سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نامی سیاسی اتحاد کی وفات حسرت آیات پر، اس کی بالی عمر یعنی صرف چھ ماہ میں مرحوم ہونے پر افسوس اور رنج و غم کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔
عام اندازے کے مطابق اس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی نے اپوزیشن کو ووٹ دیے تھے۔ اس اعتبار سے تقریباً آدھی آبادی کی آدرشوں اور خواہشوں کی ترجمان پی ڈی ایم کے ٹوٹنے سے بہت سے دل ٹوٹے ہیں۔ اپوزیشن کے حامی جو یہ سمجھتے تھے کہ پی ڈی ایم نہ صرف موجودہ حکومت کے خلاف ایک کارگر اپوزیشن اتحاد ہو گی بلکہ اس سے یہ بھی توقع تھی کہ یہ حکومت کو گرا بھی سکتی ہے۔ لیکن یہ تمام امیدیں اور خواہشیں ایک لبرل خاتون اور تنگ نظر مُلا کی شادی کی طرح سے ٹوٹ کر رہ گئیں۔
ویسے تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا جب بھی اتحاد ہوا ہے چاہے وہ اے آر ڈی ہو یا پی ڈی ایم، ان کے آپسی اختلافات اور ایک دوسرے پر ڈیل اور ڈھیل کے شک و شبہات کبھی ختم نہیں ہوئے۔ اتنے برسوں کی طویل مخالفت کے بعد ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کی فضا کبھی بحال نہیں ہوئی۔
پی ڈی ایم نامی اتحاد بنا تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں نے اس مشترکہ دستاویز پر دستخط کئے جس میں تحریک عدم اعتماد اور اجتماعی استعفوں دونوں کا ذکر تھا بعد ازاں دونوں جماعتوں نے اس بنیادی مشترکہ دستاویز کی اپنی اپنی تشریح پیش کی۔
پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ پہلے تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ ہونا چاہیے، اجتماعی استعفے آخری آپشن ہونا چاہیے۔ دوسری طرف ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی تشریح یہ تھی کہ لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے ایک ساتھ ہونے چاہیں اگر یہ ہو گا تو حکومت گر جائے گی۔ دستاویز کی اسی بنیادی تشریح پر اختلافات کی وجہ سے پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔
پی ڈی ایم میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پیپلز پارٹی دونوں لبرل پارٹیاں تھیں پیپلز پارٹی کو اتحاد کے شروع ہی سے یہ شکوہ پیدا ہو گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کا جھکاؤ مسلم لیگ ن کی طرف زیادہ ہے اور وہ اجلاس کی تاریخیں تک ان سے پوچھے بغیر فائنل کر دیتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے یہ اشارہ بھی دیا کہ فیصلے ان کے مشورے کے بغیر ہوتے ہیں اور ان پر ٹھونسے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو گلہ تھا کہ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کچھ زیادہ ہی جارحانہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ طرز زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آئیڈیل یا تصوراتی طور پر ان کی باتوں میں جان ہے لیکن عملی طور پر ان پر چلنا ممکن نہیں۔
اے این پی نے پی ڈی ایم سے اپنا تعلق توڑتے ہوئے مولانا فضل الرحٰمن سے اعلانیہ گلے شکوے کیے ہیں۔
یادش بخیر اتحادوں کی سیاست کے بانی نوابزادہ نصر اللہ خان کا تقابل مولانا فضل الرحمن سے کیا جائے تو دونوں میں بڑا فرق نظر آئے گا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک ایک اتحادی سے الگ الگ ملتے، میٹنگ سے پہلے ہی فیصلوں پر اجتماعی رائے لے کر ان پر اتفاق رائے کروا لیتے۔ اختلافی فیصلے، عام اجلاس میں زیر بحث لانے کی بجائے علیحدہ میٹنگز میں زیر بحث لا کر ان کا حل نکال لیتے۔
مولانا فضل الرحمٰن بڑے تجربہ کار اور ماہر سیاستدان ہیں، ان کے حلقے ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام انھیں مذہبی رہنما کہنے کی بجائے سیاست کا بادشاہ کہہ کر بلاتے ہیں۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمٰن سے توقع تھی کہ وہ اتحاد کی دو جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے اور ان کے درمیان اختلاف کی خلیج ختم کرنے کی کوشش کرتے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ کردار صحیح طور پر نہ نبھا سکے اور بالآخر پی ڈی ایم کی شکست و ریخت کا سبب بنے۔
اتحادوں کی سیاست بڑا ہی نازک مرحلہ ہوتا ہے سیاسی جماعتیں، اتحاد کو ہمیشہ ڈھیلا ڈھالا رکھنا چاہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی گزشتہ پانچ، چھ دہائیوں سے سیاست کے کار زار میں ہے۔ چار مرتبہ وفاقی سطح پر حکومت بنا چکی ہے، کئی بار سندھ حکومت چلا چکی ہے اب اس جماعت سے یہ توقع کرنا کہ چھ ماہ پہلے بنے اتحاد کے ڈسپلن میں آ جائے گی ایک مذاق تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔
اے این پی کا سیاسی ماضی 100سال پرانا ہے، ان پر کئی بار غداری کے الزام لگے، کئی بار جیلوں میں گئے، کئی بار حکومتوں میں رہے، وہ نہ صرف اپنے صوبے کا نام بدلنے کا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوئے بلکہ انہی کی کوششوں سے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بھی ترک کر دیا گیا۔
اب ایک اتنی پرانی نظریاتی جماعت کو چھ ماہ پہلے بنا ڈھیلا ڈھالا اتحاد اظہار وجوہ کا نوٹس دے گا تو اس کا نتیجہ اے این پی کی علیحدگی ہی میں نکلنا تھا جو نکلا۔
اتحاد کے اختیارات لا محدود نہیں ہوتے، مولانا فضل الرحمٰن اور پی ڈی ایم کو اپنی حدود کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی نے چاہے دباؤ میں ہی سہی، سیاسی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنے حلیف نواز شریف کو وطن واپس آ کر تحریک چلانے کی بات کی۔ عام طور پر اس طرح کے بیانات حریفوں کے لیے دیئے جاتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا دعویٰ یہ ہے کہ انھوں نے مولانا فضل الرحمٰن اور مریم بی بی کے دباؤ سے تنگ آ کر یہ بیان دیا تھا وگرنہ انھیں علم ہے کہ نواز شریف سزا یافتہ ہونے کے باوجود کس طرح لندن میں بیٹھے ہیں۔
بقول پیپلز پارٹی والوں کے یہ ڈیل یا پھر ڈھیل ہے، اصولی سیاست تو ہرگز نہیں ہے۔
پی ڈی ایم دراصل لبرل اور آزاد خیال خاتون کی تنگ نظر مُلا سے شادی کی طرح تھی۔ خاتون کو سیاسی جماعت سمجھ لیں اور مُلا کو اتحاد سمجھ لیں۔
کبھی سندھ حکومت کو بچانے کے طعنے دینے اور کبھی حکومت کے ساتھ ساز باز کے الزامات لگانے۔ خاتون آئے روز کے طعنوں سے تنگ آ گئی اور پھر اس نے اپنے سارے گلے شکوے کھلے عام بیان کر دیے یوں اتحاد کا پردہ چاک ہو گیا اور اب اس کا انجام آپ کے سامنے ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور ن لیگ نے اے این پی اور پیپلز پارٹی کو اظہار وجوہ کا نوٹس دیا ہی اس لیے تھا کہ یہ دونوں ناراض ہو کر خود ہی پی ڈی ایم سے الگ ہو جائیں۔ اگر پی ڈی ایم میں کسی کی واقعی یہ رائے ہے تو انتہائی ناقص ہے۔ پی ڈی ایم کے ٹوٹنے سے اپوزیشن کمزور ہوئی ہے، مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمٰن اس سے مضبوط نہیں ہوئے۔
اپوزیشن کے لیے اب بھی بہتر یہی ہو گا کہ ایک دوسرے کا کہا سنا معاف کر کے دوبارہ سے ساتھ چلنے کی کوشش کی جائے ابھی طلاق نہیں ہوئی صرف ناراضی ہوئی ہے اس لیے ابھی صلح کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
فردوس عاشق کی 9 زندگیاں۔۔۔سہیل وڑائچ
تاریخ کا مقدمہ بنام اچکزئی صاحب!۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر