نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مریم نوازشریف کو یہ بات سمجھنی چاہیے!||احمد اعجاز

اس جماعت سے وابستہ پنجاب کے اہم رہنما، اپنی اپنی سیٹ نکالنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے اور ہورہے ہیں جبکہ نئی کھیپ بھی تیار نہیں ملتی۔سندھ میں بھی اِن کیلئے کئی چیلنجز پیدا ہوچکے ہیں،
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز اور آصف علی زرداری کا بیٹابلاول بھٹو زرداری ،میدانِ سیاست میں ہیں۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے(یعنی کوئی خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا) جبکہ مریم نواز کہتی ہے کہ میرے والد اگر واپس آتے ہیں تو اُن کی جان کو یہاں خطرہ ہے۔آصف علی زرداری اور اُن کی پارٹی مریم نواز کے خدشات کے جواب میں برملا کہتی ہے کہ سیاست کرنی ہے تو پھر جیلوں میں جانا پڑے گا اور زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا پڑے گا۔
لیکن دوسری طرف آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے(مَیں خطرہ کیوں مول لوں)۔دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد کے سیاسی منظرنامہ میں آصف علی زرداری کے اندازِ سیاست میںتضادات زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے ہونی چاہیے ،جبکہ دوسری طرف دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات سے قبل بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا خاتمہ کروانے میں غیر جمہوری کردار ادا کرتے ہیں اور سینیٹ چیئرمین شپ کے لیے رضاربانی کی جگہ صادق سنجرانی کو فوقیت دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات سے ذرا قبل اور بعدازاں موجودہ صورتِ حال تک پیپلزپارٹی کی سیاست بہ حیثیت مجموعی مبہم رہی ہے،
ایک طرف پی پی پی ،عمران خان کو سلیکٹڈ کہتی ہے تودوسری طرف اپنے لیے سپیس کی غیر جمہوری مساعی بھی کرتی پائی جاتی ہے۔جبکہ اسی عرصہ میں مسلم لیگ ن کا سیاسی کردار بہت واضح اور کھلم کھلا طریقے سے سامنے آیا ہے۔لیکن المیہ دیکھیں کہ جب پی ایم ایل این خود کو موجودہ سیاسی منظرنامے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے تو اِن کی سیاست کا ماضی پوری توانائی کے ساتھ سامنے آکھڑا ہوتاہے ۔
اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی جب یہ کہتی ہے کہ وہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کبھی حصہ نہیں رہی تو اِن کا حال آڑے آجاتاہے۔ایک جماعت کے لیے ماضی عذاب کی صورت اختیار کرچکا ہے تو دوسری کو حال ہی قبول نہیں کررہا ۔لیکن میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے بچوں کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو بلاشبہ مریم نواز شریف نے سیاسی سطح پر بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے ،جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی تاثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کواپنی تقریر اور سیاسی اختیارات پر قابو نہیں ،سیاسی طورپر اہم فیصلے آج بھی آصف علی زرداری کرتے پائے جاتے ہیں اور جہاں تک بلاول کی تقریروں کا معاملہ ہے تو یہ دوہزار اَٹھارہ سے آج تک ایک ہی تقریر کررہے ہیں ،حالانکہ اِن کی تقریر کا آہنگ بہت بلند مگر دائرہ اثر محدود ہے۔
دوسری طرف مریم نواز شریف فیصلے کرنے میں ایک حد تک آزاد ہیں۔حالانکہ اِن کی آزادی پر کئی پہرے ہیں ،یعنی کہ میاں نوازشریف ، شہباز شریف اور حمزہ شہباز موجود ہیں،یہ لوگ مریم کی آزادانہ سیاست میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں ،لیکن بلاول کا معاملہ مختلف ہے۔بلاول پر ماسوا آصف علی زرداری کے کوئی پہرا نہیں۔لیکن آصف علی زرداری اپنے بیٹے کو آزادانہ سیاسی فیصلے کرنے میں چھوٹ نہیں دے رہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری تاحال پوری طرح سامنے نہیں آسکے۔ سیاست اگر عوام سے جڑے رہنے کا نام ہے تو پیپلزپارٹی کا سماجی دائرہ سکڑتا چلا جا رہا ہے۔
اس جماعت سے وابستہ پنجاب کے اہم رہنما، اپنی اپنی سیٹ نکالنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے اور ہورہے ہیں جبکہ نئی کھیپ بھی تیار نہیں ملتی۔سندھ میں بھی اِن کیلئے کئی چیلنجز پیدا ہوچکے ہیں،شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی ماضی کے اندازِ سیاست سے منہ موڑتی پائی جارہی ہے ،جتنا اس جماعت کے پاس اسٹیک ہے ،اُتنا ہی خطرہ مول لینے کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے ۔
اگر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر پی پی پی استعفے دینے کا فیصلہ کرتی تو کیا استعفوں کے بعد کی صورت ِحال میں یہ پاکستان تحریک انصاف کے خود کو متبادل کے طورپر لاسکتی تھی؟یقینی طورپر ایسا بالکل نہیں ،البتہ پاکستان مسلم لیگ ن ،تحریکِ انصاف کے متبادل کے طورپر خود کو تیار سمجھتی ہے۔اگرایسا ہی ہے تو پھر پاکستان پیپلزپارٹی خواہ مخواہ کا تردّد کیوں کرے اور خطرہ کیوں مُول لے؟پی ایم ایل این کی خوش قسمتی ہے کہ یہ پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔مگر یہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ پنجاب میں لڑی جانے والی جنگ اس نے تنہا لڑنی ہے اور اِس کے پاس سپاہیوں کی کمی بھی نہیں ۔
اگلا انتخابی عمل پی ایم ایل این کا اصل امتحان ہوگا۔اس امتحان کی تیاری تو خوب ہے ،لیکن ساری تیاری دھری کی دھری رہ سکتی ہے اگر اس کو کسی ڈسپلن میں نہیں لایا جاتا۔اگر اگلے انتخابی امتحان میں پی ایم ایل این کامیاب نہیں ہوتی تو پھر یہ پی پی پی کی طرح محدود ہوکررہ جائے گی،پی پی پی کی صوبے کی دیہی ثقافت پر اِجارہ داری تو رہے گی ،لیکن پی ایم ایل این شاید چند شہروں تک ہی محدود ہوکررہ جائے۔میاں نوازشریف اور اِن کی بیٹی اپنی جماعت کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ تاثر کی حامل جماعت تو بناچکے ہیں ،
رہا ماضی کا تاثرتو یہ آمدہ انتخابی معرکے میں دَم توڑسکتا ہے لیکن مسئلہ پی پی پی کا ہے،پی پی پی اگر مستقبل میں بلاول بھٹو زرداری کو وزیرِ اعظم دیکھناچاہتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پنجاب میں پی ایم ایل این کی سیاست کو محدود کردیا جائے اور یہ اس جماعت کے اپنے تئیں کا معاملہ نہیں۔یہ ایسا پی ٹی آئی کے ساتھ یا پھر غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر ہی کرسکتی ہے۔پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے باہم اتحاد میں پی پی پی کو سیاسی فائدہ تو ہوسکتا ہے ،لیکن اگر یہ پی ایم ایل این کے ساتھ اتحاد کو جاری رکھتی ہے تو اس میں کوئی بڑا فائدہ نہیں۔ مریم نواز شریف کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

About The Author