نومبر 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گائنا کالوجسٹ اپنی مریضہ کی ماں بھی تو ہوتی ہے||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

فون کی سکرین پہ کچھ ایسی تصویریں تھیں کہ یقین جانیے سر گھوم گیا، فون ہاتھ میں لرزنے لگا اور یوں لگا کہ کربلا ایسی ہی ہو گی، ایک بے کس مظلوم پہ ایک طاقتور کا اختیار اور ظلم!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خون سے لت پت چہرہ، سوجی ہوئی ناک، کرب میں ڈوبی ہوئی آواز!

کیا یہ وہی لڑکی تھی جو صرف ایک گھنٹہ پہلے ہمارے کلینک میں ہمارے سامنے بطن میں پلتے بچے کی فکر لیے بیٹھی تھی!

تین برس کے علاج کے بعد ٹھہرنے والا پہلا حمل، ساتواں مہینہ، نقاہت، ہائی بلڈپریشر، پردیس، اور بے بسی!

کچھ ہی دیر بعد دکھ اور درد سے بھری کچھ تصویریں ہماری اسسٹنٹ کے فون پہ ہمیں پکار رہی تھیں!

غصے، رنج اور بے بسی سے ہمارے دماغ کی رگیں پھٹنے کو تھیں!

ہمارا آج کا یہ مضمون ان عورتوں اور مردوں کے نام ہے جنہیں ہمارے پدرسری معاشرے میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ وہ سب جو از خود اختیار کردہ نابینائی کے اندھیرے میں عورت کو گھر کی رانی، ملکہ، مرد پہ حاوی، باعزت اور نہ جانے کیا کیا کچھ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ان کے وڈیو کلپس، ہم مغرب زدہ عورتوں کے ایجنڈے کے بارے میں ان کی ہزلیات، ہم بھٹکی ہوئی عورتوں کا ٹھکانہ جہنم ہونے کی وعید، ہم نے سب سنا۔ اور آج یہ دل چاہتا ہے کہ ان سب کو زیادہ نہیں تو چلو بھر پانی کا تحفہ دے ہی ڈالیں۔

ہفتہ واری پرائیویٹ کلینک کا دن تھا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والا وہ جوڑا اندر داخل ہوا۔ ہماری بیٹی کی ہم عمر خوش اندام، خوبصورت پڑھی لکھی لڑکی اور ساتھ میں ایک کم رو مرد!

وہ دونوں پچھلے ڈیڑھ برس سے ہمارے کلینک آ رہے تھے۔ ابتدا میں بانجھ پن کا مسئلہ تھا جس کے علاج کے بعد جب حمل ٹھہرا تو تب ہمارے کلینک کے چکر بڑھ گئے۔

لڑکی ایم اے کر چکی تھی لیکن وہ ویسی ہی ڈگری تھی جسے عموماَ شادی کے بعد چولہے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ شوہر نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ لڑکی بہت خوش شکل تھی اور شوہر یوں سمجھیے، مرزا ہادی رسوا کے لفظوں میں، بس انسان کا بچہ۔ بے جوڑ شادی لیکن معاشرے کے مطابق مرد کے لئے کیا شرائط، بس مرد ہونا چاہئے۔

“آپ لوگ اس دفعہ اپنی اپائنٹمنٹ سے دو ہفتے دیر سے آئے ہیں؟” ہم نے پوچھا،

“جی بس کچھ مشکل تھی” لڑکی نے نظر جھکا کر جواب دیا، لڑکی کچھ پریشان نظر آتی تھی، کچھ اضطراب کا شکار!

ہم نے معائنہ کیا، بلڈ پریشر کچھ بڑھا ہوا تھا۔ جلدی دوبارہ معائنہ کروانے کی ہدایت کے بعد رخصت کر دیا۔

ایک مصروف دن کا اختتام ہونے پہ ہم گھر پہنچنے کو تھے کہ ہماری اسسٹنٹ کی طرف سے پیغامات اور کالز کی بھرمار ہو گئی۔

“ڈاکٹر،فون دیکھو فوراً، میں نے آپ کو کچھ تصویریں اور صوتی پیغامات بھیجے ہیں”

یا اللہ خیر، ہم کچھ مضطرب سے ہوئے۔

فون کی سکرین پہ کچھ ایسی تصویریں تھیں کہ یقین جانیے سر گھوم گیا، فون ہاتھ میں لرزنے لگا اور یوں لگا کہ کربلا ایسی ہی ہو گی، ایک بے کس مظلوم پہ ایک طاقتور کا اختیار اور ظلم!

ہم نے فوراً اسسٹنٹ کو فون کیا، مجھے اس لڑکی کا نمبر چاہیے، ابھی، فورا!

دوسری طرف فون کی گھنٹی بجے جا رہی تھی۔ ہم اور متفکر ہوئے، خدا کرے وہ لڑکی خیریت سے ہو۔

کچھ توقف کے بعد فون اٹھا لیا گیا۔

تم… تم.. ٹھیک تو ہو نا ؟ ہم نے چھوٹتے ہی پوچھا

“جی ڈاکٹر، میں اب ٹھیک ہوں” وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی،

“کیا خون رک چکا ہے؟”

“جی ڈاکٹر ، میں برف سے سکائی کر رہی ہوں”

“کیا ہوا تھا بیٹا؟”

یہ سنتے ہی اس کا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا. وہ دھاڑیں مار مار کے رونا شروع ہو گئی….

“چپ ہو جاؤ بیٹا ، پلیز چپ ہو جاؤ” اس کے آنسو ہمارے دل پہ گرتے تھے۔

وہ سسکیاں بھرتے ہوئے بولی،

“ڈاکٹر، آج کے دن میں میرے دو قصور تھے۔ کلینک میں جب میری باری آنے کو تھی مجھے ٹوائلٹ جانے کی شدید حاجت ہوئی جس سے میرا نمبر تھوڑا سا پیچھے چلا گیا اور آپ کو دکھانے کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑا۔

اور دوسرا یہ کہ آج اس کی فرمائش تھی کہ میں آپ سے پوچھوں کہ آنے والا لڑکا ہے یا لڑکی؟ میرا موقف تھا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن وہ بضد تھا کہ اسے یہ جاننا ہے۔ میں بلڈ پریشر کی پریشانی میں آپ سے پوچھنا بھول گئی۔ جس سے وہ اور طیش میں آ گیا۔ گھر جاتے ہوئے راستے میں، گاڑی میں بیٹھے بیٹھے میرے منہ پہ تھپڑوں کی بارش کردی۔ اور پھر گھر پہچنے پہ منہ پہ زور دار گھونسا… جس سے ناک سے خون بہنا شروع ہو گیا۔میں رو رو کے بچے کی خاطر اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی لیکن وہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھا۔

اف… ہمارا دل کبھی رکتا تھا اور کبھی تھم تھم کے چلتا تھا۔

“ابھی کہاں ہے وہ؟”

“باہر جا چکا ہے”

“کیا اس سے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے؟”

“جی، بہت بار ….جب بھی اسے غصہ آئے ، وہ یہ کہتے ہوئے میرے پہ پل پڑتا ہے کہ تم پڑھی لکھی عورتیں صرف ہاتھ کی زبان سمجھتی ہو۔ ہم اس دفعہ کلینک بھی دیر سے اسی لئے آئے تھے کہ اس نے دو ہفتے پہلے بھی مجھے مارا تھا” وہ بری طرح رو رہی تھی۔

“سنو بیٹا، کیا پاکستان میں تمہارے خاندان کو اس بات کا علم ہے؟ تم اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟”

“جی، میرے گھر والوں کو علم ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ گھر بچانے کے لئے عورت ہی قربانی دیتی ہے۔ تھوڑا برداشت کرو، آہستہ آہستہ حالات بدل جائیں گے. بچہ ہونے کا انتظار کر لو”

اف خدایا وہی فرسودہ روایات کی لکیر پہ چلتے والدین، وہی صبر کی تلقین اور حالات بدلنے کا مژدہ!

“سنو، تم نے ماسٹرز کیا ہوا ہے، نوکری کر لو اور اسے چھوڑ دو”

“ڈاکٹر، ماں باپ واپس آنے نہیں دیتے اور نوکری یہ نہیں کرنے دیتا”

“یہ ان لوگوں نے تمہیں اس جاہل سے بیاہ کیوں دیا؟” ہم نے دل گرفتہ ہو کر کہا،

“ڈاکٹر، آپ جانتی ہیں ہمارے معاشرے میں لڑکی چاہے کیسی بھی ہو، اس کی بولی مرد ہی لگاتا ہے”

“سنو، یہاں نظام عورت کی بہت حفاظت کرتا ہے، اگر کہو تو میں تمہارے گھر پولیس بھجواؤں؟”

“ نہیں، ڈاکٹر، میں پھر کہاں جاؤں گی۔ رہنا تو مجھے اسی کے ساتھ ہے نا، کوئی ٹھکانہ بھی تو نہیں”، وہ تھکی تھکی آوازمیں بولی۔

اس لمحے ہمیں شدید نفرت محسوس ہوئی پدرسری نظام، اور اس کے حامیوں سے جن کے سامنے یہ کھیل ہر دوسرے گھر میں کھیلا جاتا ہے اور لوگ گونگے بہرے بنے اس جہنم کا ایندھن اپنی بیٹیوں کو بناتے رہتے ہیں۔

کیا اس بچی کی اذیت کا اندازہ کوئی لگا سکتا ہے جو دیار غیر میں اپنے ہی لہو میں رنگی ایک کلینک کی اسسٹنٹ سے التجا کر رہی ہے کہ اس کا رابطہ ڈاکٹرسے کروا دے۔ اس قیامت کی گھڑی میں اس کے پاس کوئی ایسا فرد نہیں جسے وہ اپنے چہرے سے بہتا ہوا خون دکھا کے رو سکے۔ کوئی ایک بھی نہیں، والدین بھی نہیں۔

ہم سب والدین سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔

اگر بیٹیوں سے تعلق اتنا ہی ہے کہ کچھ برسوں بعد اسے کسی اور کی ملکیت میں دے کر خود فرائض سے فارغ ہونے کا ڈھونگ رچایا جائے۔ اپنے کان آنکھیں بند رکھتے ہوئے سب اچھا ہے کا جاپ کرتے ہوئے بیٹیوں کو اس آگ میں دن رات جلنے کا درس دیا جائے تو بیٹی نامی مخلوق کو دنیا میں لاتے ہی کیوں ہیں؟

بخدا! اس سے بہتر تو وہی گڑھا تھا جس میں نوزائیدہ دفن ہوتی تھی۔ زندگی کی کچھ ساعتوں کا حساب ہاتھ کے ہاتھ دے کر بچی زندگی سے رخصت لیتی تھی۔ آج اگر معاشرہ زندگی بخش دیتا ہے تو عورت، عورت ہونے کا خراج عمر بھر ادا کرتی ہے۔زندگی اسے پل پل زہر پلا کے پہلے زندہ لاش میں بدلتی ہے اور پھر کئی برسوں کی صلیب اٹھا کے آخر کار اچھی بیوی، اچھی بہن، اچھی ماں اور اچھی عورت کا تمغہ عطا کرکے دنیا سے رخصت کر دیتی ہے۔

ہاں دم رخصت، وہ ندی میں کود کے جان دینے والی عائشہ کی طرح یہ سرگوشی کرنا نہیں بھولتی،

“اے منصف اعلیٰ، عرش پر تیرے سائے تلے مجھے کسی انسان کی شکل نہیں دیکھنی!”

About The Author