نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں||ملک سراج احمد

ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوچیز حجم کے اعتبار سے بڑی ہوتی ہے اور طاقتور بھی ہوتی ہے تو تمام چھوٹی چیزیں اس کی اطاعت شروع کردیتی ہیں

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوچیز حجم کے اعتبار سے بڑی ہوتی ہے اور طاقتور بھی ہوتی ہے تو تمام چھوٹی چیزیں اس کی اطاعت شروع کردیتی ہیں اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔فی زمانہ یوں سمجھیں کہ عہدے اور اختیارات کے اعتبار سے جب کوئی طاقتور شخص کسی کمزور کو کوئی حکم دیتا ہے تو کمزور شخص بلاچوں چراں اس کی تعمیل کرتا ہے ۔اس ضرب المثل کو اگر ملکی سیاست کے لیئے استعمال کیا جائے تو کوئی غلط نا ہوگا۔یہاں پر طاقت کے اعتبار سے ایک ہی عہدہ قابل زکراور قابل توجہ ہے ۔اس عہدے کے پاس طاقت اور اختیارات کسی دیو ہیکل ہاتھی کی طرح ہیں ۔لہذا اس ہاتھی کی خوشنودی کی خاطر ہر کوئی سرتسلیم خم کیئے رکھتا ہے۔کوئی جنگل میں رہ کر یا جنگل سے باہر نکل کر جتنا بھی شور مچا لے بالآخر اس نے کرنا وہی ہے جو طاقتور ہاتھی کی منشا ہے۔اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب دکھاوا ہے محض دنیا داری ہے
بات ضرب المثل سے شروع ہوئی تو ایک اور ضرب المثل بھی بہت مشہور اور بامعنی ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے ۔اور سب سے بھاری سے زیادہ دودھ کا جلا اور کون ہوسکتا ہے لہذا اپوزیشن کے اتحاد کی چھاچھ بھی پھونک پھونک کی پی گئی اور اسی دوران یوسف رضا گیلانی کا بطور اپوزیشن لیڈر ایوان بالا کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔یہ نوٹیفکیشن بھی اسی عطار کے لونڈے نے جاری کیا جس کی سبب میر بیمار ہوئے ۔اس نامزدگی کے بعد دیگر جماعتوں کا ردعمل آنا شروع ہوگیا خاص طورپر ن لیگی رہنما رانا ثنا اللہ کے مطابق چیئرمین سینیٹ کی طرح اپوزیشن لیڈر بھی سلیکٹڈ ہے۔اس سے قبل محترمہ مریم نواز بھی ایک ٹوئیٹ میں متبادل نامزد کی تلاش کا طنز کرچکی تھیں۔احسن اقبال کے مطابق پی ڈی ایم کو دھچکا لگا ہے۔مگر سب سے خوبصورت اور حقیقت پر مبنی تبصرہ صحافی مبشر زیدی نے کیا کہ جھگڑا صرف اس بات کا ہے کہ دوسرے کی درخواست پہلے کیوں قبول ہوگئی ورنہ لائن میں تو سب ہی لگے ہوئے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی پر مایوسی کا اظہار کرنے والی ن لیگی قیادت کو وہ وقت ضرور یاد آرہا ہوگا جب اعظم نذیر تارڑ کو ایوان بالا کے لیے اپوزیشن لیڈر کا امیدوار بنایا گیا ۔اعظم نذیر تارڑ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی طرف سے وکیل تھے اور آصف علی زرداری نے پہلے نواز شریف بعد ازاں اسحاق ڈار سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوے اس نامزدگی پر مایوسی کا اظہار کیا تھا مگر ن لیگ اس نامزدگی پر ٹس سے مس نہیں ہوئی اور پیپلزپارٹی کے لیے یہ فیصلہ کسی صورت قابل قبول نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج یوسف رضا گیلانی ایوان بالا کے اپوزیشن لیڈر ہیں۔اب پی ڈی ایم کا اتحاد کس کی ضد اور سیاسی فیصلے کی بھینٹ چڑھ گیا اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
رہی بات پی ڈی ایم کے مستقبل کی تو یہ اسی دن ہی تاریک ہوگیا تھا جب گوجرانوالہ کے جلسہ میں میاں نواز شریف نے تقریر کی تھی ۔ میاں نوازشریف کا بیانیہ اتنا بھاری تھا کہ ان کی اپنی پارٹی اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکی ۔نتیجہ کہ اس تقریر کے بعد حمزہ شہباز نے مزید کچھ وقت قید میں گذارنے کا فیصلہ کیا اور شہبازشریف تاحال اُس بیانیے کے اثرات کے ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔اس تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور کا پی ڈی ایم کا جلسہ فلاپ ہوا۔پیپلزپارٹی نے اس موقع پر پوزیشن لی اور نام لے کر الزامات لگانے کی مذمت کی۔سیاسی ماحول کے تناو کو کم کرنے کے لیے گلگت بلتستان کے انتخابات میں حصہ لیا گیا اور اس کے بعدملک بھر کے ضمنی اور سینیٹ کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا گیا۔گویا ہر وہ کوشش کی گئی جس سے پی ڈی ایم کے ہارڈ لائن موقف کو معمول پر لایا جاسکے۔
پیپلزپارٹی کے اس سارے عمل پر ن لیگی اور اس کے ہم خیال حلقوں کی طرف سے تنقید کی جارہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کہا جارہا ہے ۔اور یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی پریہ تاثردیا جارہا ہے کہ ڈیل ہوگئی ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی کی 2018 کے عام انتخابات میں سندھ میں حکومت بنی مطلب یہ کہ پیپلزپارٹی اُس وقت بھی طاقتور حلقوں کے لیے قابل قبول تھی اور اسی لیئے وہ اقتدار کا حصہ بنی۔وگرنہ آرٹی ایس سسٹم سندھ میں بھی کچھ وقت کے لیے بند ہوسکتا تھا جو کہ نہیں ہوا۔جو کشتی پر سوار ہوں وہ کیا ڈیل کریں گے ڈیل تو انہوں نے کرنی تھی جو کشتی سے باہر تھے۔
اور سب جانتے ہیں کہ ن لیگ کشتی سے باہر ہے اور ن لیگ کی کشتی پر سوار ہونے کے لیے باپ اور بیٹا بالکل تیار ہیں اگر باپ اور بیٹی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے ان کے لیے کشتی پر سوار ہونے کا فی الوقت کوئی چانس نہیں ہے اور یہ بات ن لیگی ورکرز اور قیادت بخوبی جانتی ہے۔اب جبکہ پی ڈی ایم سے ایک اہم جماعت عملی طورپر نکل چکی ہے دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی باقی ماندہ جماعتوں کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ کیا باقی جماعتیں استعفیٰ دیں گی یا صرف لانگ مارچ کریں گی۔اگر صرف لانگ مارچ کرنا ہے تو پھر پیپلزپارٹی کی بات رد کیوں کی گئی۔
دلچسپ امریہ کہ پی ڈی ایم کا تاریک مستقبل اپنی جگہ مگر حکومت کی کارکردگی بھی ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہی۔مطلب کہ حکومتی اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں عوام کو کچھ بھی ڈلیور کرنے سے قاصر ہیں ۔تو کیا ملک کی سیاسی قیادت ناکام ہوچکی ہے؟اگر ایسا ہے تو کوئی بات نہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس مطلب طاقتور حلقوں کے نزدیک ابھی صدارتی نظام کا تجربہ باقی ہے اور سب اس تجربے میں بھرپور حصہ لیں گے کیوں کہ ضرب المثل ہے کہ ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں
تحریر:ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author