نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شکریہ جسٹس قاضی فائز عیسی | آئینہ سیدہ

مگر اس نام نہاد انقلابی جماعت نے نوجوانوں کے کاندھے پر رکھ کر بد تھذیبی کی جو بندوق چلائی ہے۔ اسکی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی

پیارے معزز جسٹس قاضی فائزعیسی صاحب السلام و علیکم

کچھ سال پہلے کویٹہ دہشتگردی پرکمیشن رپورٹ کے ساتھ پہلی بارآپکا نام سنا تھا. ساری دنیا کی معلومات کیونکہ سمٹ کرہمارے ہاتھوں میں آچکی ہے اس لیے فورا ” ہی گوگل کیا تو آپکے معزز خاندان سے آگہی ہوئی . سوچا شکر ہے کوئی معزز جج سچ مچ معزز گھرانے سے بھی تعلق رکھتا ہے اور یونہی “چلتے چلتے ” وکیل سے جج نہیں بن گیا اسکے بعد ایک بارپھرآپکے انصاف کا ڈنکا عوامی سطح پر بجا جب آپ نے تحریک لبیک کے نفرتیں پھیلاتے مگر اداروں کے چہروں سے نقاب اتارتے دھرنے پر فیصلہ دیا اس دوران یوں ہوا تھا کہ پاکستان کے برے دن شرو ع ہو گیے تھے اور جس سیاسی جماعت کو ہم ” انصاف ” کے نام سے جانتے تھے اس نےآتے ہی انصاف کو بندر بنا کر نچا نا شرو ع کردیا تھا اور معذرت کے ساتھ عرض کرتی ہوں کہ آپکی عدلیہ اور ہم پیشہ منصف بھی اس مداریوں کی بٹالین کو ہمارے اوپر مسلط کرنے میں پیش پیش تھے . اسی لیے آج عوام پاکستان کے عسکری اداروں پر ہی اس “ناگہانی “کی ذمہ داری نہیں ڈال رہی جیسا کہ ہر غاصبانہ قبضے کے بعد ہوتا تھا بلکہ اب ہم عدلیہ کو بھی اس ” پانچ سالہ قید بامشقت ” کی سزا کا ذمہ دار سمجھتے ہیں

ویسے عوام کی عدلیہ سے بیزاری کوئی نئی بات نہیں ہے ہم نے اپنے ہوش میں آتے ہی جج نسیم حسن شاہ کو یہ اعتراف کرتے سنا کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو اس لیے پھانسی دی گئی کہ اس وقت کے چیف جسٹس کو “اوپر “سے آرڈر ملا اور یہ کہ “ججوں کو نوکری بھی بچانی ہوتی ہے ” یعنی جسٹس نسیم حسن شاہ نے یہ راز کھول کر ہماری نظروں میں عدلیہ کی توقیر اورانصاف کا قد کاٹھ اپنے قد سے بھی مختصر کردیا تھا

قصہ مختصر عدالتوں اور منصفوں سے ہمیں کوئی زیادہ روشن مثالیں نہیں مل سکیں اور اب جب کہ موجودہ حکومت خود اداروں کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں پہنچی عوام کافی ناامید تھے کہ ایک اور بری خبر نے ہمیں ہیجان میں مبتلا کردیا.خبر ملی کہ حکومت کے “ناخواندہ افراد” نے آپکے خلاف ایک مضحکہ خیز ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دیا ہے . اسکے بعد سے آج تک آپکے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسکو اپنے خط کے ذریعے آپ تک رپورٹ کرنے کی مجھے یقینن کوئی ضرورت نہیں یہ خط لکھنے کا واحد مقصد یہ بتانا ہے کہ عزت مآب جسٹس صاحب ! آ پ اور آپکا معزز خاندان جسطرح اس مکمل گلے سڑے نظام سے ان حالات میں نبرد آزما ہے وہ قابل تحسین ہے .عوام دیکھ رہے ہیں کہ کسطرح تمام ترنام کےنجی اورحقیقت میں ریاستی نیوزچینلز، سوشل میڈیا پرگندے ہیشٹیگ بناتی تنخواہ داربٹالین، یوٹیوب چینلزچلاتے حکومتی اورعسکری نوکر اور حکومت وقت کے ہرزہ سرائی کرتے وزیر ، مشیر اور معاون “بدتمیزی ” آپکے خلاف ہر طرح کا محاذ بناۓ بیٹھے ہیں، مگر آپ اسی طرح مضبوطی سے انصاف کے اصولوں پر قائم ہیں جیسے بلوچستان کے صدیوں سے قائم پہآڑ

آپ اپنا کیس لڑتے ہوے بار بار یہ بات دھراتے ہیں کہ میں اپنے لیے نہیں اس “عدلیہ ” کی عزت اور منصفوں کی توقیر کا مقدمہ لڑ رہا ہوں مگر آپ نہیں جانتے پیارے جسٹس صاحب کہ آج آپ اس پاکستان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں جسکی بنیاد آپکے قابل احترام والد نے محمد علی جناح کے ساتھ مل کر رکھی تھی . آپ اس عوام کا مقدمہ لڑ رہے ہیں جنکی زندگی اس نام کے ” آزاد ” ملک میں غلاموں سے بدتر ہوچکی ہے یہ غلام نہیں جانتے انکو کب کس وقت غائب کردیا جاۓ ؟ کب کس موڑ پر انکو ماوراۓ عدالت قتل کردیا جاۓ نہ انکو غائب کرنے والوں کا پتہ ملتا ہے نہ انکو قتل کرنے والوں کا سراغ ملتا ہے . حقیقت یہ ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جنکے” ملازم” ہی انکے آقا ہیں ہمیں عزت نفس سے لیکر روٹی اور جان کی امان سے لیکر اپنے ووٹ تک کے لیے اپنے ہی “ملازمین ” سے بھیک مانگنی پڑتی ہے سو آپ کی قدر ہم دل سے کیوں نہ کریں کہ آپ ہماری آزادی کا مقدمہ اسی طرح لڑ رہے ہیں جیسے ٨٠ سال پہلے آپکے والد نے لڑنا شرو ع کیا تھا اورآج ہمیں یہ امید ہے کہ جیسے آپکے والد بزگوار ہمیں انگریزکے تسلط سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوۓ تھے آپ بھی ہمیں ہمارے “ملازمین ” کی قید سے نجات دلانے میں کامیاب ہونگے انشاللہ

خط ختم کرنے سے پہلے آپکی بیگم صاحبہ اور صاحبزادی کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ہمیں بھی سراٹھا کرجینے کا حوصلہ دیا آپکے شانہ بشانہ اپنے موقف پرقایم رہتے ہوے ان معزز خواتین نے جس طرح نفرت اور حقارت کے “سونامی ” کو شکست دی ہے وہ ہمیں اور ہماری آئیندہ نسلوں کو یقینن طاقت دے گی

آپ نے جس طرح اپنے والد کی راہ پراپنے قدم مضبوط رکھے ہیں اس نے مجھے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں حوصلہ دیا کہ ہراولاد علامہ اقبال کے پوتے اور احمد فراز کے بیٹے کی طرح اپنے بزرگوں کے نظریات کو دنیاداری کے لیے دفن کرنے والی نہیں ہوتی بلکہ کچھ اولادیں “قاضی محمد عیسی آف پشین ” کے ہونہار بیٹے قاضی فائز عیسی جیسی بھی ہوتی ہیں جو اپنے والد کے ہاتھوں روشن کی گئی قندیل کو بےضمیر لوگوں کی پھونکوں سےبجھنے نہیں دیتے اور منزل کی طرف بےخوف گامزن رہتے ہیں تاکہ اس قندیل کی روشنی سے ہمارے جیسے عام لوگ بھی سیدھا راستہ تلاش کر لیں

آپکا بے حد شکریہ جسٹس قاضی فائز عیسی

اللہ آپکا حامی و ناصر ہو

آپکے لیے دعا گو

آئینہ سیدہ

یہ بھی پڑھیے:

اجتماعی خودکشی۔۔۔آئینہ سیدہ

تحریک انصاف کا شیش محل۔۔۔ آئینہ سیدہ

About The Author