محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم سینیئر تجزیہ کاروں میں نازش بروہی میری فیورٹ ہے۔ حکومت اب گئی کہ تب گئی والی تجزیہ نگاری سے پرہیز کرتی ہیں۔ گوروں کی نسل پرستی والے بیان میں ملا نصیر الدین کے لطیفے سُناتی ہیں۔
سیاسی اور تاریخی شعور کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے ثقافتی رویوں پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ لکھتی انگریزی میں ہیں لیکن کہاوتیں بلوچی زبان کی استعمال کرتی ہیں۔ ہماری زندگی کے بڑھتے ہوئے انتشار میں بھی امید کی کوئی کرن ڈھونڈ لیتی ہیں۔
چند مہینے پہلے انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ کتنی اچھی بات ہے کہ ہم اپنے ملک میں ہر قسم کی گستاخی ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن خدا پاک کی شان میں گستاخی کی کوئی روایت نہیں۔ میں نے بھی پڑھ کر سر ہلایا کہ ہاں وہ تو بے نیاز ہے۔
چند ہفتے بعد صبح اٹھے تو پتہ چلا کہ سندھ کے زندہ پیر اور محبوب لکھاری امر جلیل پر گستاخی کا الزام لگ چکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جو توہین کا الزام لگاتے ہیں وہی اسے زیادہ پھیلاتے ہیں۔
کسی ادبی میلے میں پڑھی ہوئی ان کی کہانی کی چند سال پرانی ویڈیو ان کے گستاخ ہونے کے ثبوت میں پیش کی جا رہی تھی۔ سر تن سے جدا کے نعرے سوشل میڈیا پر گونج رہے تھے۔
کچھ زیادہ ہی دلیل سے بات کرنے والے یہ مطالبہ بھی کر رہے تھے کہ چونکہ ویڈیو میں سینکڑوں سامعین موجود ہیں جو اسی کہانی سے محظوظ ہو رہے ہیں تو ان سب پر بھی توہین کا مقدمہ بنتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں شاید ہی کسی ادیب کو اتنا پیار ملتے دیکھا ہے جتنا امر جلیل کو۔ کسی ادبی میلے میں آتے ہیں تو ان کے سامعین میں تین نسلوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ وہیل چیئروں پر بیٹھے بزرگ بھی اور میٹرک کے طالبِ علم بھی۔
ایک دفعہ کسی دوست نے کہا تھا اتنے لوگ تو سارے سندھی قوم پرست مل کر بھی اکھٹے نہیں کر سکتے جتنے یہ اکیلا امر جلیل کر لیتا ہے۔
تیکھی سے تیکھی بات بھی امر اتنے میٹھے لہجے میں کر جاتے ہیں کہ اگر کسی کی توہین ہو رہی ہو تو اسے بھی پتہ نہ چلے۔
میں عام طور پر توہین والا مواد انٹرنیٹ پر نہیں ڈھونڈتا (یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی صبح اٹھ کر محلے میں نکل جائے اور ہر ایک سے پوچھتا پھرے کہ آج میری ماں کو گالی کس کس نے دی ہے)۔
دوستوں سے پوچھا تو پتا چلا کہ عجیب کیس ہو گیا ہے امر جلیل پر پروردگار کی توہین کا الزام ہے۔
پہلے دل میں خیال آیا کہ بڑا رائٹر ہے پھڈا بھی بڑے سے ہی لیا ہو گا۔ لیکن پھر قتل کی دھمکیاں اور اُمت اخبار کی ہیڈ لائنیں دیکھیں تو دل خوف سے بھر گیا۔ امر جلیل کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی۔
سوچنے لگا کہ کیا ہمیں اب اپنے خدا سے بات کرنے کے لیے بھی ٹوئٹر پر توہین تلاش کرتے لونڈوں سے اجازت لینی پڑے گی؟
بچپن میں قصص الانبیا میں پڑھا ہوا ایک واقعہ بھی یاد آیا۔ جب حضرت موسیٰ نے ایک گڈریے کو ڈانٹا اور پھر خدا نے موسیٰ کو ڈانٹا کہ میرا بندہ ہے مجھ سے پیار کی باتیں کر رہا ہے تو بیچ میں کیوں آتا ہے۔
میں نے سندھ میں صحافی دوستوں سے پوچھا کہ سندھی میڈیا میں امر جلیل کی کیسی کوریج ہو رہی ہے۔ پتہ چلا کہ کم کم۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ ہم فساد اور فتنہ نہیں پھیلانا چاہتے جو ایک صائب بات ہے۔
کچھ نے کہا مولویوں سے ڈرے ہوئے ہیں، میں نے کہا یہ اس سے بھی صائب بات ہے۔
ہمارے ہاں گستاخی کا متلاشی اور گستاخوں کا شکاری ایک طبقہ ہے جو سیاسی ہے۔ پاکستان کی تیسری یا چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے اس کے بانی اسلام آباد کا ایسے ہی محاصرہ کرتے تھے جیسے قرونِ اولی کے مجاہدین قیصر و کسریٰ کا کیا کرتے تھے۔
اور جو قانون نافذ کرنے والے آتے تھے اور اب بھی آتے ہیں انھیں پہلے اپنی مسلمانی ثابت کرتی پڑتی ہے۔
حیرت نہیں ہونی چاہیے لیکن ہوئی کہ آج اگر امر جلیل کی کہانی میں گستاخی ڈھونڈ لی گئی تو کل ان کے روحانی باپ شاہ لطیف اور سچل سرمت کے دیوان بھی جلائے جائیں گے، قبریں اکھاڑی جائیں گی۔
پھر یاد آیا کہ لال شہباز قلندر کا مقبرہ تو خون میں نہا چکا ہے اب کیوں حیران ہوتے ہو۔
پھر نازش بروہی کا ایک پرانا مضمون پڑھا جس میں انھوں نے توہین کے مسئلے کو ایک مقدس نشے سے تشبیہ دی تھی۔
نازش نے تو یہ نہیں لکھا لیکن مجھے سمجھ آ گئی کہ کسی منھ پر لعنت لکھ کر سر تن سے جدا کا نعرہ لگانے میں وہی کیفیت ہوتی ہو گی جو معیاری ہیروئن کا پہلا سوٹا لگا کر ہوتی ہو گی۔
آج کل صبح اٹھتے ہی ہمیں پرانے نشئیوں کی طرح ’تروٹک‘ شروع ہو جاتی ہے۔ جب تک توہین والا سوٹا نہ لگائیں اعصاب کو سکون نہیں ملتا۔
جس دن کوئی مسیحی بچی، کوئی محنت کش نرس، کوئی ہندو بچہ نہ ملے تو اپنی صفوں میں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وہاں نہ ملا تو گوگل پر دنیا کا نقشہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور گستاخ ڈھونڈنے چل پڑتے ہیں۔
اب کراچی میں رہنے والا ہمارا امر جلیل بھی گستاخ اور ہمارے آبائی شہر اوکاڑہ سے لاہور آ کر بڑا شو مین بننے والا آفتاب اقبال بھی گستاخ۔
نازش سے بہت دنوں سے بات نہیں ہوئی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ گستاخیوں کے اس موسم میں بھی کوئی امید ڈھونڈ لیتیں اور کہتیں کہ ایک دفعہ جب ہم سب پر توہین کا الزام لگ جائے تو ہمیں شاید کوئی روحانی قسم کی ہرڈ امیونٹی مل جائے گی اور ہم سب ہنسی خوشی گستاخانہ زندگی گزارنے لگیں گے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر