نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھ تین مارچ 2021کی صبح اُٹھا ہوں۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں اسلام آباد کے لئے مختص سینٹ کی دو نشستوں کے لئے پولنگ شروع ہوچکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں اپنے ذہن میں آئے کسی بھی موضوع پر عجلت میں ایک ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ کالم لکھتا اور اسے دفتر بھجواکر پارلیمان کا رُخ کرتا۔حقیقت مگر یہ ہے کہ کالم لکھنے کو بھی جی نہیں چاہ رہا۔
کاہلی میرا عمومی رویہ ہے۔رپورٹنگ کے حوالے سے تاہم کبھی سستی نہیں برتی۔ جنونی انداز میں خبریں ڈھونڈتا رہا ہوں اور تلاش کے اس سفر میں بلاخوف وخطر ان مقامات تک بھی چلا گیا جہاں جنگ یا دہشت گردی نے لوگوں کو حواس باختہ بنارکھا تھا۔
بدھ کے روز تو پارلیمان ہائوس میں خوب رونق لگی ہوگی۔ بہت عرصے کے بعد وہاں آصف علی زرداری بھی تشریف لائیں گے۔میں ان کے ساتھ گپ شپ کا وقت حاصل کرسکتا ہوں۔ شہباز شریف صاحب کے ساتھ میری ’’دوستی‘‘ نہیں ہے۔ان کے بارے میں ا کثر پھکڑپن ہی برتا۔ وہ مگرکافی لحاظ کرتے ہیں۔ان کے چیمبر میں بغیر وقت لئے گھس جائوں تو گرم جوشی سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ان سے ملنے جائوں تو خواجہ آصف سے بھی ملاقات ہوسکتی ہے۔خوش گپیوں کا نادر موقع مل جائے گا۔اس کے علاوہ طویل حراست کے بعد پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ بھی پارلیمان کی عمارت میں موجود ہوں گے۔ان کا حال احوال جاننا بھی ضروری ہے۔جی مگر گھر سے باہر نکلنے کو مائل نہیں ہورہا۔
عمر عزیز کے تقریباََ 30برس سیاست کے بارے میں رپورٹنگ کی نذر کئے ہیں۔گزشتہ چند دنوں سے مگر شدت سے احساس ہورہا ہے کہ یہ تو بہت ہی گندہ دھندا ہے۔جنہیں ہم ’’عوامی نمائندے‘‘ کہتے ہیں وہ پاکستان کے غریب اور سا دہ لوح عوام کو ’’قیمے والے نان‘‘ کھلاکر منتخب ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔وہاں پہنچنے کے بعد انتخابی خرچہ پورا کرنے کے علاوہ اپنا کاروبار بڑھانے کے لئے حکومتی سرپرستی کے ذرائع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔سینٹ کی جو 48نشستیں خالی ہوئی ہیں ان کے لئے ہوئے انتخاب نے بقول وزیر اعظم کئی امیدواروں کو 70کروڑ کی خطیر رقم خرچ کرنے کو بھی اُکسایا ہے۔
روایتی میڈیا اور یوٹیوب کے چینلوں پر چھائے ’’ذہن سازوں‘‘ نے ہماری سیاست کے بارے میں جو ماحول بنایا اسے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی سنجیدگی سے لیا۔ بہت خلوص سے کوشش ہوئی کہ آئین کے آرٹیکل 226کے ہوتے ہوئے بھی کوئی ایسا طریقہ دریافت ہوجائے جو بآسانی بیان کرسکے کہ کونسے رکن قومی اور صوبائی اسمبلی نے کس امیدوار کو اپنی سیاسی قیادت کی ہدایات کے برعکس ووٹ دیا۔ اس ضمن میں میسر ہوئی اطلاع کی بدولت پارٹی قیادت کی ہدایات کے برعکس ووٹ دینے والے کو ایف آئی اے جیسے اداروں کے حوالے کیا جاسکے گا۔ وہ تفتیش کے تمام تر ذرائع استعمال کرتے ہوئے پتہ لگائیں گے کہ ووٹ کتنے میں بیچا گیا۔تحریری آئین کے آرٹیکل 226نے مگر ہمارے خواب پورے ہونے نہیں دئیے۔الیکشن کمیشن مصر رہا کہ فی الوقت اس کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس کے ذریعے پتہ چلایا جاسکے کہ کونسے رکن قومی یا صوبائی اسمبلی نے کونسے امیدوار کوووٹ دیا ہے۔سینٹ کے آئندہ انتخاب تک شاید کوئی طریقہ دریافت ہوجائے۔فی الحال اسی تنخواہ پر گزارہ کرنا ہوگا۔
ووٹ کی خریدوفروخت کے بارے میں ہمارے پارسا اور صاف ستھری سیاست کے خواہاں ذہن سازوں نے جوواویلا مچایا اس کے بارے میں ہمارے کسی ’’نمائندے‘‘ نے بے عزتی محسوس نہیں کی۔ایک شخص نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ اسے ’’بکائو‘‘ دکھاکر کیوں پیش کیا جارہا ہے۔ ’’چور اور لٹیرے‘‘ کہلاتے سیاستدانوں کی مذکورہ تناظر میں لاتعلقی پر لیکن غور کیا تو احساس ہوا کہ ان کی نیتوں پر سوال اٹھانے والے صحافیوں کی اکثریت کوتحریک انصاف کی سپاہ ٹرول کئی برسوں سے ’’لفافہ‘‘‘ قرار دے چکی ہے۔چند معروف ’’ذہن سازوں‘‘ کے وسیع وعریض فارم ہائوس کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ ککھ سے ’’اچانک‘‘ لکھ پتی ہوئے ذہن سازوں کے گرانقدر خیالات کو لہٰذا سنجیدگی سے کیوں لیا جائے۔
تھوڑا غور کریں تو آپ کو یہ سوچ کر پریشان ہونا چاہیے کہ وطن عزیز میں اب لکھے یا بولے الفاظ کا اعتبار نہیں رہا۔ لوگوں کی نگاہ میں تمام سیاست دان ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہیں اور صحافیوں کی بے پناہ اکثریت ضمیر فروش ’’لفافے‘‘۔ ساکھ کا یہ بحران انتہائی سنگین ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے مجھ جیسے لوگ جنہیں رزق کمانے کے لئے صحافت کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہی نہیں آتا اپنا دھندا جاری رکھنے میں بہت دِقت محسوس کررہے ہیں۔لکھے اور بولے الفاظ کی ساکھ ختم ہوجانا بالآخرخلقِ خدا کی اکثریت کو قومی معاملات کی بابت قطعاََ لاتعلق بنادیتا ہے۔ ہم یقینا ایسے ہی بحران سے دو چار ہوچکے ہیں۔اس بحران کا تاہم اخبارات کے کالموں یا ٹی وی سکرینوں پر ذکر تک نہیں ہوتا۔یوٹیوب پر چھائے حق گو بھی اس پہلو کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔لکھے اور بولے الفاظ کی ساکھ ختم ہوجائے تو اہم ترین معاملات کی بابت سوال اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔اس گنجائش کا خاتمہ حکمران طبقات کو توانا تر بنادیتا ہے۔وہ انتہائی ڈھٹائی سے من مانیوں میں مصروف رہتے ہیں۔کاروباری دنیا کے اجارہ دار سیٹھ بھی نہایت اطمینان سے اپنی دولت بڑھائے چلے جاتے ہیں۔ریاست کے تمام تر ستون اپنے فرائض سے غافل ہوجاتے ہیں۔معاشرے کا ہر فرد ایسے ماحول میں اپنی بساط کے مطابق ’’دائو‘‘ لگانے میں مصروف ہوجاتا ہے۔
آج سے کئی دہائیاں قبل برطانیہ میں ایک لکھاری نمودار ہوا تھا۔جارج ارول (George Orwell)اس کا نام تھا۔پولیس میں بھرتی ہوا تو برما میں پوسٹنگ ہوئی۔برطانیہ کی اس نو آبادی میں تعیناتی کے دوران اس نے سامراجی مظالم کا مشاہدہ کیا تو پریشان ہوگیا۔نوکری چھوڑ کر برطانیہ لوٹ گیا۔وہاں اس نے غریب محلوں کی کوٹھریوں میں کئی برس گزارے۔ روزگار کمانے کے امکانات سے محروم ہوئے ان محلوں کے باسی معمولی یا سنگین جرائم کے ذریعے زندہ رہنے کے ذرائع ڈھونڈ رہے تھے۔جارج کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ دُنیا کے طاقت ور ترین سامراجی ملک یعنی برطانیہ کے اہم ترین شہروں میں جو غربت اور بدحالی چھائی ہوئی ہے۔ اس کا ذکر اخبارات میں کیوں نہیں ہوتا۔سارا میڈیا برطانیہ کی ’’کامیابیوں‘‘ کی ہوشرباداستانیں ہی کیوں بیان کرتا ہے۔اس غم میں مبتلا ہوکر اس نے بالآخر دریافت کیا کہ صحافی اور ا دیب درحقیقت حکمرانوں کی سرپرستی میں دروغ گوئی کی بنیاد پر جی کو بہلانے والا ماحول بناتے ہیں۔وہ مصر رہا کہ فریب دہی کا ڈھٹائی سے ارتکاب جاری رہا تو انسان بالآخر ’’اشرف المخلوقات‘‘ نہیں رہے گا۔ وہ جانوروں کی سطح پر گرجائے گا جسے ہٹلر جیسے آمر لاٹھی سے ’’سیدھی راہ‘‘ پر چلایا کریں گے۔اپنے خیالات کو اس نے “1984”جیسے ناول میں بہت تخلیقی انداز میں بیان کیا ہے۔2021کے کئی ممالک کے سیاسی نظام کو دیکھیں تو وہاں کے حکمران اس ناول کے جیتے جاگتے کردار دکھائی دیتے ہیں۔مجھے خدشہ ہے کہ دن رات ’’کرپشن‘‘ کے خلاف سینہ کوبی میں مصروف پاکستان بھی بہت تیزی سے ”1984”کی جانب ہی بڑھ رہا ہے۔
سینٹ کے انتخاب سے پہلے جو ماحول بنایا گیا وہ ممکنہ Big Pictureکی طاقت ور ترین جھلک تھا۔ اس تمام منظر میں میری دانست میں ہمارے لئے اہم ترین Role Modelتحریک انصاف کے فیصل واوڈا ثابت ہوئے ہیں۔وہ ہالی ووڈ کے Stars کی طرح کرشماتی شخصیت کے حامل ہیں۔ربّ کریم نے بے پناہ دولت سے بھی نواز رکھا ہے۔ جولائی2018کے انتخاب میں کراچی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لئے شہباز شریف کو شکست سے دو چار کیا۔عمران خان صاحب نے انہیں کابینہ کا اہم ترین رکن بنایا۔ٹی وی سکرینوں پر اپنی سوچ کو جی داری سے بیان کرتے ہیں۔کرپشن سے نفرت کرتے ہیں۔ان کا اصرار ہے کہ اگر پاکستان میں کم از کم پانچ ہزار لوگوں کو برسرعام گولی مارکر گاڑیوں سے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا جائے تو یہ ملک ’’ٹھیک‘‘ ہوجائے گا۔
مجسم ایمان داری کی بلند بانگ علامت ہوئے ان صاحب کے خلاف مگراعتراض اٹھا کہ جولائی 2018کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے انہوں نے جو کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے اس میں اپنی امریکی شہریت کا مبینہ طورپر ذکر نہیں کیا تھا۔تین برس گزرجانے کے باوجود ہماری عدالتیں اور الیکشن کمیشن یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ ان پر لگا الزام درست ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں جب چہ مہ گوئیاں تیز تر ہوئیں تو خطرہ لاحق ہوا کہ انہیں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے نااہل قرار دیا جائے گا۔ عمران خان صاحب نے مگر انہیں پارلیمان میں بٹھانے کے لئے سینٹ کا امیدوار نامزد کردیا۔ بدھ کے روز حفیظ شیخ کی حمایت میں ووٹ ڈال کر انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔یوں قضیہ تمام ہوا۔اب وہ سندھ سے سینٹ کا معزز رکن منتخب ہوکر قوم کی رہ نمائی فرماتے رہیں گے۔ربّ کریم سے فریاد ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو ان جیسا مقدر عطا کرے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر