اختر بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایک ایسی سیاسی تاریخ کے طالب علم ہیں جس میں حقائق کم اور مغالطے و مبالغے زیادہ پائے جاتے ہیں، جی ہاں ہم شاگرد ہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مضامین کے ذریعے تاریخ کی حقیقت پر سے ان مغالطوں اور مبالغوں کی گرد ہٹائی جائے مثلاً پاکستان کی تاریخ پیدائش 14 کے بجائے 15 اگست ہے یا محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ’مائے برادر‘ کے دو صفحے غائب کیے گئے۔
آج ہمارا موضوع 23 مارچ کی قراردادِ پاکستان ہے، لیکن متعدد حوالہ جات اس بات کی طرف اشارے کرتے ہیں کہ یہ قرارداد 24 مارچ 1940ء کو منظور کی گئی تھی۔ قراردادِ لاہور کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ برِصغیر میں بسنے والے مسلمانوں نے لاہور اقبال پارک (منٹو پارک) کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے 1940ء کے سالانہ اجلاس میں اپنے لیے ایک الگ خطے کے مطالبے کی قرارداد منظور کی تھی۔ قراردادِ لاہور جو بعد ازاں قراردادِ پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دی جاتی ہے۔
ایک عام پاکستانی کے لیے تاریخ کے ماخذ ملک کی درسی کتابیں ہیں یا پھر وہ غیر سرکاری مصنفین کی تصانیف جو درسی کتابوں کا ہی ’پرتو‘ سمجھی جاتی ہیں، ان میں درج حوالوں کے مرہونِ منت ایک عام پاکستانی کے نزدیک 23 مارچ کی تاریخ ہی قراردادِ پاکستان یا قراردادِ لاہور کی منظوری کی تاریخ ہے۔
تاہم اگر برِصغیر کی تاریخ کے اس اہم تاریخی واقعے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ قراردادِ پاکستان 23 مارچ کو نہیں بلکہ 24 مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منظور ہوئی تھی۔ اِس حقیقت کا علم مزید دلچسپ اس لیے بھی ہے کہ یہ تاریخی قرارداد 24 مارچ کو بھی اس وقت منظور ہوئی جب عیسوی کلینڈر کی تاریخ بدلنے میں فقط نصف گھنٹہ رہ گیا تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قرارداد 24 مارچ 1940ء کو رات کے ساڑھے 11 بجے منظور کی گئی تھی۔
اس سے قبل 1938ء میں اسی طرز کی ایک قرارداد کراچی میں منظور کی گئی۔ 1938ء اور 1940ء کی قراردادوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ 1938ء والی قرارداد میں ایک الگ وطن کی بات کی گئی تھی جبکہ 1940ء میں ایک سے زائد ریاستوں کا ذکر تھا۔
یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ 1938ء کی قرارداد کو 1940ء کی قرارداد جتنی اہمیت کیوں حاصل نہ ہوسکی؟ قراردادِ لاہور سے 2 سال قبل کراچی کے عید گاہ میدان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت سندھ صوبائی مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں برِصغیر کے تمام سرکردہ مسلم رہنماؤں نے شرکت کی۔ قائدِ اعظم اکیڈمی کراچی کی مطبوعہ 1989ء ’سندھ صوبائی لیگ کانفرنس 1938ء: پس منظر و اہمیت‘ کے مطابق اس کانفرنس میں شیخ عبدالمجید سندھی نے ایک طویل قرارداد پیش کی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا، قرارداد کے متن کا آخری حصہ یوں تھا کہ،
’یہ کانفرنس براعظم (ہندوستان) میں دائمی امن اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی آزادی کے ساتھ ثقافتی ترقی، اقتصادی و سماجی بہبودی اور سیاسی خود ارادی کے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ تجویز دینا انتہائی ضروری سمجھتی ہے کہ وہ اس بات پر ازسرِ نو غور کرے کہ ہندوستان کے لیے کون سا آئین مناسب ہوگا جس کے ذریعے دونوں قومیں اپنا جائز مقام حاصل کرسکیں اور ایک ایسا آئینی منصوبہ تیار کرے جس کے تحت مسلمان قوم مکمل طور پر آزادی حاصل کرسکے۔‘
یہ تھا کچھ احوال سندھ کے شہر کراچی کے عید گاہ گراؤنڈ میں منظور ہونے والی قرارداد کا، آئیے اب دوبارہ رخ کرتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کی طرف۔
لاہور قرارداد 24 مارچ کو منظور ہوئی، جس کی تصدیق مختلف تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قیامِ پاکستان سے قبل تحریکِ پاکستان اور بعد از قیام ملک کی قومی تاریخ پر ’کے کے عزیز‘ کی تصنیف ’تاریخ کا قتل‘ Murder of History ایسے ہی کچھ خود ساختہ تاریخی مغالطوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کے کے عزیز اپنی اس کتاب کے صفحے نمبر 142 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں کہ،
’آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی کارروائی 22 مارچ 1940ء کو شروع ہوئی۔ نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا۔ جناح صاحب نے فی البدیہہ طویل تقریر کی اور اس کے ساتھ ہی اس دن کی کارروائی اختتام کو پہنچی۔ 23 مارچ 1940ء کو اجلاس کی کارروائی 3 بجے سہ پہر شروع ہوئی۔ بنگال کے وزیر اعظم اے کے فضل حق نے قراردادِ لاہور پیش کی اور اس کی حمایت میں تقریر کی۔ چوہدری خلیق الزمان نے اس قرارداد کی تائید کی اور مختصر سا خطاب کیا۔
اس کے بعد ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خان اور عبداللہ ہارون نے قرارداد کی تائید میں مختصر تقاریر کیں، اور اجلاس کی کارروائی کو اگلے دن کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ 24 مارچ کو اجلاس کی کارروائی دن کے سوا 11 بجے شروع ہوئی۔ متحدہ صوبہ جات کے نواب محمد اسماعیل خان، بلوچستان کے قاضی محمد عیسیٰ اور عبدالحمید خان آف مدراس نے قراردادِ لاہور کے حق میں تقاریر کیں۔
اس موقع پر جناح صاحب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے جو صبح کے وقت کچھ دوسرے اہم نوعیت کے کاموں میں مصروف تھے۔ جناح صاحب نے اسٹیج پر پہنچ کر کرسی صدارت سنبھالی اور قرارداد کے حق میں تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔ بمبئی کے اسماعیل ابراہیم چندریگر، وسطی صوبہ جات کے سید عبد الرؤف شاہ اور پنجاب کے ڈاکٹر محمد اسلم نے قرارداد کی حمایت میں بڑی پرجوش تقاریر کیں۔ اس موقع پر جناح صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے عبدالرحمان صدیقی کو فلسطین پر قرارداد پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سید رضا علی اور عبد الحمید بدایونی نے اس قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں اور قرارداد فوری طور پر منظور کرلی گئی۔
جس کے بعد اجلاس کی کارروائی کو رات 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ رات کو میٹنگ شروع ہوئی تو سید ذاکر علی اور بیگم محمد علی اس قرارداد کے حق میں بولے اور پھر قرارداد کو رائے شماری کے لیے اجلاس میں پیش کیا گیا جسے اجلاس کے شرکاء نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اس کے فوراً بعد خاکساروں اور جماعت کے آئین میں تبدیلی کے سلسلے میں مزید 2 قراردادیں پیش کی گئیں اور انہیں بھی فوراً منظور کرلیا گیا۔ بعد ازاں اگلے سال کے لیے جماعت کے عہدیداروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور جناح صاحب نے ایک مختصر سا خطاب کیا۔ جب اجلاس کا اختتام ہوا تو گھڑی کی سوئیاں رات کے ساڑھے 11 بجے کا اعلان کر رہی تھیں۔’
اگر قرارداد کی منظوری میں آدھے گھنٹے کی تاخیر ہوجاتی تو یہ قرارداد 24 کے بجائے 25 مارچ کو منظور ہوتی۔ کے کے عزیز اجلاس کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی کو قلمبند کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس میں ذرا سا بھی شائبہ نہیں کہ قراردادِ لاہور 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی تھی۔‘
احمد سلیم شیخ کی کتاب ’انسائیکلو پیڈیا تحریکِ پاکستان‘ مطبوعہ 2011ء بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ قراردادِ لاہور 23 مارچ کے بجائے 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی۔
احمد سلیم شیخ اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ، ’قرار دادِ لاہور 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی‘ تاہم وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ چونکہ قرارداد 23 مارچ کو پیش کی گئی تھی اس لیے یہ دن 23 مارچ کو منایا جاتا ہے۔
محمد الیاس اپنی کتاب ’جدوجہدِ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ
’ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ قرارداد مولانا ظفر علی خان پیش کریں گے مگر بعد میں قائدِ اعظم نے فیصلہ کیا کہ قرارداد بنگال کے وزیر اعظم اے کے فضل حق پیش کریں۔ 23 مارچ 1940ء کو یہ قرارداد پیش کی گئی۔ قرارداد کی حمایت میں تقریروں کا سلسلہ جاری تھا کہ نماز کا وقت آگیا اور اگلے دن تک اجلاس کو ملتوی کردیا گیا۔ 24 مارچ کو پھر اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس دن اجلاس میں سید ذاکر علی، ڈاکٹر محمد عالم، عبد الحمید خان، سید عبدالرؤف شاہ، اسماعیل ابراہیم چندریگر، نواب محمد اسماعیل، بیگم محمد علی، مولانا عبدالحمید بدایونی اور قاضی محمد عیسیٰ نے قرارداد کی حمایت میں تقاریر کیں، تاہم اس کے بعد مصنف داستان ادھوری چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ قرارداد کی منظوری کا کیا بنا۔
قارئین کے لیے یہ حقیقت بھی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ تحریک پاکستان میں سرگرم رہنے والے رہنماؤں نے بعدازاں جب قراردادِ لاہور کو قلمبند کیا تو وہ بھی اس مغالطے کا شکار رہے کہ قراردادِ لاہور 24 مارچ کے بجائے 23 مارچ کو منظور ہوئی۔ یہاں جی الانہ کی کتاب ’قائدِ اعظم: ایک قوم کی سرگزشت‘ کی ہی مثال لیجیے، جی الانہ معروف اسکالر اور قائدِ اعظم کی سوانح عمری لکھنے والے اہم مسلم لیگی رہنما تھے، وہ اپنی اس کتاب کے صفحے نمبر 385 پر لکھتے ہیں کہ،
’23 مارچ 1940ء کو لاہور میں اس قرارداد کی منظوری سے ہندو اور کانگرس دہل کر رہ گئے۔ انہیں نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا اور انہیں یقین ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کو ’خودمختار ریاستوں‘ میں تقسیم کرنے کی وکالت کر رہی ہے۔ہندوؤں اور کانگریس کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی، ہندو اخباروں نے قرارداد کی مذمت میں ان گنت اداریے لکھ مارے۔‘
ہم نے جب اس سلسلے میں معروف دانشور اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے سابق سیکریٹری جنرل آئی اے رحمان سے بات کی تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ قراردادِ لاہور 23 مارچ کے بجائے 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین فروری کے مہینے میں آئین ساز اسمبلی سے منظور ہوا اور 23 مارچ 1956ء کو نافذ العمل ہوا۔ 23 مارچ کو اس آئین کے نافذ ہونے کے بعد پاکستان میں قراردادِ لاہور کی منظوری بھی 23 مارچ کے طور پر منائی جانے لگی۔‘
ڈاکٹر عبدالجبار عابد لغاری ’جدوجہدِ آزادی میں سندھ کا کردار‘ میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کے قیام کی حمایت میں جہاں قراردادِ لاہور تاریخی اہمیت کی دستاویز ہے وہیں یہ تاریخی واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ تحریکِ پاکستان میں ایک ایسا موقع بھی آیا جب انگریزوں نے قائدِ اعظم سے کہا کہ وہ مسلم اکثریت والے کسی بھی صوبے سے اپنی اکثریت کا ثبوت دیں۔ یہ ایک ایسا نازک مرحلہ تھا جہاں قائدِ اعظم کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ ’جدوجہدِ آزادی میں سندھ کا کردار‘ کے صفحے نمبر 362 اور 363 پر لکھتے ہیں کہ،
‘قائدِ اعظم نے بنگال کے وزیرِ اعلیٰ سر فضل الحق سے رابطہ کیا، پنجاب کے وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات سے رابطہ قائم کیا اور اسی طرح صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ خان صاحب سے بھی رابطہ قائم کیا مگر کہیں سے بھی پاکستان کے حق میں قرارداد کے منظور ہونے کی امید نظر نہ آئی، اب قائدِ اعظم نے صوبہ سندھ پر اپنی امید کی نظر رکھی اور سندھ کے مسلم لیگی رہنماؤں سے رابطہ کیا۔‘
جبار عابد لغاری مزید لکھتے ہیں کہ، ’یہ 3 مارچ 1943ء کا دن تھا جب جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں قراردادِ پاکستان پیش کی۔ اس قرارداد کے مطابق:
’ہندوستان کے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں، جن کا علیحدہ مذہب، فلسفہ، سماجی رسومات، ادب و روایات اور سیاسی و اقتصادی نظریات ہیں۔ وہ ہندوؤں سے بالکل مختلف ہیں۔ مسلمانوں کی وہاں اپنی علیحدہ آزاد قومی ریاست ہو، جہاں وہ ہندوستان کے علاقوں میں اکثریت رکھتے ہیں۔‘
جی ایم سید کی اس قرارداد کا ذکر ہمیں خال خال ہی نظر آتا ہے ماسوائے اس کے کہ اس کا متن سندھ اسمبلی میں داخل ہوتے ہی دیوار پر آویزاں ہے۔ گمان ہے کہ شاید ہی کسی اسمبلی ممبر نے کبھی اس کو پڑھا ہو۔‘
قراردادِ لاہور کا اصل متن اور بعد ازاں تاریخ کی نصابی و غیر نصابی کتابوں میں اس کے متن کے ساتھ کی جانے والی تبدیلی بھی ایک ایسا موضوع ہے جو ہمیشہ سے غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے والوں اور سرکاری نکتہءِ نظر رکھنے والوں کے درمیان وجہ بحث بنا رہا ہے۔
پاکستان میں اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح پر پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابوں، سرکاری دستاویزات اور حکومتی زعماء کی زبانوں سے یہ الفاظ پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ قردادِ لاہور جو بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے معروف ہوئی، اس میں مسلمانانِ برِصغیر کے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کے کے عزیز کی کتاب ’تاریخ کا قتل‘ کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کی شائع کردہ باقاعدہ لاہور قرارداد کا متن کچھ یوں تھا:
’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غور و فکر کے بعد اس ملک میں صرف اسی آئین کو قابلِ عمل اور مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطوں کی صورت میں حد بندی کا حامل ہو اور بوقتِ ضرورت ان میں اس طرح رد و بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو جیسے ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے ہیں، انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خود مختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا وجہ تھی جس کے سبب 24 مارچ 23 مارچ ہوگیا۔ یہ عقدہ اس وقت کھلا جب ہماری بات معروف کالم نویس اور سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود سے ہوئی۔
اُن کے مطابق ’پاکستان میں آئین سازی کا عمل 1956ء میں مکمل ہوا، وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی نے گورنر جنرل سے آئین کی باقاعدہ منظوری کے لیے تاریخ مانگی، گورنر جنرل نے 23 مارچ کا دن چنا، 1940ء سے لے کر 1947ء تک اور آزادی کے بعد کے بعد بھی 23 یا 24 مارچ کا دن سرکاری طور پر منایا نہیں جاتا تھا اور نہ ہی تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں تعطیل ہوا کرتی تھی۔
گورنر جنرل کی جانب سے 23 مارچ کا دن اتفاقاً چُنا گیا، اس دن کے چنے جانے پر وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا اور اسے یومِ جمہوریہ یا ری پیلک ڈے کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا، کابینہ کے اجلاس میں اس روز کے فیصلوں میں قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کا ذکر نہ تھا۔
1956ء کے بعد 1957ء اور 1958ء کو بھی 23 مارچ یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا گیا، جب اکتوبر 1958ء کے مارشل لاء کے بعد آئندہ برس کا 23 مارچ کا دن نزدیک آنے لگا، تو کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اس دن کو یومِ جمہوریہ کے بجائے یومِ پاکستان کے طور پر منایا جائے گا، یہ وقتی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد 1956ء کا آئین منسوخ ہوچکا تھا اور نئے آئین کے مسودے پر کام جاری تھا۔
ان دنوں 14 اگست یومِ پاکستان کے طور پر منایا جاتا تھا، فیصلہ ہوا کہ 23 مارچ کو یومِ پاکستان اور 14 اگست کو یومِ آزادی کے عنوان سے موسوم کیا جائے، گو چند سال کے بعد مارشل لاء اٹھا لیا گیا جبکہ 1962ء اور بعد ازاں 1973ء کے آئینِ پاکستان کے تحت پاکستان جمہوریہ رہا، مگر 23 مارچ کا دن یومِِ جمہوریہ کے بجائے یومِ پاکستان کے طور پر منایا جاتا رہا‘۔
اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اب تک لکھا جارہا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے استعمال کرنے والے اپنے اپنے انداز میں اپنے نظریات کی بنیاد پر دلائل دیتے ہیں۔ اس کے لیے ایک وسیع مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے، قراردادِ لاہور کے مندرجات ہمارا موضو ع نہیں بلکہ ہماری تو بس اتنی سی بحث ہے کہ یہ قرارداد کس تاریخ
کو منظور ہوئی تھی؟
یہ بھی پڑھیے:
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر