نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سپریم کورٹ،قاضی فائز عیسی اور ففتھ جنریشن وار||اسد علی طور

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی عوامی پیسے سے چلتا ہے لیکن اس کی چابی حکومت کی جیب میں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کچھ خبریں بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھیے میں نے کمرہ عدالت میں کچھ کہا اور رپورٹ کچھ اور ہوا۔

اسدعلی طور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج 11 بج کر 15 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو کوئی صحافی اور وکیل کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا صرف عدالتی عملہ وڈیو لنک پر کراچی رجسٹری سے رابطے کے انتظامات میں مصروف تھا۔ تھوڑی دیر بعد ساتھی صحافی بھی پہنچنے لگے۔ سماعت کے لئے ساڑھے 11 کا وقت مقرر تھا۔ ججز تو نہیں آئے تھے لیکن ججز کے سامنے فائلوں کا انبار بتا رہا تھا کہ پچھلے دو سالوں میں پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے۔ 11 بج کر 33 منٹ پر پیٹشنر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ اور بیٹی کے ہمراہ کمرہ عدالت میں پہبچ گئے۔ 11 بج کر 37 منٹ پر کورٹ آ گئی ہے کی آواز لگی اور دس معزز ججز کمرہ عدالت میں آ کر اپنے لئے سنیارٹی کے لحاظ سے مختص نشستوں پر بیٹھ گئے۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کے بائیں ہاتھ فیصلہ دینے والے اکثریتی جج اور دائیں ہاتھ فیصلے سے اختلاف کرنے والے اقلیتی جج بیٹھے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سماعت کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست کی مخالفت کے لئے وفاق کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان دلائل دینے کے لئے روسٹرم پر آ گئے۔ عامر رحمان نے سب سے پہلے امریکی فیڈرل کورٹ کے جج کا فیصلہ پڑھا اور اس کے بعد بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز سے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حوالہ پڑھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے سماعت براہ راست دینے کا فیصلہ انتظامی قرار دے کر فائل چیف جسٹس کو بھجوائی تھی۔ اس کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے وفاقی حکومت کے دلائل سامنے رکھتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کا معاملہ عدالتی وقار سے جڑا ہے اور ماضی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے کیس میں عدالت قرار دے چکی کہ کیونکہ یہ عدالتی وقار کی بات ہے تو ان کیمرہ سماعت ہوگی۔ جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالتی وقار کی بات کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ ریفرنس بھیجتے وقت عدالتی وقار کا نہیں سوچا گیا، ریفرنس کے نکات میڈیا کو لیک کرتے وقت عدالتی وقار کا نہیں سوچا گیا، وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان، صدر عارف علوی اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے انٹرویوز دیتے ہوئے عدالتی وقار کا خیال کیوں نہیں رکھا؟ بہرحال سماعت کی طرف واپس متوجہ ہوا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت کو بتا رہے تھے کہ سماعت کے دوران ججز ایسے سوالات بھی کرتے ہیں کہ وہ شیطان کا وکیل لگتے ہوئے کیس اور دلائل سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک عام آدمی اتنی تکنیکی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتا اور وہ غلط فہمی کا شکار یا غلط تاثر لے سکتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا مزید کہنا تھا کہ کمرہ عدالت میں تجربہ کار صحافی بیٹھے ہوتے ہیں جو زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کیسے رپورٹ کرنا ہے اور جو اصطلاحیں کمرہ عدالت میں استعمال ہو رہی ہوتی ہیں ان کا کیا مطلب ہے اور وہ اس کو درست انداز میں رپورٹ کر سکتے ہیں۔ وفاق کے وکیل کا یہ بھی مؤقف تھا کہ ججز کو آئین میں جو استثنیٰ حاصل ہے وہ بھی براہ راست سماعت نشر کرنے سے متاثر ہوگا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ایک دلیل یہ بھی دی کہ ججز عوامی شخصیت نہیں ہوتے اور عموماً عوامی نظر سے اوجھل رہتے ہیں تو براہ راست سماعت نشر کرنے سے وہ عوامی نظر میں آ جائیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کا سماعت براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ پورے جوڈیشل سسٹم کو متاثر کرے گا کیونکہ پھر ہائی کورٹس میں بھی اس قسم کی درخواستیں آئیں گی اور ججز کو سوچنا ہوگا کہ کون سا مقدمہ عوامی مفاد کا ہے اور کون سا نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ایک اور دلچسپ توجیہ بھی پیش کی کہ پاکستانی عوام کی اکژیت تو انگریزی زبان سے نابلد ہے تو ان کو براہ راست نشریات سے سمجھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ عامر رحمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے سے ججز مقبول رائے اپنانے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عوام اور وکلا کی آگاہی کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سماعت صبح کے وقت نشر ہوگی جب کہ عوام کی اکثریت پرائم ٹائم دیکھتی ہے اور ٹی وی چینلز پرائم ٹائم میں سماعت کو ایڈیٹ کر کے پانچ منٹ کی مختصر کر کے چلا دیا کریں گے اور عام آدمی کو نہیں سمجھ آئے گی کہ کیا دلائل ہوئے اور کیا سوال جواب ہوئے تو وہ فیصلے کے بارے میں غلط مطلب بھی اخذ کر سکتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ججز اور وکلا کے سماعت براہ راست نشر ہونے سے قابل احتساب ہونے کے نکتے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی وکلا کمیونٹی پر فخر ہے اور اگر کچھ وکلا بعض اوقات بغیر تیاری کے آ بھی جاتے ہیں تو اس سے وکلا کے کریئر متاثر ہو سکتے ہیں اور ججز کے احتساب کے لئے ججز کے ریمارکس نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ججز کے فیصلوں پر وکلا اور پیٹشنر تبصرے کرتے ہیں اور ان کا احتساب ہو جاتا ہے۔ جسٹس مںصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی عامر رحمان سے پوچھا کہ انہیں صرف وڈیو نشر کرنے پر اعتراض ہے کہ آڈیو بھی؟ عامر رحمان نے جواب دیا دونوں۔ اس موقع پر فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے جاندار دلائل دیے ہیں بینچ ان پر غور کرے گا۔

پھر جسٹس عمر عطا بندیال نے روسٹرم سے رخصت ہوتے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ جنوبی افریقہ کی کتنی ریاستوں میں مقدمہ کی سماعت براہ راست نشر ہوئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سوچ کر جواب دیا کہ شاید چالیس۔ روسٹرم کے بالکل ساتھ بیٹھے ہوئے درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور بینچ کو بتایا کہ 47 ریاستوں میں۔

اس کے بعد مسز سرینا عیسیٰ دلائل دینے روسٹرم پر آ گئیں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے بینچ کو دلائل کا موقع دینے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پانچ سال چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ رہے اور میں ان کے ساتھ بلوچستان کے ایک ایک ڈسٹرکٹ گئی جہاں لوگوں نے مجھے بہن اور ماں والی عزت دی لیکن کبھی میرا نام یا کوئی تصویر کہیں رپورٹ نہیں ہوئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ میں خاموشی سے گمنامی کی زندگی گزارتی رہی ہوں اور اپنی ذاتی گاڑی خود چلاتی ہوں کبھی شوہر کی سرکاری گاڑی بھی استعمال نہیں کی کہ عوام کی نظر میں مت آ جاؤں۔ مسز سرینا کا اس موقع پر کہنا تھا کہ دو سال پہلے میری اور میرے بچوں کی نجی زندگی کی خلاف قانون جاسوسی کر کے ہماری زندگیوں کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے معلومات کو ایک ریفرنس کی صورت میں عام کر دیا۔

مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی تکلیف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد وہ عدالت جاتی ہیں یا ایف بی آر ان کی وڈیوز اور تصاویز بنائی جاتی ہیں جیسے وہ کوئی جرم کر رہی ہوں۔ اس موقعی پر مسز سرینا عیسیٰ کی آواز جذبات سے ڈوبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور ہم مسز سرینا عیسیٰ کے ساتھ روسٹرم پر موجود ان کی بیٹی کو ان کے کاندھے پر سرجیکل دستانے پہنا ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیٹی اپنی والدہ کو حوصلہ دے رہی تھیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بارے میں میڈیا کو آدھا سچ بولنے پر مجبور کیا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ میں اور میرے شوہر ہائی کورٹ کا جج تعینات ہونے سے قبل سے وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔

مسز سرینا عیسیٰ کا وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے بارے میں کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے سیاسی ایجنڈا کی تکمیل کے لئے بیرسٹر شہزاد اکبر سے خفیہ ملاقاتیں کیں جس کا نتیجہ ایک جج کو نشانہ بنایا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے کنڈکٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک دن وزیر قانون ہوتے ہیں اور دوسرے دن وزارت چھوڑ کر وکیل بن جاتے ہیں اور پھر اگلے دن دوبارہ وزیر قانون کا حلف لے لیتے ہیں۔ یہ آئین کا کیسا مذاق بنا رکھا ہے وزیر قانون نے؟

اب دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مداخلت کی اور مسز سرینا عیسیٰ کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ابھی نظر ثانی اپیل کی باقاعدہ سماعت شروع نہیں ہوئی اور ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سماعت ٹی وی پر نشر کرنے کی درخواست کو سن رہے ہیں تو بہتر ہوگا آپ ابھی صرف براہ راست نشر کرنے کے نکتے تک اپنے دلائل کو محدود رکھیں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے بینچ سے استدعا کی کہ ان کو صرف پانچ منٹ بات کرنے دی جائے کیونکہ وہ تو اس کیس میں فریق بھی نہیں تھیں لیکن میرے خلاف مجھے سنے بغیر فیصلہ دیا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اس موقع پر اہم بات کی اور کہا کہ وہ تو دراصل نظر ثانی درخواست لے کر آئیں ہی نہیں بلکہ پہلی دفعہ کیس میں فریق بنی ہیں تو عدالت کو ان کو دلائل دینے کا پورا وقت دینا ہوگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اجازت دی تو مسز سرینا عیسیٰ نے کیس کا ماضی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے ان کے خلاف معلومات تیار کیں اور سابق اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جھوٹ بول کر توہین عدالت کی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ اے آر یو کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور انور منصور خان کو جھوٹا ثابت کر سکتی ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ 1982 سے نوکری کر رہی ہیں اور ARU کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے ان سے 22 سال بعد اپنا کریئر شروع کیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں تو ٹیکس فائلر ہوں اور اپنی آمدن کا بتا سکتی ہوں، کیا بیرسٹر شہزاد اکبر بھی آج جن بنگلوں میں رہتے اور کاروں میں گھومتے ہیں ان کا ثابت کرسکتے ہیں کہ کیسے خریدیں؟

مسز سرینا عیسیٰ نے قبضہ مافیا بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان کے مشیر احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر پر ایک اور چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ شہزاد اکبر نے براڈشیٹ کے سلسلے میں لندن جا کر ایک مشکوک پراپرٹی ٹائیکون سے خفیہ ڈیل کی اور براڈشیٹ کے مالک سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے اور انہیں ٹیکس دہندگان کے پیسے کو لوٹ کر لندن میں رکھنے کا بتایا گیا لیکن انہوں نے اس پیسے کی ریکوری میں دلچسپی نہیں لی جب کہ براڈشیٹ کو پاکستانی عوام کے پیسے سے ایک بڑی رقم ادا کی گئی اور اس کے بارے میں بیرسٹر شہزاد اکبر کچھ نہیں بتا رہے۔

مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے اپنی ذاتی آمدن سے اپنے جوان بچوں کے لئے خریدے گئے اپارٹمنٹس سے شہزاد اکبر کو بہت دلچسپی تھی جو کہ کسی بھی قسم کے سرکاری پیسے میں خورد برد کا نتیجہ بھی نہیں تھے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے تمام معلومات اکٹھی کر کے ایک پراکسی شکایت کنندہ عبدالوحید ڈوگر کی خدمات حاصل کیں۔ مسز سرینا نے اپنے تحریری بیان کا اختتام ان جملوں پر کیا کہ اگر میں نے کوئی جھوٹ بولا ہے تو مجھے عوامی سطح پر سچ کے ذریعے ذلت کا سامنے کرنے دیا جائے لیکن مجھے عوام کے سامنے اپنے اوپر الزام کو صاف کرنے کا موقع ملنے سے محروم نہ کیا جائے اور میرے اس بیان کو عدالتی حکمنامے کا حصہ بنایا جائے۔

اس کے بعد مسز سرینا عیسیٰ نے برطانوی عدالتوں کے فیصلوں کی کاپیاں بنچ کو جمع کروائیں جو عدالتی سماعت کو براہ راست نشر کرنے سے متعلق تھے۔ آخر میں مسز سرینا عیسیٰ نے بینچ کو بلوچستان کے ایک وکیل کا خط بھی پیش کیا جو انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لکھا تھا کہ اگر عدالت ہدایت دے تو وہ سماعت کو براہ راست نشر کرنے کے لئے سہولیات دینے کے لئے تیار ہیں۔

اب 11:30 پر شروع ہوئی سماعت کو 12:40 ہو چکے تھے۔ مسز سرینا عیسیٰ کے روسٹرم سے ہٹنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حکومت کے جواب کا جواب الجواب دینے روسٹرم پر آ گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منظور ملک کا نام لے کر کہا کہ مجھے جسٹس منظور ملک نے جذباتی نہ ہونے کی ہدایت کی ہے اور میں کوشش کروں گا کہ جذباتی نہ ہوں۔

یہاں ایک دلچسپ بات جو ہم نے نوٹ کی ہے وہ بتا دوں کہ عموماً فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کے بالکل ساتھ بیٹھے جسٹس منظور ملک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہلکا پھلکا مذاق کرتے ہیں تو کمرہ عدالت میں تناؤ کم ہو جاتا ہے اور اب شاید جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی یہ نوٹ کر لیا ہے تو وہ بھی عموماً جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مسکرا کر اگلے ماہ کی 30 تاریخ کو ریٹایرڈ ہونے والے جسٹس منظور ملک کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ مائی لارڈ یہ بات کہہ رہے ہیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی مسکرا کر جواب دیتے ہیں کہ جسٹس منظور ملک نے کہہ دی ہے تو میں خیال رکھوں گا۔

قارئین کی دلچسپی کی لئے بتاتے چلیں کہ ریفرنس آنے سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منظور ملک میں اچھی دوستی تھی لیکن پچھلے دو سالوں سے یہ تعلق واجبی سا رہ گیا ہے۔ اور یہ بات جسٹس منظور ملک کی نہیں بلکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کے رکن تمام دس ججز سے ججز کالونی میں میل جول بہت کم کر دیا ہے اور راقم نے جب جسٹس فیصل عرب کی ریٹائرمنٹ والے دن چائے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے یہ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تو سپریم کورٹ میں بھی ایک ایسی گیلری سے داخل ہوتا ہوں کہ ان ججز سے میرا سامنا نہ ہو تاکہ وہ آزادانہ ذہن سے میرے کیس کا فیصلہ کر سکیں۔

بہرحال سماعت کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ درخواستگزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دس رکنی فل کورٹ کو بتایا کہ وہ دکھانا چاہتے ہیں حقائق کو کیسے توڑ مروڑ کر پروپیگنڈا کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر سرگرم برگیڈ ففتھ جنریشن وار میں پاکستان کے دشمنوں کو نہیں پاکستان کی عدلیہ کو نشانہ بنا رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف شکایت کنندہ عبدالوحید ڈوگر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈوگر کون ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں انکشاف کیا کہ عبدالوحید ڈوگر نے ایک یوٹیوب انٹرویو میں اعتراف کیا کہ وہ ISI کے ٹاوٹ ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ تمام کام ٹاؤٹوں کے ذریعے ہی سرانجام دیے جا رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی عوامی پیسے سے چلتا ہے لیکن اس کی چابی حکومت کی جیب میں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کچھ خبریں بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھیے میں نے کمرہ عدالت میں کچھ کہا اور رپورٹ کچھ اور ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر پاکستان کو گٹر کہنے والی بات کی بھی تردید کی۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ دیکھیے اگر ہم کسی کو کچھ کہیں تو وہ جب جا کر ہماری بات کسی کو سناتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ نوے فیصد ہمارے الفاظ میں من و عن بیان کر پاتا ہے اور جب کوئی اس سے سن کر آگے جا کر بیان کرتا ہے تو وہ ستر فیصد ہمارے الفاظ میں بیان کر پاتا ہے تو اتنی غلطی کی گنجائش ہوتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کے سربراہ سے اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا ایک عوامی نوٹس پڑھنا شروع کر دیا جس میں عوام اور وکلا کو ہدایت دی گئی تھی کہ صرف مقدمے سے متعلقہ وکلا اور سائلین ہی عدالت آئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلیل دی کہ ایسے میں عام عوام اس کیس کو سننے کے لئے عدالت آ نہیں سکتے۔

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ مجھے بدنام کرنے کے ثبوت موجود نہیں ہیں تو میں نے جمع کیے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سب سے پہلے اپنے خلاف فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑے کرنے والے مولوی افتخارالدین کی وڈیو کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ کیسے ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ وہ وڈیو دیکھ کر پریشان ہو گئی تھیں لیکن جب پولیس سٹیشن گئیں تو پولیس نے جواب دیا کہ منسٹر سے مشورہ کر کے ایف آئی آر کاٹیں گے اور پانچ روز بعد ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے ایف آئی آر درج کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ غیر قانونی اور عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی ہے کہ جرم کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ فوری درج کرنے کی بجائے پانچ دن بعد درج ہوتی ہے اور اس میں بھی جج کو گولیوں سے اڑا دینے کی دھمکی کو دہشت گردی کی بجائے صرف سائبر کرائم لکھا جاتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر آپ مولوی افتخار الدین اور صحافی احمد نورانی پر تشدد پر گمراہ کن جھوٹی خبر دینے والے عبدالوحید ڈوگر اور بیرسٹر شہزاد اکبر کا ٹیلی فون ریکارڈ نکالیں تو پتہ چل جائے یہ سب آپس میں تعلق رکھتے ہیں اور یہ کس کی پراکسی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر میں قتل کر دیا جاؤں تو شہید ہوں گا اور جنت میں جاؤں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی عمر باسٹھ سال ہو گئی ہے اور سروس کے تین سال باقی ہیں اگر وہ اس حملے سے بچ نکلے اور چیف جسٹس بن بھی گئے تو ان کے بارے میں اتنی نفرت پھیلائی گئی ہے کہ ان کے لئے یہ عہدہ اب اہمیت نہیں رکھتا، ہاں لیکن میں اس عدالت کے وقار کی خاطر کھڑا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سب سے پہلے چکوال کے جسٹس قاضی محمد امین احمد کا نام لے کر کہا کہ میں جسٹس قاضی امین کی خاطر کھڑا ہوں، پھر انہوں نے جسٹس منیب اختر کا نام لے کر کہا کہ معزز جسٹس منیب اختر نے آنے والے وقت میں چیف جسٹس بھی بننا ہے، میں ان کی خود مختاری کی خاطر اور جسٹس امین الدین سمیت سپریم کورٹ کے ہر جج کی عزت اور وقار کی خاطر کھڑا ہوں۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ترین بات کہی کہ یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات نہیں بلکہ آپ سب کی فائلز بھی تیار ہیں اور سب کا نمبر آئے گا اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی آپ میں سے کسی کے بارے میں بھی کہے کہ اس کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرو۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ مجھے آپ لوگ برطرف کر بھی دیں یا میں خود استعفا بھی دے دوں تو مجھے پینشن ملے یا نہ ملے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس کیس کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ کی خودمختاری پر حملہ کیا گیا ہے کیونکہ اگر سپریم کورٹ کی اخلاقی اتھارٹی کمزور ہوتی ہے تو یہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کا اختیار کمزور کر بیٹھتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کو بتایا کہ یہ حکومت عدالت اور فیصلوں کی کتنی عزت کرتی ہے کہ آپ میں سے سات ججز نے فیصلہ دیا اور اس میں فردوس عاشق اعوان کے خلاف سخت کارروائی کی بات کی لیکن 30 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری ہوا اور حکومت نے اس کے کچھ دن بعد فردوس عاشق اعوان کو پنجاب میں مشیر مقرر کر دیا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کو ہم نے خود دیکھنا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں عملدرآمد کروانے کی استدعا نہیں کر رہا لیکن صرف بینچ کو بتانا چاہ رہا ہوں کہ حکومت فیصلوں کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے اور فردوس عاشق اعوان نے تو اپیل تک دائر نہیں کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اپیل تو وفاقی حکومت نے بھی نہیں کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں یہی کہنا چاہ رہا ہوں کہ یہ عدالت کے فیصلوں کی پروا اور عزت ہے حکومت کی نظر میں۔

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر عارف علوی پورے ملک کے صدر ہیں وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے صدر نہیں ہیں لیکن انہوں نے ایوان صدر میں ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ریفرنس آیا تو تین آپشن تھے کہ مسترد کر دیتے یا ٹی وی پر خبر چلا کر بلیک میل کرتے یا سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیتے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوں ملک چلایا جاتا ہے کہ ریاست کا سربراہ کہہ رہا ہو کہ وہ بلیک میل کرنے کا آپشن بھی استعمال کر سکتے تھے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ صدر کے بیان کی تشریح کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں تشریح نہیں کر رہا، صرف انٹرویو کا مخصوص حصہ بیان کر رہا ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو اتنے دن سے سن رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں معذرت چاہتا ہوں اپنے خلاف ریفرنس دائر ہونے پر۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ طنزیہ گفتگو مت کریں اور منفی سوچ سے مت دیکھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں صرف سچ بیان کر رہا ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے تو صرف نظر ثانی کی اپیل سننی تھی لیکن آپ نے براہ راست نشر کرنے کی نئی درخواست دائر کر دی تو وہ سن رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں صرف اس عدالت میں ہی نہیں بلکہ عوام کی عدالت میں بھی سرخرو ہونے آیا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے خلاف دو سال یکطرفہ پروپیگنڈا کیا گیا، جھوٹ بولا گیا اور اب میں اپنا نام صاف کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں اپنی انا کی خاطر نہیں آیا بلکہ حکومت کے کنڈکٹ نے مجھے مجبور کیا۔ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یوٹیوب کے ایک پروپیگنڈا چینل حقیقت ٹی وی کی ویڈیو اور ٹرانسکرپٹ بینچ کو پیش کر کے پوچھا کہ اگر بینچ کہتا ہے تو میں پڑھ دیتا ہوں لیکن اگر بینچ یقین دلائے کہ وہ خود سے اس کا جائزہ لیں گے تو میں نہیں پڑھتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ساتھ بیٹھے جسٹس منظور ملک سے مختصر مشورہ کر کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مسکرا کر جواب دیا کہ مائی لارڈ کہہ رہے ہیں ہم خود جائزہ لے لیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی مسکرا کر جواب دیا کہ اگر جسٹس منظورملک کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہے میں نہیں پڑھتا۔ اس پر جسٹس مقبول باقر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے استفسار کیا کہ یہ حقیقت ٹی وی کے ٹرانسکرپٹ میں کیا ہے اگر آپ بتا سکیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حقیقت ٹی وی کی وڈیو میں خود پر لگے الزامات پڑھ کر سنائے اور کہا کہ یہ وڈیو یوٹیوب پر ایک لاکھ چوالیس ہزار لوگوں نے دیکھی ہے تو کم از کم مجھے بھی اپنی بات ایک لاکھ چوالیس ہزار لوگوں تک تو پہنچانے دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ سے کہا کہ میں یوٹیوب پر چینل نہیں بنا سکتا اس لئے آپ کے سامنے عدالت میں کھڑا ہوں۔

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اینکر سمیع ابراہیم کا حوالہ دیا کہ جب سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے خلاف توسیع پر پیٹیشن کی سماعت شروع کی تو سمیع ابراہیم نے بول ٹی وی پر ایک پروگرام میں ان کو آصف سعید کھوتا کہا لیکن پیمرا نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آخر بول ٹی وی کے خلاف کوئی نوٹس کیوں نہیں ہوتا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیا کوئی اخبار یہ خبر چھاپ سکتا ہے کہ بول ٹی وی کہ شیئر ہولڈر کون ہیں؟ کیونکہ یہ ایک قومی راز ہے۔ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف مختلف ٹوئٹر اکاؤنٹس سے کی جانے والی توہین آمیز پروپیگنڈا ٹوئیٹس پڑھ کر سنائی۔ جس کے بعد فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک کے لئے مؤخر کر دی۔

یہ بھی پڑھیے:

نظر ثانی اپیل میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے اہم انکشافات۔۔اسد علی طور

جسٹس قاضی فائز کیس: نظر ثانی اپیل میں سرینا عیسٰی کے اضافی دلائل کیا ہیں؟۔۔۔اسد علی طور

About The Author