نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب تو ہمیں یہ دکھائے گئے تھے کہ ’’جب آئے گا عمران‘‘ تو گزشتہ کئی برسوں سے اقتدار میں باریاں لینے والوں کو چوکوں میں اُلٹا لٹکا دیا جائے گا۔ اپنی جان بچانے کے لئے وہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں لوٹانا شروع کردیں گے۔ مقبول ترین اندازے کے مطابق کڑے احتساب کے ممکنہ عمل کی بدولت ریاستِ پاکستان کو کم از کم 200 ارب ڈالر کے قریب رقم مل جائے گی۔ بیرونی قرضوں کی یکمشت ادائیگی کے بعد بقیہ بچی رقم پاکستان کے عام شہری کو سستی بجلی اور گیس فراہم کرنے میں صرف ہوگی۔ یکساں تعلیمی نظام کی بدولت اس ملک کا ہر تعلیمی ادارہ لاہورکے ایچی سن کالج جیسا معیاری نظر آئے گا جہاں عمران خان صاحب کے دل ودماغ میں غریبوں کی محبت موجزن ہوئی تھی۔
عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے اب 30 ماہ گزر چکے ہیں۔ ہمیں دکھائے خوابوں کو عملی صورت مگر ملتی نظر نہیں آرہی۔ مختلف دھندوں کے اجارہ دار مافیا کی صورت اپنی سازشوں سے حکومتی منصوبے پروان چڑھنے نہیں دے رہے۔ افسر شاہی کا تعاون میسر نہیں۔ لفافوں کا عادی ہوا میڈیا بھی مافیا کو بے نقاب کرنے کے بجائے ان ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ہیرو بنائے چلا جا رہا ہے جنہیں عام مجرموں کی طرح کال کوٹھری میں مبحوس ہونا چاہیے تھا۔
عمران حکومت کی مجبوریوں نے بالآخر عالمی معیشت کے نگہبانوں کو اس امر پر مجبور کردیا ہے کہ ان کے لئے کام کرنے والے چند ذہین و فطین ماہرین معیشت پاکستان کو اُدھار پر دئیے جائیں۔ کامل اختیار کے حامل یہ افراد اب ہماری معیشت کو دستاویزی بنا رہے ہیں۔ ہر شہری کو اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس دینے کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ اب بجلی اور گیس کی وہ قیمت بھی ہر صورت ادا کرنا ہوگی جو انہیں آپ کے گھروں تک پہنچانے کے لئے خرچ ہوتی ہے۔ امید ہے کہ ’’ڈانگ سوٹے‘‘ کے جارحانہ استعمال کے بغیر جو نظام متعارف کروایا جا رہا ہے وہ چند برسوں کے لئے بے روزگاری اور افراطِ زر کو یقینا ناقابل برداشت بنائے گا۔ اس کے بعد مگر اندھیرا نہیں اُجالا ہے۔
اپنی کوتاہیوں سے گھبرا کر ہماری حکمران اشرافیہ نے جس انداز میں ملکی معیشت کی لگام IMF جیسے عالمی اداروں کے سپرد کی ہے اس کی بابت ارطغرل جیسے ڈرامے دیکھ کر روح کو گرمانے والے معاشرے میں کوئی بات نہیں ہو رہی۔ مارچ کے آغاز سے ہم بلکہ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے عروج و زوال کے مناظر سے جی بہلا رہے ہیں۔ مذکورہ اتحاد کا انتقال پر ملال اب ہوچکا ہے۔ اس کی لاش کو مردہ خانے سے اٹھا کر کفن دفن کی تیاری کے لئے کوئی وارث مگر نمودار نہیں ہو رہا۔ ایک دوسرے کو مذکورہ اتحاد کی مرگِ ناگہانی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اپنے کالم کے لئے Likes اور Share حاصل کرنے کی خاطر اس ضمن میں میرے پاس بھی کئی چسکے دار کہانیاں موجود ہیں۔ ان میں سے چند دھانسو Exclusive بھی شمار ہو سکتی ہیں۔ پھکڑپن کو تاہم طبیعت مائل نہیں ہو رہی۔ ہماری معیشت پر جو نئے عذاب نازل ہونے والے ہیں انہیں ذہن میں لائیں تو موجودہ حالات میں سیاست دانوں کی بھد اُڑاتا پھکڑپن مجرمانہ عمل محسوس ہوتا ہے۔ سنجیدہ اور بنیادی سوالات اٹھانا لازمی ہوگیا ہے۔
پاکستان کی جانب لوٹنے سے قبل امریکہ کا ذکر محض پس منظر اجاگر کرنے کے لئے ضروری ہے۔ دُنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا یہ ملک سفاک سرمایہ دارانہ نظام کی بھرپور علامت ہے۔ وہاں کی ریاست خود کو فلاحی یا ’’مائی باپ‘‘ کہلوانا پسند نہیں کرتی۔ اصرار کرتی ہے کہ پیدا ہونے کے بعد زندہ رہنے کی تگ ودو فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے۔ انسانی معاشرہ بنیادی طور پر ایک ’’منڈی‘‘ ہے۔ یہاں طلب و رسد کا نظام حاوی ہوتا ہے۔ ہر امریکی اپنا ذ ہن استعمال کرے اور اس نظام میں ترقی و خوش حالی کے راستے ڈھونڈے۔ ریاست سے توقع نہ رکھی جائے کہ وہ آپ کی روزمرہّ زندگی سے جڑے مسائل کے ازالے کی کوئی صورت نکالے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی کامل علامت امریکہ میں بھی لیکن بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی دوکھرب ڈالر کی خطیر رقم شہریوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کرونا سے تباہ ہوئی معیشت کو بحال ہونے میں آسانی ہو۔ کئی ماہرین معیشت نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ’’خیرات‘‘ بانٹنے والے اس فیصلے پر دہائی مچائی۔ خبردار کیا کہ وقتی خوش حالی کے بعد یہ فیصلہ امریکہ میں افراطِ زر کو فروغ دے گا۔ عوام کو ریاستی خیرات کا عادی بنائے گا۔ وہ Do More کا تقاضہ کرنا شروع ہوجائیں گے۔ بائیڈن مگر ٹس سے مس نہ ہوا۔ معیشت کی بحالی کے نام پر اس نے جو پیکیج قانونی صورت میں متعارف کروایا ٹرمپ کی جماعت کا کوئی ایک رکن ِپارلیمان بھی اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے کی جرأت نہیں دکھا پایا۔
وطن عزیز میں اب کرونا کی تیسری لہر شروع ہو چکی ہے۔ خدشہ ہے کہ اس کے نتائج اس وباء کی پہلی لہر کے مقابلے میں سنگین تر ہوسکتے ہیں۔ اس لہر کے ہوتے ہوئے بھی لیکن فیصلہ ہوا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں بتدریج آئندہ برس کے اختتام تک کم از کم نو روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا۔ قصہ محض اس اضافے تک ہی محدود نہیں۔ آئی ایم ایف کا حکم یہ بھی ہے کہ بجلی کی قیمت طے کرنے کا اختیار اب فقط NEPRA نامی ادارے کو میسر ہو۔ میرے اور آپ کے ووٹوں سے منتخب ہونے کی دعوے دار حکومت کو اس ’’کاروباری معاملے‘‘ میں مداخلت کا کوئی حق نہ رہے۔
’’منتخب حکومت‘‘ پر غیر منتخب ریگولیٹر کی مجوزہ بالادستی جمہوریت نہیں شاہی نظام کی عکاس ہے۔ کئی صدیوں کی جدوجہد کے بعد ’’رعایا‘‘ نے بالآخرحقوق و فرائض والے ’’شہری‘‘ کا درجہ بنیادی طور پر”No Taxation Without Representation” کا نعرہ بلند کرتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ خلقِ خدا کا مطالبہ تھا کہ بادشاہ اپنی عیاشیوں کی تسکین کے لئے لوگوں سے مالیہ وصول نہ کرے۔ عوام کو واضح انداز میں بتایا جائے کہ کونسی جنس پر کتنا ٹیکس لگانا لازمی ہے۔ اس کے حصول کے ذریعے ریاستی خزانے میں جو رقم جمع ہوگی اسے کیسے خرچ کیا جائے گا۔ قصہ مختصر جمہوری نظام کا بنیادی مقصد ریاست کی آمدنی اور خرچ پر کڑی نگاہ رکھنا ہے۔ ہمارے ہاں مگر یہ اختیار برقرار رکھنے کے بجائے پارلیمان نیپرا کو ’’خودمختار‘‘ بنانے والے قانون کی منظوری دے گی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ مجوزہ قانون کی منظوری کے بعد ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ میں بیٹھے افراد کس منہ سے خود کو ’’عوام کا نمائندہ‘‘ کہیں گے۔
گردشی قرضے کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے نام پر ریگولیٹر کو خودمختار بنانے والا جو قانون لاگو ہونا ہے وہ میرے اور آپ جیسے کم اور بندھی تنخواہوں پر زندہ رہنے والے لاکھوں گھرانوں کو بدحال بنادے گا۔ جناتی انگریزی میں مجھے اور آپکو معاشیات سکھانے والے مگر اس قانون کو Reform یا اصلاح پکاریں گے۔ Cost Recovery کی اصطلاع استعمال ہوگی۔ ہمیں بتایا جائے گا کہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ بازار سے مہنگی بجلی خرید کر آپ کے گھروں تک اسے سستے داموں فراہم کرے۔ منڈی کے قانون کا تقاضہ ہے کہ آپ جو بجلی خرچ کرتے ہیں اس کی ’’اصل قیمت‘‘ ادا کریں۔ ’’عیاشی‘‘ کے دن تمام ہوئے۔
یہ سوال کوئی اٹھانے کی جرأت ہی نہیں دکھائے گا کہ بجلی کو نجی شعبے میں پیدا کرنے کے لئے سیٹھوں کے ساتھ جو معاہدے ہوئے تھے اس کا مسودہ کہاں تیار ہوا تھا۔ مجھے اور آپ کو کب اور کس طرح واضح طور پر بتایا گیا تھاکہ نجی سرمایہ کاروں سے حکومت کن داموں بجلی خریدے گی۔ شاید ہمیں بروقت بتادیا جاتا تو ہم لوڈشیڈنگ کے مزید کئی گھنٹے برداشت کرنے کے لئے دل و جان سے آمادہ رہتے۔ لاکھوں گھرانے لالٹین اور ہاتھ کے پنکھے سے ہی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے۔ جناتی زبان میں ہمیں معیشت سکھانے والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا اپنے تحقیقی ذہن کو ہمیں یہ بتانے کے لئے بھی استعمال کرلیجئے کہ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کی اوسط ماہانہ آمدنی کیا ہے۔ اس آمدنی میں آئندہ چند مہینوں میں دھیلے کا اضافہ ہوتا بھی نظر نہیں آرہا۔ ایسے ماحول میں ایک عام متوسط طبقے کا گھرانہ اپنی محدود آمدنی کا کتنے فی صد فقط بجلی کا بل ادا کرنے میں خرچ کردے گا۔ یہ بل ادا کرنے کے بعد اس کے بقیہ اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ اندھی نفرت و عقیدت کو فی الوقت بھلانا ہوگا۔ ہمارے لئے لازم ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بیٹھے ہر رکن کو خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے کھلے الفاظ میں بتادیں کہ اپنی خودمختاری آئی ایم ایف کے ہاتھ میں دینے کے بعد انہیں ہمارے نمائندے کہلوانے کا حق حاصل نہیں رہے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر