احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں کورونا وبا ء کا پہلا مریض چھبیس فروری دوہزار بیس کو سامنے آیا تھا۔یوں یہ وباء لگ بھگ تیرہ ماہ سے موجود ہے ۔پہلی لہر میں شدت مئی اور جون دوہزار بیس میں آئی تھی ،جولائی کا مہینہ بھی مشکل تھا۔
بعدازاں آہستہ بہ آہستہ اس کا زور ٹوٹنا شروع ہوا اور اگلے دوایک ماہ تو یوں محسوس ہوا کہ وباء پر مکمل قابو پایاجاچکا ہے ،مگر پھر دوسری لہر شروع ہوگئی ۔دوسری لہر کو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ،مگر اس کا دورانیہ کم تھا،ابھی دوسری لہر کا زور ٹوٹا ہی تھا کہ تیسری لہر نے آناًفاناً تباہی مچانا شروع کردی۔اس سال بھر کی مدت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم وباء سے نمٹنے کے لیے احتیاطی تدابیر کو مکمل طورپر اپنا کر کلچر کا حصہ بنادیتے ،مگر محسوس پڑتا ہے کہ ہم نے کچھ بھی نہیں سیکھا ،وزیرِ اعظم سے لے کر عام شہری تک ،ہر ایک کی جانب سے احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی ذرا بھی چِنتا نہیں کی جاتی۔وزیرِاعظم کورونا پازیٹو ہونے کے باوجود کابینہ کے اجلاس کی سربراہی کرتے پائے گئے اورعام شہریوں کا تو معاملہ ہی رہنے دیں ،عوام نے اس بیماری کو محض مذاق ہی سمجھا ہے۔یہاں جو بندہ احتیاط کرتا دکھائی دے ،اُس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔
اُس کے کئی نام رکھ دیے جاتے ہیں ،ایسے ہی ہمارے دوستوں میں سے ایک شخص کا نام ’’پرہیزی‘‘ رکھا جا چکا ہے، یہ بے چارہ مسلسل ماسک لگاتا ہے ،ہاتھوں کو باربار دھوتا ہے اور سماجی فاصلے کا پورا خیال رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں ہاتھ دھونے کا تو ویسے ہی کلچر نہیں ہے۔لوگ واش روم استعما ل کرنے کے بعد بھی ہاتھ تک نہیں دھوتے۔ہمارے گھرمیں دو خواتین روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے آتی ہیں ،ہم روزانہ ہی اُن کو کہتے ہیں کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے ماسک پہنا کرو اور اندر آکر ہاتھوں کو دھویا کرو،ایک دِن دونوں چِڑکر کہنے لگیں کہ آپ کے علاوہ آٹھ گھروں میں کام کرتی ہیں وہاں تو یہ ’’پابندی‘‘نہیں کروائی جاتی ۔
مذکورہ دونوں خواتین کو ایس اوپیز پر عمل نہ کرنے کی بنیاد پر کام سے فارغ بھی کرچکے ہیں ،مگر دوچار دِن کے بعد روتی ہوئی آگئیں کہ آئندہ ماسک بھی لگائیں گی اور ہاتھوں کو بھی دھونا معمول بنائیں گئیں،لیکن تین چار دِن بعد پھر ماسک کے بغیر اندر گھسی چلی آرہی تھیں۔تیسری لہر کے دوران ابھی چند دِن قبل ہمارے دوصحافی جوہر مجید اور سہیل ناصر کورونا کی وجہ سے وفات پا گئے،جوہر مجید سے میرا ذاتی تعلق تھا،ایسا شاندار اور انسان دوست شخص شاید ہی کوئی ہو، ہر دوست کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا تھا،میری وائف بیمارہوئیں تو علاج بہت مہنگا تھا،جوہر مجید نے سارا بندوبست مفت کرکے دیا اور ایک دِن ہسپتال میں آیا اور میری وائف کے سر پرہاتھ پھیر کر کہنے لگاکہ ’’بھابھی آپ پریشان نہ ہوں جلد ٹھیک ہوجائیں گی،میں نے آپ کے لیے نفل پڑھے ہیں‘‘میں یہ سن کر حیران رہ گیا،کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی بیماری کے لیے اتنا پریشان بھی ہوسکتا ہے۔
مذکورہ دونوں صحافی بھائیوں کی وفات کے باوجود ،ایک دِن سینئر صحافی مجھے کہنے لگے کہ یار اتنی احتیاط نہ کیا کرو یہ کورونا کوئی شئے نہیں ۔جو لوگ کورونا کو کوئی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ ویکسین لگوائیں گے؟ میں نے اپنے والد اور بھائی کی منتیں کیں کہ ویکسین لگوانے کے لیے میسجز کردیں ،تو دونوں ویکسین لگوانے کے لیے تیار نہیں۔اُن کے نزدیک یہ کوئی سازش ہے۔ ہمارے آفس میں ایک صاحب روزانہ آکر مجھے کہتے ہیں کہ ویکسین مت لگوانا،ایک دِن مجھے غصہ آگیا اور پوچھا کیوں نہ لگوائوں؟ کہنے لگے کہ ویکسین لگوانے سے دوسری بیماریاں لگ رہی ہیں۔ میں نے کہا ’’یہ بتائو! تم مجھ سے زیادہ سمجھ دار ہو؟‘‘
مَیں نے کورونا وباء کے دوران جو بات سیکھی ہے ،وہ یہ کہ ماسک ہی ویکسین ہے۔جو لوگ مسلسل ماسک لگاتے ہیں،ہجوم کی جگہوں پر نہیں جاتے،سینی ٹائزر کا استعمال کرتے ہیں،وہ ابھی تک محفوظ ہیں ،مزید بھی یہ لوگ محفوظ رہیں گے۔ تیسری لہر کے دوران شادیوں کاسیزن تھا،جو لوگ شادی کی تقریبات اٹینڈ کرتے پائے گئے،اُن میں سے زیادہ تر تیسری لہر کا شکار ہوئے۔ میرے ایک دوست حنیف صاحب بہت احتیاط سے کام لیتے رہے، مگر چند دِن قبل گجرات شادی پر چلے گئے،اگلے تین چار دِن کے اندر طبیعت بگڑنا شروع ہوئی،اب اس وقت گھر میں تین چار لوگوں کو کورونا ہوچکا ہے۔دُکاندار حضرات کے لیے ماسک لگانا اورسینی ٹائزر کا استعمال کرنا ازحد ضروری ہے۔دُکان دار ایک دِن میں متعدد افراد کو سوداسلف دیتے ہیں،یہ لوگ اگر احتیاط کریں تو یہ خود بھی محفوظ رہیں گے اور اِن کے گاہک بھی،مگر المیّہ یہ ہے کہ ایسے لوگ ذرا بھی محتاط پسند نہیں۔
ماسک لگانے والوں کی بڑی تعداد ماسک کو ناک سے نیچے رکھتی ہے،کھانسی اور چھینک آئے تو ماسک اُتار کر کھانسی اور چھینکنے کا عمل سرانجام دیتے ہیں۔ ماسک کے ساتھ ساتھ سماجی فاصلہ رکھنے کا کوئی رواج نہیں۔ لوگ ایسے جُڑکر ساتھ بیٹھتے ہیں جیسے یہ کوئی ثواب کا کام ہو۔ جہاں سمارٹ لاک ڈائون لگایا جاچکا ہو ،وہاں بھی لوگ ماسک کے بغیر سماجی فاصلہ رکھے بغیر ہجوم کی جگہوں پر آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔جب تک روّیوں میں تبدیلی نہیں آئے گی اُس وقت تک بیماری پر قابو پانا ممکن نہیں ہوپائے گا۔ سوال تو یہ ہے کہ ہم کورونا پر قابو پانا چاہتے ہیں؟
اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ہمیںعملی طور پر اس کا ثبوت دینا ہوگا،ماسک لگانا ہوگا،سماجی فاصلہ رکھنا ہوگا اور ہاتھوں کو باربار دھونا ہوگا،نیز ویکسین لگوانے میں عجلت سے کام لینا ہوگا۔ اگر آپ ماسک نہیں لگانا چاہتے ،سماجی فاصلہ نہیں رکھنا چاہتے ،ہاتھ نہیں دھونا چاہتے اور ویکسین نہیں لگوانا چاہتے تو درحقیقت آپ کورونا پر قابو نہیں پاناچاہتے۔اگر ایسا ہی تو آپ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کے بھی دُشمن ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر