ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو ، میں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔منیر نیازی کا یہ شعر نیازی سرکار کی موجودہ صورتحال کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ضمنی انتخابات میں وفاقی حکومت کے امیدواروں کی چاروں صوبوں پے در پے شکست بنیادی طورپر عوام کا وہ عدم اعتماد ہے جس کو نیازی سرکار اور اس کے خیرخواہ فی الوقت تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آرہے۔ ضمنی الیکشن بنیادی طورپر حکومتی کارکردگی چیک کرنے کا پیمانہ ہوتے ہیں اور حکومتی امیدوار کی شکست کا مطلب یہ ہے کہ عوام حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے لہذا حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے
ڈسکہ این اے 75 میں ن لیگ کی نوشین افتخار نے ایک لاکھ 10 ہزار 75 ووٹ حاصل کرکے حکومتی امیدوار علی اسجد ملہی جس نے 93 ہزار 433 ووٹ حاصل کیئے کو واضح شکست دے دی۔اس موقع پر ن لیگ کی رہنما مریم نواز شریف نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ نواز شریف کا بیانیہ جیت گیا۔ جب بھی منصفانہ الیکشن ہونگےجیت شیرکی ہی ہوگی۔نواز شریف کی سیاست ختم کرنے والے یاد رکھیں نواز شریف ایک نظریےکا نام ہے جو عوام کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ اس جعلی حکومت کے دن گنے جاچکے، وہ دن دور نہیں جب اس ملک میں عوام کی حکمرانی ہوگی، جعلسازوں کی نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب میں نواز شریف کا بیانیہ جیت گیا ہے تو بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ پنجاب کی عوام نے ملک کے دیگر صوبوں کی عوام کی طرح تبدیلی کے بیانیے کوسختی مسترد کردیا ہے۔ناقص طرز حکمرانی ، بے سمت اور بے ربط حکومتی پالیسیاں اور وزیروں اور مشیروں کے بیانات،مہنگائی کے طوفان نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے ۔ہرگذرتے دن کے ساتھ تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلتی جارہی ہے۔تبدیلی کے جو خواب دکھائے گئے ، بہتر مستقبل کے جو وعدے کیے گئے اور امیدوں کے جو محلات کھڑے کیئے گئے سب زمین بوس ہوگئے ۔
اب تو کیفیت کچھ یوں ہے کہ بقول کسی شاعر کے کہ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش ۔عوام کی ناراضگی کا اندازہ تو گزشتہ تین ماہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے ہوگیا ہے ستم تو یہ ہے کہ حکومت کے ہراول دستے کے سپاہی اور کپتان کے کھلاڑی جن کی سلیکشن ایک قریبی وفادار ترین دوست نے کی تھی اور زاتی جہاز میں بھر بھر کر بنی گالہ پہنچایا تھا بھی اپنی سرکار کی کارکردگی کے سبب سخت نالاں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب شوگر کنگ کے اکاونٹس منجمد ہوئے تو حکومت سے خفا قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین کے علاوہ وزیر اور مشیر بھی جس میں شامل تھے اظہار یک جہتی کے لیے جہانگیر ترین کے عشائیے میں پہنچے۔یوں سمجھ لیں کہ یہ جہانگیر ترین کے حمایتیوں سے زیادہ حکومتی متاثرین کا اجتماع تھا۔روندی یاراں نوں ناں لے لے کے پراواں دا کی طرح جہانگیر ترین کی حمایت میں جمع ہونے والوں نے اپنے دکھوں پر آنسو بہائے۔
تحریک انصاف کے 30 اراکین اسمبلی جس میں 6 اراکین قومی اسمبلی اور 19ممبران صوبائی اسمبلی سمیت 5 مشیرشامل ہیں نے وزیراعظم کو خط لکھ کر جہانگیر ترین کے معاملے پر زاتی دلچسپی لینے کی درخواست کرتے ہوئے وقت مانگ لیا۔خداجانے کپتان اپنے کھلاڑیوں کی سنتے ہیں یا نہیں مگر یہ طے ہے کہ شوگر مافیا کے خلاف اس انکوائری کا نتیجہ کوئی نہیں نکلنا۔کیونکہ آدھے شوگر ملز مالکان اس وقت حکومت کا حصہ ہیں۔لہذا اس ضمن میں کسی قسم کے ایڈونچر کی توقع نا رکھی جائے تو بہتر ہوگا۔
توقع تو خیرپی ڈی ایم سے بھی بہت تھی کہ وہ حالات کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرئے گی مگر کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل ہی پی ڈی ایم باہمی اختلاف کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی تاہم جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں طے کیا گیا کہ کوئی ساتھ چلے نہ چلے عید کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ عید کے بعد دما دم مست قلندر ہو
عید سے یاد آیا کہ حکومت چھوٹی عید کے بعد وفاقی بجٹ دینے جارہی ہے اور اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف سے کیئے گئے وعدے کے تحت کم وبیش 14سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے سمیت 4سو ارب روپے کی سبسڈی بھی ختم کرنے جارہی ہے ۔جبکہ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں اضافے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے ۔یعنی کہ نئے مالیاتی سال میں مہنگائی کا ایک طوفان عوام کا منتظر ہے۔گویا ہمیشہ کی طرح اس نئے مالیاتی سال میں بھی عام عوام کے لیے کوئی ریلیف یا سکون نہیں ہے۔اور ہو بھی کیسے کیونکہ کپتان کہہ چکا ہے کہ سکون صرف قبر میں ہے
اگر زندگیوں میں سکون چاہیے تو اُس کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی ۔اپنے حق کی جنگ لڑنی پڑے گی بہترمستقبل کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی ۔اس گلے سڑے تعفن زدہ نظام کو بدلنا ہوگا۔وسائل کی منصفانہ تقسیم کا طریقہ کار طے کرنا ہوگا۔کیونکہ غربت اور افلاس مقدر کا لکھا نہیں ہوتے بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اگر کوشش یا جدوجہد نا کی تو حالات نہیں بدلیں گے بلکہ جوں کے توں رہیں گے ۔اس کیفیت کو منو بھائی نے اپنی ایک شہرہ آفاق نظم میں یوں بیان کیا ہے کہ
کیہ ہویا اے؟
کجھ نئیں ہویا
کیہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا
کیہ ہوسکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے
سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون لئی مرنا پیندا اے
تحریر:ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر