شوکت اشفاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت اور اپوزیشن نے مل کر ضمنی اور سینٹ انتخابات کے حوالے سے الزامات پر مبنی جو چیخ و پکار لگا رکھی ہے اس میں عام آدمی مزید پس رہا ہے حکمرانوں کی توجہ دونوں ایوانوں میں عددی برتری حاصل کرنے پر مرکوز ہے لیکن دوسری طرف مہنگائی کا ناقابل برداشت طوفان بڑھتا جارہا ہے جس کی شرح 15فیصد سے زیادہ ہے،مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے جرائم بھی بڑھ رہے ہیں اپوزیشن کو اگر فکر ہے تو محض حکمرانوں کو ایوانوں میں عددی شکست دینے کی مگر عام آدمی کا خیال وہ بھی کیونکر کریں حکمرا نوں کی تقریریں الزامات اور دھمکیوں پر ہی رہتی ہیں
لیکن عملی طور پر آج تک کسی الزام کی نہ تو تصدیق کرسکے ہیں اور نہ دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا سکے ہیں،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے دل کا غبار نکال کر شیر و شکر ہوجاتے ہیں ٹھیک اس طرح جب سینٹ کے انتخاب میں ووٹنگ والے دن قومی اسمبلی میں ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلف گپ شپ میں موجود تھے تاہم یہ کوئی قابل اعتراض بات نہ ہے لیکن اس کا فائدہ حکومتی پالیسیوں میں بھی سامنے آنا چاہیے جس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہ ہو،مگر کیا کریں کہ ہمارے ان سیاستدانوں میں ایسے اوصاف ہی نہیں ہیں کہ وہ مل کر بہتری کیلئے کام کرسکیں اب سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے سینٹ کے انتخاب کو ہی لے لیں کہ کیا کیا سیاسی دھما چوکڑی نہیں ہوئی۔ہوا کیا کہ وہ جیت گئے مگر کیسے،
یہ بڑی آسان سیاسی پہیلی ہے کہ ضلع کونسل کے کونسلر اور پھر چیئرمین کے عہدے سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والا ایک شخص وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچ گیا اور اب اگر وہ اپنے ”گھر“سے ووٹ کینسل کرواکر اسلام آباد میں درج کروا رہا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی حکمت عملی ضرورہوئی ہوگی جس کا انہوں نے سینٹ ووٹنگ سے پہلے اظہار بھی کیا ہے کہ وہ سینٹ میں اپنے تعلقات کی بنا پر انتخاب لڑ رہے ہیں اور پھر ثابت کردیا اور حکمران جماعت کو ان کے اپنے دارالخلافہ میں شکست ہوگئی وجہ دوسرا سوال ہے جو پھر سہی لیکن ان کی کامیابی دراصل تحریک انصاف کی اخلاقی اور سیاسی شکست ہے جس کی خفت مٹانے کیلئے اعتماد کا ووٹ لیا گیا اس کے اعداد و شمار پراگر غور کرلیا جائے تو پھر وزیر اعظم عمران خان کو اپنے مشیروں اور وزیروں کو کم سے کم اپنے اپنے عہدوں سے ہی فارغ کردینا چاہیے کہ انہوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور سنسنان گلی میں اکیلے اپنے قائد کو اتنے ووٹ دلوا دئیے جتنے ایوان میں موجود ہی نہیں تھے اب اس پر تحریک انصاف کی اپنی کور کمیٹی کیا فیصلہ کرتی ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن دوسری طرف ملک کے ستر فیصد آبادی پر مشتمل صوبے کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے فراغت سے تنگ کر اچانک ”دورے“کرنے شروع کررکھے ہیں
گزشتہ دنوں وہ ملتان پہنچ گئے اور وہاں سے اچانک براستہ سڑک ڈیرہ غازی خان روانہ ہوگئے اور عملے سمیت ملتان انتظامیہ کو منع کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ کے دورے کو خفیہ رکھا جائے۔ڈپٹی کمشنر ملتان تو حسب معمول شہر سے باہر تھے البتہ سی پی او ملتان اس حکم کی تعمیل صیحح طور پر نہ کرسکے جس پر دونوں حضرات کو او ایس ڈی بنا کر فوری طور پر چارج چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔
اس حوالے سے ایک اور واقعہ بھی اہم ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بھائی اور ہمشیرہ ملتان پبلک سکول روڈ پر واقع ایک پرائیوٹ کالونی میں رہائش پذیر ہیں جہاں وزیر اعلیٰ کا اپنا گھر بھی زیر تعمیر ہے،جب یہ وہاں پہنچے تو کالونی گیٹ کے باہر سڑک پر مظفر گڑھ سے آئے ہوئے خادم حسین اور شاہد حسین نے اپنے خاندان اور علاقے کے رہائشیوں کے ہمراہ احتجاجی مظاہرہ کیا،مظفر گڑھ پولیس کے خلاف نعرے بازی کی اور بینر آویزاں کئے اور الزام عائد کیا کہ کوٹ ادو تحصیل کے علاقے پٹھان ہوٹل کے نزدیک 14کنال اراضی پر پولیس نے قبضہ کروا دیا ہے جس میں ڈی پی او،ڈی ایس پی اور ایس ایچ او مورد کو الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ نے اس بات کا یقینا برا منایا ہوگا کہ اس کے گھر کے باہر کس طرح احتجاج ہوگیا کیونکہ حکمران تو کبھی اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے یہ تو کھلا احتجاج تھا۔تاہم اس احتجاج کے حوالے سے مظفر گڑھ پولس کا تو بال بھی بینکا نہ ہو ا البتہ ملتان پولیس اپنے سربراہ سے محروم ہوگئی،مظفر گڑھ پولیس شاید اس لئے بچ نکلی کہ وہاں (ن)لیگی ایم پی اے اظہر چانڈیہ آج کل اپنی پارٹی کو چھوڑ کر حسب ضرورت پنجاب حکومت کی حمایت کررہا ہے اور اکثر عثمان بزدار سے ملاقاتیں بھی کرتا رہتا ہے نہ بھی کرے تو وزیر اعلیٰ کا چھوٹا بھائی عمر بزدار اس کے ”ساتھ“ہوتا ہے اور کوٹ ادو جیسی تحصیل کے متعدد قیمتی رقبے ان کی ہٹ لسٹ پر ہیں،
ویسے تو سرکاری مشینری ان کے ساتھ ”تعاؤن“کرتی ہے لیکن بوقت ضرورت وہ اپنا ”پٹواری“بھی لے آتے ہیں ٹارگٹ تو ان کا رنگ پور تحصیل بھی ہے جہاں بغیر بندوبست کے سرکاری رقبے موجود ہیں جہاں قبضے کرکے کاشتیں ڈال ملکیت چڑھائی جارہی ہیں اب ایسے میں مظفر گڑھ پولیس کا اتنا حق تو بنتا ہے ادھر ڈیرہ غازیخان کے علاقے فورٹ منرو کے قریب ایک اور سیمنٹ فیکٹری کیلئے جگہ تقریبا فائنل ہوچکی ہے جس کیلئے وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ”عوام“کو دیکھ کر اچانک ہوا سے زمین پر اتر گیا تھا اور اتفا ق سے ایچ آر ایل (حبیب رفیق لمٹیڈ)کے مالکان بھی وہاں موجود تھے۔ویسے شنید ہے کہ سیمنٹ کے کارخانے کی تنصیب جلد شروع ہونے والی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر