نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مظلوم صنم بھٹو کے آنسو اور آج کی پیپلز پارٹی|| اشفاق لغاری

بیگم نصرت اور بینظیر بھٹو ان قوانین کے نشانے پر رہیں۔ وہ کہتی ہیں میرے بھائی انیس، بیس سال کے تھے ۔ ان کو ریاست، سیاست اور جنگ کے معاملات کا کوئی پتا نہیں تھا۔

اشفاق لغاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھٹو خاندان ایک کے بعد ایک نیا المیہ کیسے دیکھتا اور بھگتتا ہے۔ ووٹ دینے اور ووٹ لینے والوں کی عزت بچانے اور بڑھانے والی جدوجہد کا بنیاد رکھنے والے بھٹو خاندان کے افراد پر دوران جمہوری جنگ کیا کیا گزری اور ایسی ممنوع باتیں کرنے کی انہوں نے کیا کیا قیمت چکائی۔ یہ سب کچھ جاننے کے لیے ’نیا دور‘ کے رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی نے بھٹو خاندان کی نشانی صنم بھٹو سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر حال ہی میں بات چیت کی ہے۔

دوران بات چیت ہنستے ہنستے صنم کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ بھٹو کی زندہ بچ جانے والی آخری بیٹی بتاتی ہیں، ان کو وطن عزیز میں صرف دکھ سہنے کا تجربہ رہا ہے۔ ہر آنے والی آزمائش گزرنے والی آزمائش سے مشکل رہی ہے۔ پھانسی، جلاوطنی، زہر، گولی اور مسلسل میڈیا کے توپوں کے سامنے رہنے والے بھٹو خاندان کی صنم بھٹو کی زبانی کہانی سن کر سولنگی اور رومی کی بھی دوران انٹرویو آنکھیں نم اور گلا خشک ہو گیا۔ صنم بڑے پیار سے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو، ماں بیگم نصرت بھٹو، بہن بینظیر بھٹو، بھائی مرتضٰی اور شاہنواز کی باتیں بتا رہی تھیں۔

بقول ان کے خاندان کے سب افراد کو اکٹھا رہنے کے مواقع تک نصیب ہونے نہیں دیے گئے۔ وہ کہتی ہیں ضیاء مارشل لا کے دوران اخبارات میں بھٹو لکھنا بھی منع تھا۔ یہاں تک کے وہ اپنی شادی کی خبر کا حوالہ دے کر کہتی ہیں خبر کی سرخی یوں بنائی گئی کے اس میں ان کا نہ نام لکھا گیا نہ ہی کہیں خبر میں بھٹو لکھا گیا۔ اس دور کی ظالم سرکار بھٹو خاندان کو تکالیف دینے اور اس کی زندگی تنگ کرنے کے لیے قوانین کا سہارا لیتی تھی۔

بیگم نصرت اور بینظیر بھٹو ان قوانین کے نشانے پر رہیں۔ وہ کہتی ہیں میرے بھائی انیس، بیس سال کے تھے ۔ ان کو ریاست، سیاست اور جنگ کے معاملات کا کوئی پتا نہیں تھا۔ ان کے جذبات کا غلط استعمال ہوا۔ بقول ان کے بھٹو جیسا ذہین باپ کیسے چاہے گا میرے نوجوان بیٹے میرا بدلہ لیں یا میری جان بچانے کے لیے لڑیں ۔ وہ بھی اتنی بڑی فوج سے۔ صنم کہتی ہیں یہ سب بنائی گئی باتیں تھیں، بھٹوز کے خلاف کہانیاں بنانے والوں کا ہی یہ کمال تھا۔

صنم نے بتایا ان کے بھائی اپنے والد کے ٹرائل کے دوران دیار غیر میں دربدر رہے، ان سے خاندان والوں کا خاص رابطہ بھی نہ تھا۔ بیگم نصرت اور بینظیر بھٹو جیل میں تھیں یا نظر بند۔ ساری ریاست کے ادارے ان کے پیچھے لگائے ہوئے تھے۔ وہ یہ المیہ کہانی سناتے ہوئے روتی ہیں۔ کبھی شاہنواز کے نام پر ان کو ٹشو آنکھوں پر رکھنا پڑتا ہے، کبھی مرتضیٰ کے نام آنے پر ان کی آواز رندھ سی جاتی ہے، کبھی اپنی بہن بینظیر کا ذکر کرتے کہتی ہیں ’’میں بینظیر کو روکتی رہی نہ جاؤ پاکستان۔ بینظیر پاکستان گئی اور شہید کر دی گئی۔‘‘

جو آج کی مفاد پرستوں کی پی پی پی ہے، جو بھٹوز کے نام اور نعرے کی سیاست کرتی ہے کیا آج کی پی پی پی میں بیٹھے اکثر لوگ صنم بھٹو کی زبانی بھٹو خاندان کے افراد کے دکھ درد سننا پسند کریں گے۔ بھٹو خاندان نے ان کی غربت کم کرنے ، ان کی خاندانی ترقی کے لیے یہ دکھ نہیں دیکھے تھے۔ جس خلق خدا کی زندگیاں تبدیل کرنے کے لیے بھٹو اور خاندان کے باقی افراد ظلمتوں کے زد میں رہے۔ آج کی پی پی میں بیٹھے لوگوں میں سے اکثر اسی خلق خدا کے دکھوں میں اضافے کا سبب ہیں۔

سماج کے دکھی اور پسے ہوئے طبقات کو حقوق دلانے کے لیے جو پیپلز پارٹی بنی تھی، جس سیاست کی وجہ سے بھٹوز سولی پر چڑھے یا روز سولی چڑھنے کی آزمائش سے گزرے۔ آج کی پی پی نے اس سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ صنم بھٹو کی آنکھوں سے بہنے والے ہر ایک آنسو کی قسم آج کی پی پی سندھ میں صرف وڈیروں کے بیٹے اور بیٹیوں کی ترقی کی ضامن ہے۔ وڈیرہ ایم این اے یا ایم پی اے ہو گا، بیٹا سابقہ ضلعی چیئرمین ہو گا، خواب سینیٹر بننے کے دیکھ رہا ہو گا۔

ان کے ہی خاندان کے فرد مدر پارٹی کے عہدوں پر قابض ہوں گے ۔ اگر کسی کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہو گا تو ان کے خاندان کو مقامی سول ہسپتال، مال مویشی منڈی سے ہر ہفتے اور مہینے خرچہ چلانے کی سہولت ضرور مہیا کی جا رہی ہو گی۔ پیپلز پارٹی جن لوگوں کی قسمت بدلنے کے لیے بنائی گئی تھی، جن لوگوں کے لیے بھٹوز نے اپنی زندگیوں کی قربانی دی تھی، ان بینظیروں اور بلاولوں کے آج بھی پاؤں ننگے ہیں۔ صنم بھٹو سے معذرت کے ساتھ آج کی پیپلز پارٹی بھٹو برانڈ کے نام پر سیاست ضرور کر رہی ہے مگر سیاست اینٹی بھٹوز روایات اور خیالات کی کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

نایاب سیاسی نسل کے سیاستدان کی جدائی! ۔۔۔ اشفاق لغاری

ظالم صوبائی اکائیاں اور مظلوم وفاق! ۔۔۔ اشفاق لغاری

قوم کے بچے ہود بھائی اور حنیف نہیں، فیاض الحسن چوہان پڑھائیں گے! ۔۔۔ اشفاق لغاری

اشفاق لغاری کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author