۔

جبکہ علاقائی عدم مساوات میں اس لئے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ جو علاقہ جتنی زیادہ آمدن دے رہا ہے۔ وہاں سہولتوں پر اتنا ہی ترقیاتی بجٹ خرچ ہو رہا ہے۔ جبکہ پسماندہ علاقے اپنے حال پر چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ امیر علاقوں اور طبقات پر سرکاری ترقیاتی اخراجات کا تناسب سینتیس اعشاریہ دو فیصد ہے جبکہ غریب ترین طبقات کا ترقیاتی اخراجات میں حصہ محض چودہ اعشاریہ دو فیصد ہے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اگر پاکستان واقعی عدم مساوات کی دلدل سے نکلنے میں سنجیدہ ہے تو پھر اسے طاقت کی بنیاد پر حصہ داری کے بجائے انسانی ترقی کے تمام ضروری شعبوں میں ضرورت کے پیمانے پر وسائل کی تقسیم اور کھپت کے اصول کو کسوٹی بنانا ہوگا۔ اس وقت تو صورت یہ ہے کہ انسانی ترقی کی عالمی انڈیکس میں جنوبی ایشیا میں افغانستان کو چھوڑ کے پاکستان خطے کے تمام دیگر چھ ممالک سے پیچھے ہے۔

اس فرق کو کم کرنے کے لئے امرا اور غربا کی مراعاتی تقسیم کرنے والی شیشے کی چھت توڑنا پڑے گی۔ خوشحالوں کی مراعات میں کمی سے حاصل ہونے والا پیسہ غربا کی تعلیم، صحت اور روزگار کی جانب موڑنا پڑے گا۔ انہیں بلاواسطہ ٹیکسوں سے بچا کر براہ راست ٹیکسیشن کا رخ مراعاتی طبقے کی طرف موڑنا ہوگا۔

مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے عملاً اتنا ہی کٹھن ہے۔ یو این ڈی پی کی علاقائی سربراہ اور اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کانی وگنا راجہ کے بقول مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ سمیت فیصلہ ساز اداروں میں بیٹھے جو افراد مراعات کو نیچے تک منتقل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ وہی ان مراعات کے سب سے زیادہ خواہش مند ہیں۔ وہ ایک ہاتھ سے اگر کچھ دیتے بھی ہیں تو قانونی ڈھانچے کی ساخت ایسی ہے کہ دوسرے ہاتھ سے یہی مراعات دوبارہ ان تک پہنچ جاتی ہیں۔ وہی تقسیم کنندہ بھی ہیں وہی نگراں بھی ہیں اور وہی محتسب بھی۔

سندھی کی ضرب المثل ہے ” لوٹے بھی جہان خان، فیصلہ بھی جہان خان کرے ”۔

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

About The Author