امجد قمر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایف ایم ریڈیو کے لئےمارکیٹنگ کرنے والے ایک دوست نے بتایا کہ جب وہ لوگوں کے پاس مارکیٹنگ کے لئے جاتے ہیں تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ اب ریڈیو کون سنتا ہے۔ راقم 2003 سے ریڈیو کی شعبے سے وابستہ ہے ۔ اس زمانے انٹرنیٹ سکولوں ، کالجوں اور نیٹ کیفیز تک محدود تھا۔ زیادہ تر انٹرنیٹ ایسی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتا تھا جن کو عرف عام میں منفی سرگرمیاں کہا جاتا ہے۔ ابھی ٹی وی چینلز بھی نئے نئے شروع ہوئے تھے ۔ جیو سب سے آگے تھا۔
بہرحال اس وقت بھی جب ہم کسی سے انٹریو کرنے یا بزنس لینے جاتے تو پہلا سوال یہی ہوتا ۔۔ اب ریڈیو کون سنتا ہے۔۔ ٹی وی چینلز بڑھنے لگے اور اسی طرح پیمرا نے ریڈیو کو بھی لائسنس دینے شروع کئے ۔ ساتھ ہی ساتھ انٹرنیٹ کے صارفین بھی بڑھتے گئے ۔ سمارٹ فون کا زمانہ آ گیا ۔ لیکن ریڈیو کا سفر جاری رہا۔ آج بھی ترقی یافتہ ملکوں میں سب سے زیادہ صارفین ریڈیو کے ہیں- امریکہ کا ڈسر ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتا ہے . پڑھنے والوں کے لئے یہ بتا دوں کہ پاکستان میں ریڈیولائسنس بولی کے زریعے دیا جاتا ہے ۔ اور کئی دفعہ ریڈٰیو لائسنس کی بولی اتنی زیادہ رہی کہ اس کے بدلے ٹی وی کے تین چار لائسنس حاصل کئے جا سکتے تھے۔
بہرحال یہ سوال تب بھی موجود تھا اور اب بھی موجود ہے کہ ریڈیو کون سنتا ہے ۔ اس سوال کے جواب میں میرا کہنا ہوتا ہے کہ آپ سٹوڈیو تشریف لائیں اور وہاں کچھ وقت ٹیلی فون لائن پر گزاریں تو سمجھ آ جاتی ہے کہ ریڈیو کے سامعین آج بھی کس قدر بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ 2008 میں انٹرمیڈیا اور بی بی سی کے کئے گئے ایک سروے کے بعد آج تک کوئی ایسا مخصوص سروے نہیں کیا گیا ، جس سے ریڈیو سامعین کی تعداد کا تعین کیا جا سکے۔ ریڈیو کی فیلڈ سے متعلق اداروں نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیو کا مارکیٹنگ شئیر دوسرے میڈیمز کے مقابلے سب سے کم ہے اور اس شئیر میں بھی بعض بڑے اداروں کی اجارہ داری ہے.
ریڈیو کے سامعین
ریڈیو ایک ایسا میڈیم ہے ۔ جو کو لوگ اپنا میڈیم کہتے ہیں۔ ریڈیو سامعین کی ریڈیو کے ڈبے لے ساتھ ایک انسیت ہے جو انہیں کسی اور میڈیم میں دستیاب نہیں ہے ۔ ریڈیو لوگوں کی آواز ہے ۔ جس میں لوگ کال ، پیغامات اور خطوط کے زریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
ریڈیو ،خواتین کا میڈیم ہے
پاکستان میں اب بھی ایسی کروڑوں خواتین ہیں جس کے پاس انٹرنیٹ اور موبائل کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ان کی معلومات کا واحد ذریعہ ریڈیو ہے ۔ یہی ریڈیو ان کو موقع دیتا ہے کہ وہ ایک سادہ سے فون کے زریعے باہر کی دنیا کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں اور اپنی آواز اور مسائل کو بیان کر سکتی ہیں۔
علاقائی مسائل اور ریڈیو
ریڈیو کی آواز کسی مخصوص علاقے تک محدود ہوتی ہے ۔ یہ ایک علاقائی میڈیم ہے ۔ مین سٹریم میڈیا ان علاقائی خبروں کو وقت نہیں دے سکتا جو
اس علاقے کے لوگوں سے متعلق ہوں۔ ریڈیو کا ائیر ٹائم علاقے کے لوگوں سے متعلق ہے۔ اس لئے جو ریڈیو جتنا لوکل content بنائے گا اتنا ہی مقبول عام ہو گا ۔
تجاویز:
ریڈیو سے منسلک مالکان اور اس شعبے میں کام کرنے والے ان تجاویز کو اختیار کر کے اپنے سامعین اور بزنس بڑھا سکتے ہیں ۔
1: اپنے ریڈیو کو کمیونٹی ریڈیو بنائیں ۔ مکمل نشریات کو ایسا بنانا شاید ممکن نہ ہو ۔ لیکن دن کا ایک Slot اس کے لئے مختص کریں۔ وہ ایسا حصہ ہو جس میں کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک شعبہ خود پروگرام بنائے اور اس کو نشر کرے۔ پاکستان میں یہ شاید عجیب سی بات لگتی ہو لیکن تجربہ کرنا ضروری ہے .
2: ریڈیو پر جدید تکنیک کا استعمال کریں۔ اپنے ریڈیو کو سوشل میڈیا پر لائیو کریں ۔ تاکہ لوگ آپ کو دیکھ اور سن سکیں۔ لیکن لوگ آپ کو کیوں سنیں گے ؟
3: یہ اہم سوال ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے لوگوں سے اپنی باتیں کریں۔ جی ہاں۔ آج لوگوں سے یہ بات کریں ۔ کہ اج گراں وچ بکری ندی وچ ٹے پئی ہے (آج گاوں میں ایک بکری ندی میں گر گئی ہے ) ۔ آج بائی پاس پر ٹریفک بند ہے آپ دوسرا راستہ اختیار کریں۔ آج کسانوں نے زمین میں گوڈی شروع کر دی ہے ۔ آج لوکل لائبریری میں اخبارات نہیں تھے۔ آج لاری اڈے میں خانیوال کی گاڑیاں شارٹ ہو گئیں ۔ شہر میں کمپیوٹر کی دکانوں میں کی بورڈ نہیں مل رہے ۔ یہ ساری مثالیں ہیں اس طرح کی ہزاروں متعلق باتیں روزانہ نظر آتی ہیں۔
جب تک آپ کا کانٹنٹ لوگ اپنے ساتھ منسوب نہیں کریں گے ۔ کامیابی کم ہو گی ۔ لوگ صرف میوزک نہیں سننا چاہتے ۔ موسیقی کے لئے ہر ایک کے پاس ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ اگر لوگوں نے صرف میوزک سننا ہوتا تو کیبل پر پہلے چالیس نمبر صرف خبروں والے چینل کے لئے مختص نہ ہوتے۔ لوگ اپنے بارے سننا چاہتے ہیں ۔
لوگوں کو ان کی کہانیاں سنائیں ۔ اسی میں ریڈیو کی بقا ہے
یہ بھی پڑھیے:
ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ گلزار احمد
ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی اور دو خواتین کے سمارٹ فون۔۔۔ امجد قمر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر