ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت مارچ کو مغربی ایجنڈا، پروپیگنڈہ، جسم فروشی کے کاروبار، فحاشی اور عریانی سے جوڑنے والوں کو ہم ایک کہانی سنانا چاہتے ہیں۔ ان عورتوں کی کہانی جو مغرب کی باسی تھیں اور انہوں نے اس نعرے کو اسی طرح سمجھا، جیسے سمجھنے کا حق ہے!
” یہ چوڑے منہ والا گرین آرمیٹیج ہے، یہ دانتوں والا ایلیسسز ہے، یہ نازک چیزیں کو پکڑنے کے لئے بیپکاک ہے، یہ ڈوئنز اور یہ سمز “
ہم میڈیکل کے طلبا و طالبات کو آپریشن میں استعمال ہونے والے آلات کے نام اور پہچاننے کے طریقے سکھائے جا رہے تھے۔
“ڈاکٹر، ان اوزاروں کے یہ نام کیسے رکھے گئے؟” ایک چمکتی آنکھوں والی لڑکی نے سوال کیا۔
“یہ نام ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے یہ اوزار بنائے، یہ ان کی محنت اور لگن کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک کوشش تھی۔ وہ لوگ کب سے دنیا سے گزر گئے لیکن دیکھ لو، ہر وقت دنیا کے گوشے گوشے میں کسی نہ کسی آپریشن تھیٹر میں کوئی نہ کوئی ڈاکٹر ان ناموں کی گردان کر رہا ہوتا ہے، ابھی گرین آرمیٹیج دے دو، اب مجھے ایلیسسز چاہیے”
“ڈاکٹر کیا یہ سمز سپیکیلوم وہی ہے جو بابائے گائناکالوجی پروفیسر سمز نے ایجاد کیا” ایک اور طالب علم نے پوچھا
“آپ نے درست اندازہ لگایا! لیکن کیا آپ کو علم ہے کہ یہ اوزار بے شمار عورتوں کی خونچکاں کہانیوں کی سفاکی کے داغ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اور اس کے موجد پروفیسر سمز کے سینے پہ دو میڈل لگے ہیں، میڈیکل سائنس کا مسیحا اور انسانیت کا قاتل!”
بیسویں صدی میں پروفیسر سمز کے گائناکالوجی پر کیے جانے والے احسانات کے گن گائے گئے لیکن وہ سچ جو بے شمار قبروں میں دفن تھا، تاریخ کے اوراق سے باہر نکل آیا۔
ہم جب بھی سمز سپیکیلوم ہاتھ میں پکڑتے ہیں ہمارے کانوں میں درد اور اذیت سے تڑپتی بے شمار عورتوں کی کراہیں، چیخیں اور سسکیاں گونجنے لگتی ہیں۔
ساؤتھ کیرولائنا ایک پسماندہ امریکی ریاست جہاں غلامی نے افریقی عورتوں کو زنجیریں پہنا رکھی تھیں اور ان کے سفید فام آقا ان کی زندگیوں کے مالک تھے۔ ان عورتوں کو کم عمری سے ہی ریپ کیا جاتا یا پھر کسی افریقی ساتھی سے شادی کروا دی جاتی۔ زیادہ بچے پیدا کرنے کا حکم دیا جاتا تاکہ کھیتوں میں بیگار کاٹتے مزدوروں کی تعداد میں کمی واقع نہ ہو۔
پروفیسر سمز انہی علاقوں میں طب کی پریکٹس کرتا تھا۔اس کا گائناکالوجی میں نہ تجربہ تھا اور نہ ہی عورتوں کا علاج کرنے کی طرف طبعیت مائل تھی۔ عورتوں کو نچلے درجے کی مخلوق سے زیادہ کا درجہ حاصل نہیں تھا۔
دولت مند کاشتکاروں سے ذاتی تعلقات ہونے کے باعث ان غلام عورتوں کا اسے علاج کرنا پڑتا جو جاں بہ لب ہوتیں۔ عورتوں کے جسم سے گھن محسوس کرتے ہوئے وہ اس شعبے سے اپنی کراہت اور بیزاری کا اظہار کھلے بندوں کرتا۔ لیکن تبھی اسے وہ خیال سوجھا جو اسے بہت کم وقت میں ایک ایسے مقام پہ پہنچا سکتا تھا جو عام صورت حال میں ممکن نہیں تھا۔
انیسویں صدی میں زچگی کی ایک بہت ہولناک پیچیدگی فیسٹولا کا کوئی علاج نہیں تھا۔ یہ بات مصدقہ تھی کہ جو کوئی بھی اس میں تحقیق کرے گا، میڈیکل کی دنیا کی شہرت اور دولت اس کے گھر کی باندی ہو گی۔ لیکن سوال یہ تھا کہ ایسے تجربات کرنے کے لئے عورتوں کے جسم چاہیے تھے جن کو آپریشن تھیٹر لے جا کر ان کے جسم کی پرتوں کو تجرباتی طور پر رفو کر کے دیکھا جائے۔
لیکن مشکل یہ تھی کہ بہ ہوش وحواس کون سی عورت ہو گی جو اپنے جسم کو ان تجربات کی بھینٹ چڑھائے جن کے متعلق یہ بھی علم نہیں کہ تجربہ کامیاب ہو گا کہ نہیں؟ سیکھنے کے لئے اناڑی پن سے کیے جانے والی چیر پھاڑ سے عورت کا جسم مزید کتنا مضروب ہو گا؟ کتنے آپریشن کیے جائیں گے؟ درد سہنے کے لئے کونسی دوائیں دی جائیں گی؟ اینستھیزیا کا استعمال ہو گا کہ نہیں؟
ان سب سوالات کا جواب پروفیسر سمز نے ساؤتھ کیرولائنا میں پائی جانے والی غلام افریقی عورتوں کے جسموں میں ڈھونڈا۔ یہ عورتیں جو غلام تھیں، جن سے ان کے آقاؤں کو اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی جو انہیں انسان نہیں سمجھتے تھے۔ جن کے متعلق خیال یہ تھا کہ سیاہ فام سفید فام کی چاکری کے لئے پیدا گیا ہے، سو ان کے جسم کو کسی بھی مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ بے پناہ مصائب کو سہتی ان غلام عورتوں کی قوت برداشت سفید فام سے کہیں زیادہ ہے، سو وہ سہہ لیں گی۔
بابائے گائناکالوجی کہلانے والے پروفیسر سمز نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی سوچی۔ کاشتکار آقاؤں کے رحم وکرم پہ سینکڑوں غلام عورتوں پر تجربات کرنے کے خیال نے اس کے رگ وپے میں سنسنی دوڑا دی۔ تجربات میں جانوروں کے استعمال کی جگہ کثرت اور آسانی سے میسر افریقی غلام عورتوں کے جسم!
اٹھارہ سو پینتالیس، موسم بہار، الباما میں ویسٹکاٹ کا زرعی علاقہ اور تین دن سے درد زہ میں مبتلا سیاہ فام بچی، سترہ سالہ انارکا!
یہ ہے کہانی کا آغاز!
انارکا تین دن سے درد زہ سے تڑپ رہی تھی لیکن زچگی کے دور دور تک آثار نہیں تھے۔ طوعاً و کرہاً ڈاکٹر سمز کو بلایا گیا جس نے چمچہ نما اوزار لگا کر بچے کو باہر نکالا۔ سمز نے ان اوزاروں کا استعمال بھی انہی غلام لڑکیوں کے بچے پیدا کرواتے ہوئے سیکھا تھا۔ ان اوزاروں کے غلط استعمال سے بچہ زندہ رہتا ہے یا نہیں، یہ سمز کا درد سر نہیں تھا۔ آنے والا بھی تو احمق غلام ابن غلام تھا، بھلے جیے یا مرے۔
مرا ہوا بچہ پیدا ہو گیا لیکن انارکا کی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ اس کا اپنے جسم پہ اختیار ختم ہو چکا تھا۔ نہ وہ اپنے جسم سے اٹھنے والی سڑاند روک سکتی تھی اور نہ ہی حملہ آور جراثیموں کی یلغار!
وہ ڈاکٹر سمز کے پاس دوبارہ پہنچی اور سمز نے بنا کسی تجربے کے اس پہ ان آپریشنز کا آغاز کیا، جس نے انارکا کی زندگی کے اگلے چار برسوں کو جہنم میں بدل دیا۔ چار برس میں ایک کم عمر لڑکی کے جسم پہ تیس آپریشن!
تاریخ دانوں نے سوال اٹھایا کہ کیا انارکا نے ان آپریشنز کی اجازت دی تھی؟
سمز نے اپنی بائیوگرافی میں لکھا کہ انارکا اور باقی سب عورتیں اپنی بیماری ختم کرنا چاہتی تھیں لیکن کیا ان سے ان تجرباتی آپریشنز کی اجازت لی گئی تھی یا نہیں؟ اس کا ذکر سمز نے کہیں نہیں کیا۔
واشنگٹن یونیورسٹی میں جینڈر سڈیز کی استاد پروفیسر بیٹینا جوڈ کہتی ہیں کہ آپریشن کی اجازت محض ہاں کہنے کا نام نہیں بلکہ نہیں کہنے کا اختیار بھی اس میں شامل ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سمز ان غلام لڑکیوں کو بحثیت آقا اپنی تحویل میں لے چکا تھا کیونکہ اب وہ کاشتکار مالکوں کے لئے کسی کام کی نہیں رہی تھیں۔ ملکیت میں لئے گئے ان جسموں کے مالک سمز کو ان پہ ہر تجربہ کرنے کی چھوٹ حاصل تھی۔
سمز کا دوسرا بڑا جرم ان لڑکیوں کو آپریشنز کے دوران بے ہوشی نہ دینا تھا حالانکہ اینستھیزیا کا استعمال شروع ہو چکا تھا۔ سمز کا خیال تھا کہ سیاہ فام عورتوں کو ان کی سخت جلد کی وجہ سے زیادہ درد نہیں ہوتا، اس لئے انہیں اینستھیزیا کی ضرورت نہیں!
انارکا کے علاوہ لوسی کے آپریشن کے بعد سمز نے اپنی یاداشتوں میں لکھا،
“لوسی کی اذیت بہت شدید تھی، یوں لگتا تھا کہ وہ مر جائے گی”
دلخراش حقیقت یہ ہے کہ گنی پگز کی طرح بے شمار سیاہ فام عورتوں کو تجرباتی طور پہ استعمال کرنے کے بعد کامیاب طریقہ جراحی سفید فام عورتوں پہ کیا گیا جنہیں باقاعدہ طور پہ اینستھیزیا بھی دیا گیا۔
پروفیسر سمز اپنی ملکیت میں لی گئی غلام عورتوں کے جسموں کو سیڑھی بنا کے اٹھارہ سو اسی میں امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کا صدر بن گیا اور اس کی خدمات کے ایک صدی تک چرچے کیے گئے۔ نہ صرف نیویارک سنٹرل پارک میں بلکہ پورے امریکہ میں آدھی درجن کے قریب اس کے مجسمے بابائے گائناکالوجی کہہ کے نصب کیے گئے۔
تاریخ کا انصاف یہ ہے کہ ایک صدی کے بعد یہ سچ سیاہ فام عورتوں کی قبروں سے باہر نکل کر آ گیا کہ جدید گائناکالوجی کی بنیاد ان کی اذیت اور طبی اخلاقیات کو نظر انداز کر کے رکھی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جدید امریکہ کی بنیادوں میں سیاہ فاموں کی غلامی کی اینٹیں چنی ہیں۔
اس سفاک اور بھیانک سچ کے نتیجے میں 2018ء میں نیویارک کے سنٹرل پارک سے پروفیسر سمز کا مجسمہ ہٹا دیا گیا ہے اور ساؤتھ کیرولائنا کے میڈیکل کالج میں لگی تصویریں بھی ہٹا دی گئیں۔
انارکا، لوسی، بیٹسی اور بے شمار گمنام عورتیں جو اس راہ میں قربان ہوئیں، ہم بحثیت گائناکالوجسٹ تمہارا درد اور تم سے ہونے والی طبی ناانصافی سمجھتے ہوئے تمہیں سلام پیش کرتے ہیں!
تمہاری کہانی ” میرا جسم، میری مرضی” کی وہ تصویر ہے جسے کوئی نہیں مٹا سکتا!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر