ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل چھٹی کا دن تھا! گھنٹی بجی، دیکھا دروازے پہ ایک دوست کھڑی تھیں، ہانپتی کانپتی اندر داخل ہوئیں۔ سانس بحال ہوا تو کچھ پراسرار سے لہجے میں پوچھنے لگیں،
“سنو، تمہارے ہسپتال میں پلاسٹک سرجری کا شعبہ ہے نا؟”
“جی، کیوں پوچھ رہی ہیں؟”
“کیا وہاں’ وہ’ والا آپریشن ہوتا ہے؟” ان کی آواز دھیمی سے دھیمی ہوتی چلی گئی
“ یہ ‘وہ والا’ کونسا آپریشن ہے؟” ہم نے تعجب سے پوچھا،
“ارے سمجھا کرو نا” وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولیں،
“ سنیے، ہمیں الہام نہیں ہوتا اور نہ ہی ٹیلی پیتھی آتی ہے” ہم کچھ چڑ کے بولے،
“یار وہ اصل میں میں نے عورت مارچ پہ کیے جانے والے لایعنی اعتراضات کے بعد ایک فیصلہ کیا ہے”
“وہ کیا؟”
“دیکھو زمانے گزر گئے ہمیں اپنی کہانیاں سناتے، شکوے سناتے، احتجاج کرتے! کیا کبھی کسی پہ کوئی اثر ہوا؟ عورت پہ کیا گزرتی ہے، کوئی بھی نہیں سمجھنا چاہتا۔ سو میں نے سوچا کہ ویسے ہی رہنا چاہیے،جیسے روم میں رہتے ہیں” وہ سہج سے بولیں
“یعنی؟”
“بس بھئی، میں تو اب اپنی جنس بدلوا کے یہ منحوس عورت ذات کا ٹھپہ اتار پھینکنا چاہتی ہوں۔ تھک چکی ہوں اب مجھے وہ مراعات حاصل کرنی ہیں جو مرد کو بائی ڈیفالٹ حاصل ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں”
“ارے ارے کیا کہہ رہی ہو؟” حیرت کی زیادتی سے ہماری آنکھیں پھٹ گئیں
“تمہیں معلوم ہے اس بات کے کیا معنی ہیں؟”
ہاں، خوب علم ہے۔ لوگ باتیں کریں گے، ہنسیں گے اور مذاق اڑائیں گے۔ لیکن جو کچھ اب عورت کے ساتھ ہوتا ہے وہ اس سے بہت کم ہو گا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ ہر لڑکی کو اس نہج پہ سوچنا چاہئے” وہ مسکرا کے بولی،
“کیا اول فول بک رہی ہو؟”
“سنو میں وہ سب کچھ کرنا چاہتی ہوں جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے” وہ آنکھیں میچ کے بولی
“مثلاَ کیا؟”
“دیکھو نا، جب میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ہر لڑکی کے اعضائے مخصوصہ دیکھوں گا اور نظر ہی نہیں ہٹاؤں گااور پھر راہ چلتے، بس سے اترتے چڑھتے کسی بھی عورت کو چھوؤں گا، موقع پاتے ہی چٹکی بھی کاٹ لوں گا۔ ایمان سے کیا ہی لطف رہے گا”
“ہیں ہیں… دیکھوں گا….. کیا مطلب؟” ہم انتہائی حیرت زدہ تھے۔
“بھئی ریہرسل کر رہی ہوں نا ذرا اس رول میں ڈھلنے کی” بے نیازی سے جواب ملا۔
“اف کیا بےہودہ سوچ ہے تمہاری” ہم تن فن ہو کے بولے۔
“اور سوچو کتنا مزا آئے گا جب میں کسی بھولی بھالی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی بے توجہی کی شکار لڑکی کو چکنی چپڑی باتوں میں پھانس کے اس کے ساتھ ڈیٹ پہ جاؤں گا۔ ابتدا میں تھوڑی چھیڑ چھاڑ کروں گا اور اگر وہ غریب میری باتوں میں آ کر حاملہ ہو گئی تو سو جوتے بھی اس کے اور سو پیاز بھی، میں تو پچھلی گلی سے نکل لوں گا۔
“کیا…. کیا تم یہ ظلم کرو گی ؟”
“کرو گی نہیں، کروں گا۔ آج تک عورت مارچ والوں سے یہ طعنے تو سن سن کے کان پک گئے ہیں نا کہ میرا جسم میری مرضی کا مطلب آزادانہ جنسی تعلقات ہیں۔ یہ تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھاتا کہ ان جنسی تعلقات میں دوسرا فریق مرد بھی ہوا کرتا ہے۔
اس کا کہیں ذکر ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پہ کسی اور کے جسم کو تختہ مشق بنانے کا الزام آتا ہے۔ ہر صورت میں عورت ہی قصوروار سمجھی جاتی ہے۔ جب چت بھی مرد کی اور پٹ بھی تو اس بہتی گنگا میں، میں بھی ہاتھ دھوؤں گا نا” وہ بولتی جا رہی تھی۔
“آگے سنو بھئی اور پوری شام میں اپنی محبوبہ کے ساتھ گزار کر جب گھر جاؤں گا تو اپنی بہن کو ٹھیک سے دوپٹہ نہ اوڑھنے پہ خوب ڈانٹوں گا، اور ہو سکتا ہے ایک آدھ ہاتھ بھی جڑ دوں۔ دوسری کو چائے بنانے پہ لگاؤں گا اور تیسری کو کپڑے استری کرنے کا حکم دوں گا۔
“لگتا ہے تم اپنے حواس کھو بیٹھی ہو “ ہم نے دل گرفتہ ہو کے کہا،
وہ کسی اور ہی دھن میں تھی سو اپنی ہی کہتی رہی،
“یہ بھی دھیان رکھوں گا کہ میری بہنیں فون پہ لمبی لمبی باتیں تو نہیں کر رہیں اور کوئی فضول عشقیہ شاعری تو نہیں پڑھ رہی”
“لیکن تم تو ابھی اپنی ڈیٹ کا قصہ سنا رہی تھیں.. میرا مطلب ہے، تھے۔ اور بہنوں پہ اتنی پابندیاں”
“میں تو مرد ہوں نا! یہ کر سکتا ہوں لیکن اپنی بہنوں کو یہ کرنے کی اجازت تو نہیں دے سکتا۔ میں تو ان کے فیس بک کے استعمال پہ بھی پابندی لگاؤں گا “
“لیکن تم خود تو فیس بک اکاؤنٹ رکھو گی نا… “
“ہاں بھئی، لڑکیوں کی تصویریں دیکھنے میں اور ان پہ ریمارکس لکھنے پہ مزا آئے گا نا”
“لیکن وہ بھی تو کسی کی بہنیں ہوں گی نا”
“ہاں، ان تمام مغرب زدہ لوگوں کی بہنیں جو معاشرے میں بے حیائی پھیلانے کے لئے تیار بیٹھی ہیں تو پھر ہم تو دل پشوری کریں گے نا”
“اف… مجھے خفقان ہو رہا ہے” ہم نے اپنا سر تھام لیا،
“اور سنو بہنوں کی خبر لینے کے بعد کتنا مزا آئے گا جب میں کھانا ناپسند ہونے کی وجہ سے گھما کے پلیٹ فرش پہ دے ماروں گا اور میری بیوی پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے اور آنسو پیتے ہوئے فرش سے ٹکڑے جمع کرے گی۔
اور سوچو جب وہ کسی بات پہ احتجاجاً سوال جواب کرے گی جس کا میرے پاس جواب نہیں ہو گا تو اس کے منہ پہ ایک تھپڑ دے ماروں گا۔ اگر جی نہ بھرا تو لات بھی رسید کی جا سکتی ہے، مع بھاری بھرکم گالیوں کے”
“اف اف، کیا تم یہ سب ظلم کرو گی، میرا مطلب کرو گے؟”
“کیا کروں، معاشرے میں رائج طرز تو سیکھنی ہی پڑے گی”
“لیکن اچھے مرد بھی تو ہوتے ہیں نا، تم ان کی روش اختیار کرنا” ہم نے صلاح دی۔
“لو تمہارا کہنا یہ ہے کہ میں یہاں بھی مسکین اور وہاں بھی بزدل”
“یہ کس نے کہا کہ اچھے مرد بزدل ہوتے ہیں؟”
“بزدل تو نہیں ہوتے لیکن بزدل ہونے کے طعنے ضرور سنتے ہیں”
“ طعنے… وہ کس سے؟”
“دوست احباب، رشتے دار ، محلے دار، ہمسائے، دفتر کے ساتھی، گلی کے دوکاندار، مسجد کا مولوی، خاندان برادری، چودھری، جرگہ …..”
“دیکھا نہیں تم نے بہن کی غلطی معاف کریں تو بےغیرت بنا دیا جاتا ہے،جب تک اس کی گردن نہ اتار دی جائے۔ بیوی سے اچھا سلوک کریں تو زن مرید کہلوانا پڑتا ہے۔ بیٹی کو پڑھا لکھا کے اس کی مرضی کرنے کی اجازت دیں تو سننا پڑتا ہے، بڑا بنا پھرتا ہے حاجی نمازی ، بیٹی کا حلیہ تو دیکھو۔
اور فائدے سناؤں، ماہانہ ایام کا ٹنٹا ختم، اس کے ساتھ جڑی شرمندگی کا خاتمہ، پیڈ اور کپڑا ٹانگوں کے بیچ رکھنے کی مصیبت تمام۔
حاملہ کروں گا اپنی بیوی کو مزے سے اور آرام کی نیند سوؤں گا۔ نو مہینے وہی یہ بوجھ اٹھائے گی، وہی زچگی کے جان لیوا عمل سے گزرے گی۔ میری اماں اور بہنوں کی کڑوی کسیلی سنے گی۔
پھر بچے بھی اسی کے سپرد۔ جونہی رات کو بچہ روئے گا، میں اٹھ کے چیخوں گا، تم اس کے ساتھ دوسرے کمرے میں دفعان کیوں نہیں ہو جاتیں۔
اور سوچو رات کو جس بھی وقت میرا دل ہم بستری کرنے کو چاہے گا میں اسی وقت اسے پکار لوں گا چاہے وہ تھک ہار کے گہری نیند کیوں نہ سو رہی ہو۔ نہ آنے پہ فرشتوں کی لعنت کی وعید سناؤں گا”
“یا اللہ، تمہیں ترس نہیں آئے گا؟”
“کیوں رحم آئے مجھے؟ جب اس کے والدین کو نہیں آتا جو سب کچھ دیکھ سن کے بھی بیٹیوں کو صبر کر کے گزارا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں، ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ ٹھیک تب ہوتا ہے جب لڑکی کی روح سسک سسک کے مردہ ہو جاتی ہے اور اس چلتے پھرتے ڈھانچے کے لئے سب کچھ اچھا بن جاتا ہے جب کوئی خواہش ہی نہیں رہتی۔
اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جب میرا دل اس کی منہ بسورتی صورت دیکھ کے تنگ آ جائے تو میں اسے کسی بھی بہانے طلاق دے کر فارغ کردوں۔ اگر طلاق دینا ممکن نہ ہوا تو چولہا پھٹنے کی آپشن تو موجود ہے نا”
“بس کر دو… خدا کے لئے بس کر دو یہ ڈرامہ” ہم چلائے۔
“ارے تم مذاق سمجھ رہی ہو۔ نہیں بھئی میں بہت سیریس ہوں۔ ایک اور زبردست آئیڈیا ہے”
“وہ کیا ؟” ہم گھبرا کے بولے۔
“ تم بھی اگر آپریشن کروا لو تو کیا ہی مزا رہے۔ دونوں رات گئے گھومیں گے، سینما دیکھیں گے اور …. اور….”
” بی بی مجھے تم معاف ہی رکھو، یہ چوہیا لنڈوری ہی بھلی”، ہم نے ہاتھ جوڑ دیے۔
“سنو تو، میرا نام تو کوثر ہے، سو کچھ اور ہی رکھنا پڑے گا۔ لیکن تمہیں کیا مشکل؟ بس ایک ‘ہ’ ہی تو ہٹانی ہے اور طاہر کاظمی تیار.. اور اگر ذرا تبدیلی چاہیے ہو تو ہاشم یا قاسم رکھ لینا… مجھے علم ہے کہ تمہیں یہ نام پسند ہیں”
“خدا کے لئے خاموش ہو جاؤ۔ چپ ہو جاؤ، ورنہ میرا دماغ پھٹ جائے گا”
ہم زور زور سے چیخ رہے تھے اور وہ ہنسے جا رہی تھی۔ پھر ہنستے ہنستے نہ جانے کیوں اس کے آنسو بہنے لگے!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر