نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوٹیوب پر جائو تو پاکستان کے ’’سینئر‘‘ صحافیوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ’’اندر کی خبر‘‘ دیتے ہوئے حیران کر دیتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی تاہم علم نہ ہو پایا کہ جنوبی ایشیاء کے دو ازلی دشمنوں -پاکستان اور بھارت- کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس کی بدولت گزشتہ ہفتے بالآخر یہ خبر آئی کہ دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشن کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوگیا ہے۔ کشمیر میں کھینچی لائن آف کنٹرول پر اس کے نتیجے میں 2003 کے دوران ہوئے سیز فائر معاہدے کا مکمل احترام ہوگا۔
ایمانداری کی بات ہے کہ پاکستان کی طرح دُنیا کی آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار ملک کے جید صحافی بھی اس ضمن میں بے خبر رہے۔ تحریری معاہدہ دونوں ممالک کی جانب سے سرکاری طور پر منظر عام پر آگیا تو ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے بڑھک لگائی کہ مذکورہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے مشیران برائے قومی سلامتی کے درمیان ہوئی خفیہ ملاقاتوں کے ذریعے طے پایا ہے۔ پاکستان کے ڈاکٹر معید یوسف نے مگر چند ٹویٹس لکھ کر فوراََ ’’خبر‘‘ کو جھٹلا دیا۔ مودی سرکار کے گرویدہ چند بھارتی صحافی تفصیلات میں وقت ضائع کرنے کے بجائے مذکورہ معاہدے کے بار ے میں Feel Good کہانیاں بنا رہے ہیں۔ ہمارے ’’دفاعی تجزیہ کاروں‘‘ نے مگر اس کی بابت رائے زنی سے گریز کیا۔ میرے دوست اعجاز حیدر نے البتہ ایک مضمون لکھا اور تازہ ترین معاہدے کے بارے میں چند کلیدی سوالات اٹھائے۔
صحافیوں کی بے خبری سے قطع نظر حیرانی مجھے اپنے سیاست دانوں کے لاتعلق رویے کے بارے میں بھی لاحق رہی۔ سیز فائر معاہدے کا اعلان ہوجانے کے بعد جمعہ کی صبح قومی اسمبلی کا اجلاس تھا۔ میرے دل خوش فہم نے فرض کرلیا کہ اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن کے چند سنجیدہ اور تجزیہ کار رہ نما پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے عمران حکومت سے وضاحتیں طلب کریں گے۔ کسی ایک نے بھی لیکن اس جانب توجہ نہیں دی۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوئی خواتین کا ذکر ہوا۔ تحریک انصاف کے کراچی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کو سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف -حلیم عادل شیح- کے ساتھ سندھ حکومت کی جانب سے برتے ’’وحشیانہ‘‘ سلوک نے پریشان کر رکھا تھا۔ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے تمام رموز سے واقف وفاقی وزیر فواد چودھری صاحب ان کے برعکس جمعیت العلمائے اسلام کے ایک بزرگ رہ نما کی ’’ایک کم سن بچی‘‘ سے شادی کی خبر پر شرمندگی کا اظہار کرتے رہے۔ ان کی دانست میں بھارتی میڈیا مذکورہ شادی کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ’’بدنام‘‘ کر رہا ہے۔ میں یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ ہمارے صحافیوں کی طرح وطن عزیز کے سیاستدانوں نے بھی خارجہ امور کے بارے میں ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ والا رویہ اختیار کرلیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے بھی مذکورہ معاہدے کے بارے میں اپنی رائے کا بذریعہ ٹویٹس اظہار کرنے میں دو دن لگائے۔
کئی برسوں تک پاک-بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنا میری پیشہ وارانہ ذمہ داری رہی ہے۔ 2015 میں داخل ہوتے ہی مگر اس سے جی اُکتا گیا۔ 2019کی فروری میں پلوامہ واقعہ ہوا تو پاک-بھارت جنگ کے امکانات سے گھبرا گیا۔ اس برس کی 27 فروری کے دن مگر سمجھ آگئی کہ مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ نام نہاد Coercive یعنی جارحانہ سفارت کاری کی جو روش اختیار کر رکھی تھی اس کے دن تمام ہوئے۔ رات کی تاریکی میں بھارت نے بالا کوٹ تک اپنے بمبار طیارے بھیجے تو عین ایک دن بعد دن کی روشنی میں پاکستان نے اس کا مگ طیارہ گرالیا۔ اس کا پائلٹ گرفتار ہوا۔ اسے چائے پلاکر بھارت واپس بھیج دیا گیا۔ نئی دہلی کو پیغام مل گیا کہ نام نہاد Surgical Strikes کے ذریعے مسلط کی ’’محدود جنگ‘‘ پاکستان کو تھلے نہیں لگاپائے گی۔ بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا ہوگا۔
27 فروری 2019 کے بعد لائن آف کنٹرول کو ’’گرم‘‘ رکھنا بھی بھارت کی دفاعی ترجیحات پر عملدرآمد ممکن نہیں بناتا۔ پاکستان کو اگرچہ فقط انسانی حوالوں سے یہ بہت تکلیف پہنچاتی ہے۔ بھارت سے آئے گولوں کا اصل نشانہ شہری آبادی ہوتی ہے۔ کئی سرحدی دیہات میں اس کی وجہ سے خاندانوں کو اپنے گھروں کے بجائے بنکروں میں راتیں گزارنا پڑتی ہیں۔ ہمیں جوابی کارروائی کے لئے سوبار سوچنا ہوتا ہے کیونکہ لائن آف کنٹرول کے اس پار بھی عام کشمیری آباد ہیں۔ دونوں اطراف کی انسانی تکالیف کو ذہن میں رکھیں تو تازہ ترین معاہدے پر اطمینان کا اظہار لازمی ہے۔ سوال مگر یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ کاش میرے پاس اس کا معقول جواب موجود ہوتا۔
تازہ ترین معاہدے میں 2003 کے سیز فائر معاہدے کو Bench Mark یا سنگ میل بنایا گیاہے۔ مذکورہ معاہدہ واجپائی اور جنرل مشرف کے مابین ہوا تھا۔ اس سے قبل 2002 کا سارا برس پاکستان اور بھارت کی افواج سرحدوں پر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی کھڑی رہیں۔ ممکنہ جنگ کا یہ منظر بھارت نے اپنی پارلیمان کی عمارت پر ہوئے ایک حملے کے تناظر میں بنایا تھا۔ اعلیٰ ترین امریکی اور برطانوی حکام تقریباََ ہر دوسرے مہینے بھارت اور پاکستان کی قیادتوں سے ملنے آتے رہے۔ ان کی آنیاں جانیاں نظر بظاہر جنوبی ایشیاء کو ’’ایٹمی جنگ‘‘ سے محفوظ رکھنے کی خاطر ہو رہی تھیں۔ بش انتظامیہ کی اصل فکر مگر یہ تھی کہ اس نے افغانستان پر ایک جنگ مسلط کردی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ پاکستان اپنی توجہ اس جنگ میں بھرپور معاونت فراہم کرنے پر مبذول رکھے۔ بھارت مگر ’’اڑی‘‘ دکھاتا رہا۔ بالآخر اسرائیل نے ’’اچانک‘‘ اپنے طیارے اس کے چار بڑے شہروں میں بھجوا دئیے۔ اپنے شہریوں کو حکم دیا کہ وہ فوراََ وطن لوٹ آئیں کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’ایٹمی جنگ‘‘ چھڑنے والی ہے۔ اسرائیل کے اس اعلان نے سیاحت کے دھندے سے وابستہ بھارتی کاروبار کو مندی کا نشانہ بنادیا۔ 2003 میں پاکستان سارک سربراہی کانفرنس کا میزبان تھا۔ واجپائی بالآخر اس میں شرکت کو آمادہ ہوگیا۔ اس برس بھارت میں عام انتخابات بھی ہونا تھے۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران واجپائی اپنی Face Saving کے لئے کسی معاہدے کے حصول میں مصروف رہا۔
2003 میں ہوئے معاہدے کی تمام تر تیاری جنرل مشرف کے ایوان صدر میں ہوئی۔ وزارت خارجہ کے افسروں کو اس سے باہر رکھا گیا۔ محض ان دنوں کے وزیر خارجہ -خورشید محمود قصوری- ایوان صدر میں موجود تھے۔ ’’اسلام آباد‘‘ ہوٹل میں پاکستان اور بھارتی صحافیوں کا ایک بڑا ہجوم معاہدے کے اعلان کا منتظر تھا۔ پاکستانی صحافی اس ہوٹل کے تہہ خانے میں قائم ہال میں موجود تھے۔ بھارتی صحافیوں کا پریس سنٹر ہوٹل کی چھت پر واقعہ تھا۔ ہم پاکستانی صحافیوں کے ساتھ معاہدے کے اعلان کا انتظار کرنے والوں میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری ریاض کھوکھر صاحب بھی موجود تھے۔ اپنے کیرئیر کا بیشتر حصہ انہوں نے بھارت کے ساتھ سفارت کاری کے عمل میں صرف کیا ہے۔ ان کا اضطراب دیدنی تھا۔ وہ انتہائی فکرمند تھے کہ ’’امن کی خواہش‘‘میں ہم اپنا دل کہیں زیادہ ہی بڑا نہ کرلیں۔ دریں اثناء بھارتی وزارتِ خارجہ کے سینئر ترین افسر ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں چند دستاویز تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ’’معاہدہ طے پا گیا ہے‘‘۔ اپنے اندازے کی تصدیق کے لئے رپورٹروں سے مختص ڈھٹائی کے ساتھ بھارتی صحافیوں کے لئے مخصوص ہوئے ’’پریس سینٹر‘‘ میں گھس گیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے ایوان صدر میں ہوئے معاہدے کی نقل بھی مل گئی۔ میں اسے لے کر نیچے کو بھاگا اور ریاض کھوکھر صاحب کے روبرو رکھ کر ’’رہ نمائی‘‘ چاہی۔ ان کے ساتھ ہماری وزارتِ خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری عثمان حیدر صاحب بھی موجود تھے۔ معاہدے کے نکات پڑھتے ہوئے کھوکھر صاحب کا چہرہ سرخ ہونا شروع ہوگیا۔ میں نے گھبرا کر ان کی پریشانی کا سبب دریافت کرنا چاہا تو انہوں نے دائیں ہاتھ والی شہادت کی اُنگلی طیش میں مذکورہ معاہدے کی تعارفی سطروں پر گھمانا شروع کردی۔ اس کے ذریعے بھارت کو یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین اس کے ہاں ’’دہشت گردی‘‘ کے لئے استعمال ہونے نہیں دی جائے گی۔
معاہدہ مگر ہوچکا تھا۔ ریاض کھوکھر صاحب اس کے مسودے میں کسی ترمیم کے قابل نہیں رہے تھے۔ میں ذاتی طورپر ’’امن پسند‘‘ ہوں۔ جنگ سے خوف آتا ہے۔ پاکستانی ہوتے ہوئے لیکن مجھے بھی 2003 میں ہوئے معاہدے کے متن نے اداس و پریشان کردیا۔ جنرل مشرف کو تاہم میرا تجزیہ پسند نہیں آیا۔ ناراض ہوگئے۔ ان کے مشیر برائے قومی سلامتی-طارق عزیز- صاحب نے البتہ چند ’’آف دی ریکارڈ‘‘ ملاقاتوں کے ذریعے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ میرے دیرینہ دوست خورشید قصوری صاحب بھی پُرخلوص گرم جوشی سے مذکورہ معاہدے کے نتیجے میں ’’خیر‘‘ کی خبر تلاش کرتے رہے۔ ’’خیر ‘‘ کی جو خبر 2003ء کے معاہدے نے فراہم کرنا تھی وہ مگر مل نہیں پائی۔ دیکھتے ہیں 2021 میں اس سے دوبارہ رجوع کرنا کیا خبر لائے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر