نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاج الدین زریں رقم||ظہور دھریجہ

ان کے فنی شاہکار مرصع قطعات اور وصلیوں کی صورت میں ہیں، جن میں ان کا فن، ریاضت اور حسن ذوق سب یکجا ہو گئے ہیں۔ آخری زمانے میں ان کی ساری توجہ قطعات کی جانب مبذول ہو گئی تھی،

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھریجہ نگر میں اپنے والد صاحب سے درس لیتے تو وہ خوشخطی کی زیادہ تاکید کرتے ،تختیاں لکھوائی جاتیں ،شہر جاتا تو بک سٹال سے پڑھنے کے لئے اخبار لاتا ، ایک مرتبہ مجھے بک سٹال پر مرقع زریں کے نام سے کتاب نظر آئی میں نے وہ لے لی ، وہ کتاب میری راہبر اور رہنما ٹھہری ۔ یوم پاکستان کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے تو کیوں نہ اُس شخصیت کا ذکر کیا جائے جو مرقع زریں کے مصنف تھے ۔میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ،معروف خطاط اُستاد تاج الدین زریں رقم 1904ء میں پیداہوئے۔

 

خطاطی کی ابتدائی تعلیم اپنے ماموں، نامور خطاط حاجی نور محمد سے حاصل کی ۔ منشی فضل الٰہی مرغوب رقم سے کسب فیض کیا اور منشی عبد المجید پروین رقم کے ’’طرزپر دینی‘‘ میں کتابت کا آغاز کیا، جسے عرف عام میں ’’لاہوری خط‘‘ کہا جاتا ہے۔ مگر جلد ہی اپنے منفرد اسلوب اور طرز میں لکھنے لگے۔ جلی اور خفی دونوں میں کمال حاصل کیا اور خوش نویسوں میں ممتاز مقام کے حامل ہوئے۔

 

ان کے فنی شاہکار مرصع قطعات اور وصلیوں کی صورت میں ہیں، جن میں ان کا فن، ریاضت اور حسن ذوق سب یکجا ہو گئے ہیں۔ آخری زمانے میں ان کی ساری توجہ قطعات کی جانب مبذول ہو گئی تھی، جن کو وہ ایک سولو نمائش میں اہل ذوق کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے ، مگر وفات نے اس کی مہلت نہ دی۔ نومبر1973ء میں عساکر پاکستان کے زیر اہتمام فنون لطیفہ کی نمائش میں آپ کے قطعات کو اول قرار دے کر گولڈ میڈل دیا گیا۔آپ نے 1936ء میں ’’مرقع زرین‘‘ کے نام سے فن خطاطی کے متعلق کچھ اصلاحیں تحریر کیں جو بہت مشہور ہوئیں۔

 

انہوں نے اپنی فنی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اہل فن حضرات کے وقارکی حفاظت اور خوش نویسی کی بقاء اور اس کے فروغ کے لئے اکتوبر1939ء میں ’’خوش نویس یونین‘‘ کے نام سے ملک گیر تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ آپ اس تنظیم کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور مسلسل بارہ سال تک اس یونین کے صدر رہے۔ آپ نسطلیق کے علاوہ خط نسخ، خط کوفی اور خوش نویسی میں ڈیزائن تیار کرنے میں مہارت رکھتے تھے ۔

 

آپ کے شاہکار قومی میوزیم کراچی اور لاہور میوزیم میں آویزاں ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا محترم تاج الدین زریں رقم تحریک پاکستان کے پرجوش کارکن تھے بلکہ لاہور میں مسلم لیگ کے شعبہ تشہیر کے نگراں قد آدم پوسٹر، لٹریچر، پمفلٹ، بینر وغیرہ بلا معاوضہ کتاب کرتے اور اپنے ہاتھوں سے اور شاگردوں کی مدد سے آویزاں کرتے۔مسلم لیگ کے خفیہ سرکلر خود کتابت کر کے تقسیم کرتے تھے۔ مسلم لیگ نیشنل گارڈ حلقہ لاہور کے صدر رہے۔ رائٹفل کلب کے بھی رکن تھے ۔ 1940ء سے 1955ء یعنی اپنی وفات تک لاہور سٹی مسلم لیگ کے کونسلر رہے۔

 

23مارچ 1940ء کے تاریخی اجلاس میں کارکنوں نے سینوں پر جو میڈل سجایا تھا، وہ آپ کے قلم کا شاہکار تھے۔ لوہاری دروازے میں داخل ہوتے ہی ان کے دفتر ’’بیٹھک کاتباں‘‘ صرف کاتبوں ہی کا نہیں بلکہ مسلم لیگی کارکنوں اور مسلم نیشنل گارڈز کابھی دفتر تھا۔ آپ13جون 1955ء کو رحلت کر گئے۔ فن خطاطی مسلمانوں کا عظیم ورثہ ہے ۔ ہمارے آئمہ کرام ، صوفیا کرام اور سلاطین وقت نے بھی اس فن کا حصول باعث توقیر جانا ۔

 

وسیب بھی فن خطاطی کا مرکز رہا ہے مگر ہمیشہ حملہ آوروں کی زد میں رہ گیا ، جس کی وجہ سے تاریخی نوادرات محفوظ نہیں رہ سکے ، پھر بھی میں ابن کلیم کو خراج پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بچا کھچا بہت سارا ترکہ محفوظ کر دیا ۔ ابن کلیم مخطوطات کے ساتھ ساتھ خطاطی کی تاریخ بھی لکھی ۔ ان کو فن خطاطی سے جنون کی حد تک عشق تھا ۔ کوئی بھی بڑا کام عشق کے بغیر نہیں ہوتا۔

 

1997ء میں تیسری انٹرنیشنل سرائیکی کانفرنس میں ہم اکٹھے تھے ، نئی دہلی میں دیکھا کہ وہ سرائیکی کے ساتھ ساتھ فن خطاطی کے ساتھ وابستہ اداروں کو بھی مل رہے ہیں اور خطاطی کی کتابیں ڈھونڈ رہے تھے ۔ اس سے پہلے 1980 اور 1982ء میں دہلی میں خطاطی کی نمائش میں شریک ہوئے اور تعریفی اسناد اور اعزازات حاصل کر چکے ہیں ۔ یاد ماضی عذاب ہے یا رب کے مصداق بھولی بسری یادوں کو دہرا رہا ہوں ۔ ابن کلیم کی کتاب میں ایک عنوان ’’ خانوادہ قادریہ دے خطاط ‘‘ کا ہے۔ جہاں بہت سے اور بھی معتبر نام ہیں ، ایک نام سئیں منظور احمد احقرؔ کا ہے۔

 

یہ وہ نام ہے جنہوں نے و دھریجہ نگر کے لوگوں کو کاتب بنایا۔ تفصیل یہ ہے کہ حاجی محنظور احمد احقر کی بہن کی شادی ہمارے چچا جام اللہ ڈتہ دھریجہ کے ساتھ ہوئی ، حاجی صاحب سال میں ایک دو دفعہ دھریجہ نگر آتے ۔ سب سے پہلے دھریجہ نگر کے سئیں غلام یٰسین فخری حاجی منظور احمد احقر کے شاگرد بنے ۔ انہوں نے نہ صرف اردو اور سرائیکی خطاطی می بہت بڑا نام کمایا بلکہ سندھ جا کے انہوں نے سندھی خطاطی کو بھی عروج بخشا۔ غلام یٰسین فخری بہت بڑے خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے ادیب ، لکھاری اور ملک کے نامور صحافی بھی تھے ۔

 

انہوں نے بڑے بڑے اخباروں میں کام کیا اور اپنا سرائیکی رسالہ ’’ سچار‘‘ کے نام سے شائع کرکے سرائیکی ماں بولی کی بہت بڑی خدمت کی ۔ میرے استاد مقبول احمد دھریجہ بھی سئیں منظور احمد احقر سے خطاطی کا کام سیکھا اور آگے اس فیض کو عام کیا۔ ان کے شاگردوں میں عطا اللہ طارق دھریجہ ، محمد شفیع دھریجہ بڑے نام والے خطاط تھے ۔دھریجہ نگر کی روحانی شخصیت معروف عالم دین حضرت مولانا محمد امان اللہ دھریجہؒ جن کا خط پہلے سے بہت خوبصورت تھا وہ بھی خطاطی کے میدان میں آئے اور ان سے منیر احمد دھریجہ ،شبیر احمد دھریجہ، محمد شاہد دھریجہ کو خطاطی سکھائی ، آج ان کی خطاطی کا دنیا میں بہت بڑا نام ہے۔ میں خود اتنا بڑا خطاط تو نہ بن سکا البتہ بہت سے نوجوانوں کو خطاطی کے میدان میں آنے کی ترغیب دی ۔

 

ان میں خانپور کے معروف نعت خواں قاری منظور احمد نقشبندی جاوید قبال ، لطیف غوری اور پروفیسر رئیس نذیر احمد کی خطاطی پر مجھے فخر ہے۔ خانپور کے بہت بڑے صنعتکار چوہدری سلیم بھلر کی محبت کہ وہ مجھے استاد کہتے ہیں ، جب وہ بچے تھے تو ان کی لکھائی خوبصورت بنانے کیلئے میرے پاس جھوک خانپور کے دفتر آتے تھے ۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ حاجی منظور احمد احقر پر ہمیں فخر ہے ۔

 

وہ صرف قادری یا دھریجہ خاندان کے نہیں سارے وسیب کے محسن ہیں ۔ ان کے بھائی نور احمد ہمراز اور فدا حسین قادری بھی وسیب کے فخر ہیں ۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دھریجہ نگر کے ارے لوگ بڑے امیر یا جاگیردار نہ تھے ، سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نہ تھے ، سرائیکیوں کو سرکاری نوکری تو ویسے بھی نہیں ملتی ، اکثر بے روزگار تھے ۔

خطاطی کے میدان میں آنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگ طباعت و اشاعت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے ۔ میں دھریجہ نگر کا پہلا آدمی تھا جس نے ملازمت کے بعد سب سے پہلے اپنا چھاپہ خانہ رحیم یارخان میں قائم کر کے دھریجہ نگر کے بہت سارے نوجوانوں اپنے ساتھ کام میں شامل کیا ۔ رحیم یارخان کے ساتھ ساتھ خانپور میں دھریجہ پرنٹرز ، لیاقت میں بھی چھاپہ خانے قائم کئے۔ آج دھریجہ نگر کی آدمی آبادی طباعت و اشاعت اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ اسکا ثواب یقینی طور پر احقرؔ سئیں کی روح کو مل رہا ہو گا۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

About The Author