نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواجہ احمد عباس، ایک لڑکی اور عمران خان کا نمل کالج|| وجاہت مسعود

ننانوے برس کے زمانی کینوس پر پھیلا یہ امکانی منظر 1938 سے شروع ہوتا ہے۔ سلیم الزماں نامی ایک صحافی نے مسلم یونیورسٹی کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ مسلمان قوم کے چندے سے چلنے والی درس گاہ میں مسلمان لڑکیوں کو بھی داخلہ ملنا چاہیے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قریب اسی برس پہلے شاہد احمد دہلوی کے رسالے ساقی میں خواجہ احمد عباس کا ایک افسانہ شائع ہوا تھا، عنوان تھا ’ایک لڑکی‘۔ آپ تو خواجہ احمد عباس کو اچھی طرح جانتے ہیں، مطالعہ پاکستان پڑھنے والی نسل کے لئے عرض کرتا ہوں کہ 1914 میں پانی پت میں پیدا ہونے والے خواجہ احمد عباس کمال کے افسانہ نگار تھے۔ ہندوستانی سنیما میں ہدایت کاری اور اسکرین پلے میں حقیقت پسند رجحانات خواجہ صاحب نے متعارف کروائے۔ اکتوبر 1946 میں پہلے کانز فلم فیسٹیول میں بتیس سالہ خواجہ احمد عباس کی لکھی فلم ’نیچا نگر‘ کو اعلیٰ ترین ایوارڈ ملا تھا۔ تو ذکر تھا خواجہ صاحب کے افسانے ’ایک لڑکی‘کا جو برصغیر میں مسلمان ذہن کی آہستہ خرامی پر کاٹ دار تبصرہ ہے۔

ننانوے برس کے زمانی کینوس پر پھیلا یہ امکانی منظر 1938 سے شروع ہوتا ہے۔ سلیم الزماں نامی ایک صحافی نے مسلم یونیورسٹی کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ مسلمان قوم کے چندے سے چلنے والی درس گاہ میں مسلمان لڑکیوں کو بھی داخلہ ملنا چاہیے۔ یہ مقدمہ تین نسلوں تک چلتا ہے۔ 2037 میں بالآخر سلیم الزماں کی پوتی سلمیٰ صحافی کو یونیورسٹی میں داخلہ مل جاتا ہے۔ تاہم درس گاہ کی ’اخلاقی اقدار‘ کے تحفظ کی غرض سے انتظامیہ نے طے کیا کہ ”طالب علم لڑکیوں کے لئے ایک خاص بورڈنگ ہائوس تعمیر کیا جائے جس کی دیواریں دو سو بیس گز اونچی ہوں اور اس بورڈنگ سے لے کر لیکچر کے کمروں تک ایک سرنگ بنائی جائے جس کے ذریعے سلمیٰ صحافی لکچر سننے جایا کرے۔ اس کے علاوہ ہر لکچر روم میں چاروں طرف سے بند ایک کوٹھری بنائی جائے جس میں سرنگ کا راستہ نکلتا ہو اور اس کوٹھری میں بجائے دروازے یا کھڑکی کے، چار باریک سوراخ ہوں جن میں سے پروفیسر کی آواز سنی جا سکے“۔ کہانی بہت سے دلچسپ موڑ لیتی ہوئی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ ہمارے آپ کے لئے یہی اطمینان کافی ہے کہ 1938 میں لکھی اس کہانی پر 83 برس بیت چکے۔ اب تک تو ہم نے افسانہ نویس کے تخیل کی ٹھیک ٹھیک تصدیق کی ہے۔

1929ءمیں قائد اعظم محمد علی جناح نے امپیرئیل لیجسلیٹو کونسل سے کمسن بچوں کی شادی کے خلاف ایک قانون منظور کروایا تھا۔ ہم نے ڈٹ کر اس قانون کی مخالفت کی۔ ہزاروں کم سن بچیوں کے نکاح محض ’اینگلو محمڈن‘ جناح کی مخالفت میں پڑھائے گئے۔ واضح رہے کہ اب ’اینگلو محمڈن‘ کی بجائے دیسی لبرل کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ بفضل خدا، شادی کی مناسب عمر سے متعلق بحث آج تک اسی شدت سے جاری ہے۔ 1938 میں قائد اعظم نے مسلم خواتین کی حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے سیاسی معاملات میں مرد و زن کی مساوی شرکت کا اعلان کیا تو ہم نے قائد اعظم کے خلاف فتوے دیے۔ آزادی کے فوراً بعد ہمارے اخبارات رعنا لیاقت علی خان کی بے پردگی کا مرثیہ لکھتے رہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو کچھ استثنیٰ دیا جاتا تھا، دسمبر 1964 کی صدارتی مہم میں یہ حجاب بھی اٹھا دیا گیا۔ 1962 میں عائلی قوانین نافذ کئے گئے تھے لیکن عملی صورت یہی ہے کہ نکاح کی دستاویز میں عورت کے حق طلاق پر آج بھی خط تنسیخ کھینچا جاتا ہے اور یتیم پوتے کی وراثت پر اختلاف قائم ہے۔ ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں کچھ امید پیدا ہوئی تھی، 1979ءکے حدود قوانین نے اس پر پانی پھیر دیا۔ قانون شہادت میں تبدیلیوں نے دور رس معاشرتی اثرات مرتب کئے۔ لاہور کا وہ تاجر شاید ابھی زندہ ہو جس نے 1988ءمیں ہوائی جہاز سے بیگم بھٹو اور بے نظیر شہید کی جعلی تصاویر گرانے کے لئے سرمایہ فراہم کیا تھا۔

افغان جہاد، نوے کی دہائی کے ناقابل اشاعت رجحانات اور پھر طالبان کی مذہبی دہشت گردی نے پاکستانی معاشرے کی تصویر ہی بدل کے رکھ دی۔ ہمارے سیاسی مکالمے میں جو رجعت قہقہری در آئی تھی، وہ اب اخبارات کی شہ سرخیوں تک پہنچ گئی ہے۔ 2006ءاور 2016ءمیں عورتوں کے تحفظ کے کچھ نمائشی قوانین پر خط تنصیف کے دونوں طرف جو گرد اڑائی گئی، وہ ہماری سیاسی تاریخ کا باب ندامت ہے۔ قائد اعظم کے فرمان سے گریز کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری آدھی آبادی آج بھی منفعت بخش معاشی سرگرمیوں سے خارج ہے۔ اس پر رعونت کا یہ عالم کہ قرض پر اپنی معیشت گھسیٹنے والے دنیا سے تجارت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ بنائے گا کون اور بیچیں گے کیا؟

بنگلہ دیش کبھی ہمارا ہی حصہ تھا، وہاں کی معیشت میں عورتوں کے کردار پر ایک نظر ڈالیے اور پھر سوچیے کہ صنفی مساوات کی حالیہ درجہ بندی میں ہمارا وطن دو درجے نیچے آ گیا ہے، 156 ممالک میں صرف افغانستان، یمن اور عراق ہم سے پیچھے ہیں۔ نصاب اور قانون نادیدہ راہوں سے معاشرے کی سمت متعین کرتے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ، درس گاہ، کمرہ عدالت اور ذرائع ابلاغ پر عورت کا ایک ہی مفہوم رائج ہے، عورت یعنی فحاشی۔۔۔ وزیر اعظم نے جنسی زیادتی کے واقعات پر جو رائے زنی کی، اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

درویش نے وزیر اعظم کا تصور تعلیم سمجھنے کے لئے ان کے نمل کالج کے کچھ کوائف دیکھے ہیں۔ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے سابق اعزازی چانسلر کی قائم کردہ درس گاہ میں انجنیئرنگ، کمپیوٹر سائنس، بزنس اور ریاضی پڑھائے جاتے ہیں، سماجی علوم کا نام و نشان نہیں۔ تاریخ، فلسفے اور ادب سے نابلد نسلیں کبھی نہیں جان پائیں گی کہ ریپ ایک جرم ہے اور فحاشی ایک موضوعی مفروضہ۔ مفروضے کو بنیاد بنا کر جرم کی عذر خواہی کرنے والے انصاف کے تقاضوں اور قانون کی حرکیات سے ناواقف رہیں گے۔ جنسی ہراسانی فرد انسانی کے احترام کی نفی ہے اور آزادی کے مساوی منطقوں کے بغیر احترام کا کوئی تصور ممکن نہیں۔ آپ چاہیں تو بھلے ان معاشروں سے مثالیں اٹھا کر اپنا دل خوش کرتے رہیں جو بہرصورت آزادی، مساوات، انصاف، تحفظ اور ترقی میں ہم سے بہت بہتر ہیں۔ خواجہ احمد عباس کے افسانے کا اختتام یہ تھا کہ واحد طالب علم لڑکی یونیورسٹی چھوڑ گئی تھی اور اس کی یادگار کے طور پر جو مجسمہ تعمیر ہوا، اسے برقع اوڑھا دیا گیا تھا۔

بشکریہ ہم سب

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author