اتوار کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے امیدباندھی تھی کہ ڈسکہ کا ضمنی انتخاب ہارنے کے بعد تحریک انصاف کو کچھ ’’نیا‘ ‘ کرنا ہوگا۔ رات سونے سے قبل اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر نگاہ ڈالی تو ’’خبر‘‘ملی کہ وزیر اعظم صاحب نے فواد چودھری صاحب کو ’’ہنگامی‘‘ دِکھتی ایک ملاقات کے لئے بنی گالہ طلب کیا۔ملاقات ہوجانے کے بعد انہیں وزارتِ اطلاعات کا اضافی چارج دئیے جانے کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ شبلی فراز اس تبدیلی کی بابت اگرچہ لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ مشورہ دیتے رہے کہ سرکاری مراسلے کا انتظار کرلیا جائے۔ فرزند احمد فراز کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ انہیں کونسی وزارت دی جارہی ہے۔
صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ فواد چودھری صاحب کی وزارتِ اطلاعات میں واپسی والا مراسلہ ابھی تک جاری نہیں ہوا۔ اخبارات میں تاہم ان کی متوقع واپسی کا خیر مقدم ہوچکا ہے۔ اگست 2018میں عمران خان صاحب نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد جو کابینہ تشکیل دی چودھری صاحب اس میں بھی بطور وزیر اطلاعات شامل ہوئے تھے۔ وزارت سنبھالنے کے چند ہی روز بعد ان کے تخلیقی ذہن نے دریافت کیا کہ ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے والے میڈیا ہائوسز جس ’’بزنس ماڈل‘‘ کا اتباع کررہے ہیں وہ دور حاضر میں فرسودہ ہوچکا ہے۔ صحافتی اداروں کو زندہ رہنا ہے تو Digitalدور کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا ۔ ٹی وی سکرینوں کو ان اینکروں سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگی جو تنخواہ تو لاکھوں میں وصول کرتے ہیں مگر Ratingsکے Chartپر کہیں نظر ہی نہیں آتے۔ صحافتی اداروں نے ان کے مشورہ پر نہایت خلوص سے عمل کیا۔نیا ’’بزنس ماڈل‘‘ مگر ابھی تک بارآور ثابت نہیں ہورہا۔ دریں اثناء چودھری صاحب بھی وزارتِ اطلاعات سے ہٹادئیے گئے۔ ان کی جگہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے سنبھالی۔ چند ماہ بعد مگر ان کی جگہ بھی شبلی فراز صاحب کو تعینات کرنا پڑا۔
فواد چودھری صاحب کی وزارتِ اطلاعات میں واپسی کی اطلاع نے فوری پیغام مجھے تو یہ دیا ہے کہ عمران صاحب کو بطور وزیر اعظم بنیادی طورپر اب بھی اپنے ’’بیانیے‘‘ کی فکر لاحق ہے۔ ہمارے کئی ’’ذہن ساز ‘‘ جبکہ تاثر یہ دے رہے تھے کہ مقتدر اداروں میں بیٹھے عمران خان صاحب کے خیر خواہ فکر مند ہیں کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ 32ماہ گزر جانے کے باوجود کوئی ’’جلوہ‘‘ دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔یکے بعد دیگرے ہمارے کئی باخبر صحافیوں کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کے بعد 6وفاقی وزراء کو ایک خصوصی ملاقات کے لئے بلایا گیا تھا۔انہیں واضح الفاظ میں بتادیا گیا کہ عثمان بزدار صاحب کو فارغ کئے بغیر تحریک انصاف پنجاب میں رونق نہیں لگاپائے گی۔ نظر بظاہر عمران خان صاحب نے اس پیغام کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اسی باعث ہمارے کئی ’’ذہن ساز‘‘ اب کہانی یہ پھیلارہے ہیں کہ جہانگیر ترین کے گھر پر حال ہی میں لگی ’’رونق‘‘ کا حقیقی سبب عمران خان کی عثمان بزدار کی بابت دئیے پیغام کے بارے میں برتی بے اعتنائی ہے۔ ترین صاحب کے ہاں ’’باغیوں‘‘ کا ہجوم درحقیقت انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہ رہا ہے۔
اتوار کی شام سے فواد چودھری صاحب کے حوالے سے جو خبر گردش کرنا شروع ہوئی اس نے مگر میرے کند ذہن کو پیغام یہ دیا کہ عمران خان صاحب کو اصل دشواری اپنے ’’بیانیے‘‘ کو فروغ کے بارے ہی میں محسوس ہورہی ہے۔ انہیں اپنی حکومت کے بارے میں Feel Goodکہانیاں گھڑنے والے Spin Doctorsکی ضرورت ہے۔ ایسے ترجمان کی تلاش جو ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کا روپ دھارے سیاستدانوں کی اصل حقیقت لوگوں کے سامنے بے دھڑک انداز میں بیان کر پائے۔ جہلم کے سیاسی گھرانے سے اُبھرے فواد چودھری صاحب اس تناظر میں پیدائشی طورپر ’’جٹ داکھڑاک‘‘ کی مجسم علامت ہیں۔ ’’ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی‘‘ بیان کرنے کی صلاحیت سے مالا مال چودھری صاحب اگرچہ سماجی رکھ رکھائو کی روایات کا کامل احترام بھی کرتے ہیں۔ حکومتوں کے لئے ’’مشکل‘‘تصور ہوتے کئی صحافی ان کے قریبی دوست ہیں۔عمران حکومت کی شدید مخالف سیاسی جماعتوں میں بھی انہوں نے کئی ذاتی دوست بنارکھے ہیں۔
عمران حکومت کو قوی اُمید ہے کہ پی ڈی ایم کے منتشر ہونے کے بعد بلاول بھٹو زرداری خلقِ خدا کو یہ دکھانا چاہ رہے ہیں اپنی تمام تر محدودات کے باوجود 2018میں نمودار ہونے والی پارلیمان جمہوری اعتبار سے قطعاََ ’’بنجر‘‘ نہیں ہوئی۔ اس کے ذریعے اب بھی ایسی قانون سازی ممکن ہے جو حکومت کو عوام کے روبروجوابدہ بنانے کا تصور اجاگر کرے۔وزیراعظم صاحب بھی گزشتہ چند دنوں سے انتخابی وعدالتی اصلاحات کا تقاضہ کررہے ہیں۔ فواد چودھری ان کی خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے سماجی تعلقات بھرپور انداز میں بروئے کار لاسکتے ہیں۔
’’بیانیہ‘‘ اس تناظر کے ہوتے ہوئے بھی عمران خان صاحب کے لئے اہم ترین رہے گا۔ مثال کے طورپر یہ بات قطعاََ درست ہے کہ جہانگیر ترین کسی زمانے میں ان کے قریب ترین رہے۔ بعدازاں بدگمانیاں نمودار ہوگئیں۔جہانگیر ترین خاموشی سے لندن چلے گئے۔وہاں چند ماہ گزارنے کے بعد وطن لوٹے تو ’’چینی سکینڈل‘‘ ہوگیا۔ عمران حکومت نے تفتیشی اداروں کو متحرک کیا تو دریافت ہوا کہ چینی پیدا کرنے والے اجارہ دار مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ کاشت کاروں کو ان کی فصل کی بروقت قیمت ادا نہیں کرتے۔چینی پیدا کرنے کے بعد اسے ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ ہماری اجتماعی طلب سے کہیں زیادہ مقدار میں ذخیرہ ہوئی یہ چینی بازا رمیں مناسب نرخوں پر لیکن دستیاب نہیں ہوتی۔ چینی کے ذخیرے جب ضرورت سے زیادہ ہوجائیں تو چینی پیدا کرنے والا ’’مافیا‘‘ اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے حکومت کو مجبور کردیتا ہے کہ اسے چینی بیرون ملک بیچنے کی اجازت دی جائے۔بیرون ملک مگر چینی کی جو قیمت میسر ہوتی ہے وہ اسے بنانے کی لاگت بھی پورا نہیں کرتی۔’’بے چارے‘‘ صنعت کاروں کو لہٰذا حکومت اربوں روپے ’’امدادی رقوم‘‘ کی صورت فراہم کرنے کو مجبور ہوجاتی ہے۔ جواز ’’امدادی قیمت‘‘ کا گنے کے کاشتکار کو فاقہ کشی سے بچانا ہے۔
عمران حکومت نے اب فیصلہ کیا ہے کہ بہت ہوگئی۔ چینی کے اجارہ دار سیٹھو ں پر مشتمل مافیا کے ناز نخرے اب برداشت نہیں ہوں گے۔ وہ کڑے احتساب کی زد میں آئیں گے۔ اتفاقاََ جہانگیر ترین صاحب چینی پیدا کرنے والے ایک مہاسیٹھ بھی ہیں۔ تحریک انصاف کے کئی سرکردہ رہ نمائوں کا تاہم اصرار ہے کہ وہ چینی پیدا کرنے والے دیگر سیٹھوں کی طرح بے دریغ منافع خور نہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ ایف آئی اے وغیرہ کو اپنے کاروبار کی رسیدیں فراہم کردیں گے۔ عمران خان صاحب کو بھی ذاتی طورپر شاید یہی گماں لاحق ہے۔جہانگیر ترین اور ان کے خیرخواہ مگر اس پہلو کی جانب توجہ نہیں دے رہے۔ واویلا مچارہے ہیں کہ وزیر اعظم کے گرد جمع ہوئے چند ’’سازشی‘‘ جہانگیر ترین کو خواہ مخواہ دیوار سے لگارہے ہیں۔
فواد چودھری صاحب کا اولین ٹارگٹ یقینا عمران حکومت کی بابت افراتفری کے اس تاثر کو شدت سے رد کرنا ہوگا جو جہانگیر ترین کی ’’بغاوت‘‘ نے اچھالا ہے۔ Spin Doctringکے ہنر پر کامل مہارت کی بدولت فواد چودھری عوام کو قائل کردیں گے کہ جہانگیر ترین کے گرد جمع ہوئی ’’رونق‘‘ چائے کی پیالی میں اُٹھا طوفان ہے۔ اسے سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔جہانگیر ترین کی ذات کو بھلاکر توجہ اس حقیقت پر مبذول رکھی جائے کہ عمران حکومت نے ’’چینی مافیا‘‘ کا قلع قمع کرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔اس ضمن میں احتساب بلاتفریق حرکت میں آچکا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر