وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) میں بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) کے قیام (علیحدگی) کی پچاسویں سالگرہ (برسی) پر ہونے والی پانچ روزہ مجوزہ کانفرنس کی منسوخی پر میں تمام محبِ وطن پاکستانیوں کو ہدیہِ تبریک پیش کرتا ہوں۔
اس کانفرنس کے حق میں یہ دلیل بہت ہی بودی ہے کہ کم ازکم 50 برس بعد تو کسی واقعے کے کثیر سمتی علمی جائزے کی آزادی ہونی چاہیے۔ یہ لال بھجکڑ شاید نہیں جانتے کہ اگر ایک بار اجازت دے دی گئی تو سانپوں کا پٹارا کھل جائے گا۔
کل کلاں یہی مٹھی بھر غیر محبِ وطن دانشور مطالبہ کریں گے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور ذمے داروں کے تعین کے لیے سرکار کے قائم کردہ حمود الرحمان کمیشن کی نصف صدی پرانی رپورٹ نہ صرف باضابطہ شائع کی جائے بلکہ اس کی سفارشات پر بھی مباحثے کی اجازت دی جائے۔
پھر ہو سکتا ہے کہ کسی جانب سے آواز اٹھے کہ ہمیں تعلیم گاہوں میں 65 کی جنگ کے اسباب اور کرداروں اور پھر کارگل کی جنگ کے اسباب اور کرداروں پر بھی کھل کے تجزیاتی مباحثے اور سائنسی تحقیق کا پروانہ جاری کیا جائے۔
بعد ازاں کوئی صاحب یا صاحبہ علمی آزادی کے نام پر یہ نعرہ بھی بلند کر سکتے ہیں کہ ہم ہندو انگریز سازشوں کے ساتھ ساتھ 1200 برس پرانی فتح سندھ کی مہم، ہزار برس پرانی محمود غزنوی کی چڑھائیوں اور 300 برس پرانے احمد شاہ ابدالی کے حملے سمیت جملہ تاریخی واقعات کو آخر کیوں تیسری آنکھ اور تازہ زاویے کے ساتھ جدید تاریخی پیمانوں کی ناقدانہ کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتے۔
تب تو پاکستان بھی نہیں تھا (حالانکہ پاکستان تو اس وقت ہی وجود میں آ گیا تھا جب برصغیر میں پہلا مسلمان آیا یا پیدا ہوا تھا)۔
اور پھر کوئی خبطی یہ جھنڈا اٹھا سکتا ہے کہ ہم اپنے میزائلوں کے نام غزنوی، ابدالی، بابر وغیرہ کیوں رکھتے ہیں۔ ہوشو شیدی میزائل، دُلا بھٹی میزائل اور اقبال میزائل کیوں نہیں رکھ سکتے۔
یہ ماننے میں آخر کیا قباحت ہے کہ بنگلہ دیشیوں نے 16 دسمبر کے بجائے 25 مارچ کی تاریخ کو جان بوجھ کر اپنا یومِ آزادی قرار دیا حالانکہ اس روز مشرقی پاکستان میں مٹھی بھر شرپسندوں کے کرتوتوں کو ننگا کرنے کی نیت سے آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا گیا تھا۔
آپریشن سرچ لائٹ کا مقصد یہ تھا کہ اس کی چکا چوند میں سادہ لوح بنگالی آستین کے سانپوں کو پہچان سکیں۔ ہم سے اگر کوئی غلطی ہوئی تو بس اتنی کہ سچائی دکھانے کے جوش میں سرچ لائٹ کچھ زیادہ ہی کھل گئی جس کے سبب بنگالیوں کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انھیں وقتی طور پر اپنے پرائے کی تمیز نہ رہی۔ اس کا فائدہ انڈیا نے اٹھا لیا۔
جو بھی ہوا اس کے ذمہ دار بس تین کردار ہیں۔ اندرا، مجیب اور بھٹو، اللہ اللہ خیر صلا۔ تو کیا ہماری درسی کتابوں میں کچھ غلط لکھا ہے؟
لمز کے سیمینار بازوں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ خود بنگلہ دیشی قیادت بھی 50 برس سے کینہ پروری میں مبتلا ہے۔ انھوں نے اپنی آزادی (علیحدگی) کے جشنِ طلائی میں سارک ممالک کے سبھی سربراہانِ مملکت و حکومت اور چنیدہ عالمی رہنماؤں کو ڈھاکہ مدعو کیا ہے مگر اسلام آباد کو تادمِ تحریر دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔ اسی لیے حکومتِ پاکستان کا بھی کوئی فرض نہیں بنتا کہ وہ بنگلہ دیش کو رسمی مبارکباد کا پیغام بھیجے۔
ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں اکیڈمک آزادی نہیں مگر آزادی و بے لگامی و بے راہ روی و بے شرمی میں تمیز کرنی چاہیے۔
مثلاً اگر آپ ریاست کے طے کردہ شرائط و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے کشمیر پر انڈین تسلط، افغانستان کی احسان فراموشیوں، چین میں اقلیتوں سے حسن سلوک، یمن کی قبائلی تاریخ، سابق فاٹا کی پسماندگی، 74 برس میں بلوچستان کی مثالی ترقی، سابقہ مشرقی پاکستان کے لیے مغربی پاکستان کے ایثار و قربانی، عسکری و غیر عسکری اشرافیہ کی سنہری قومی خدمات، عدلیہ کے جرات مندانہ فیصلوں، مارشل لا ادوار میں ملکی استحکام، مسلم حکمرانوں کی بیدار مغز پالیسیوں، جوہری پروگرام کی شاندار کامیابی، انتہا پسندی کے تدارک میں علما کے تاریخی کردار وغیرہ وغیرہ سمیت ایسے بیسیوں موضوعات پر کوئی علمی تحقیق کرنا چاہتے ہیں یا پھر ناقدانہ جائزہ لینا چاہتے ہیں تو کس نے ہاتھ پکڑا ہے؟
مگر آپ کو تو جان بوجھ کر انھی موضوعات کی تلاش رہتی ہے جن کے پردے میں آپ قومی بیانیے کو چیلنج کر کے ریاستی اتحاد کو کمزور کر سکیں۔
پھر آپ شکوہ کرتے ہیں اگر آپ کو ’ففتھ جنریشن وار کے مہرے‘ کہا جائے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر