احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹ انتخابات کی فضا میں سیاست کے میدان میں نئے کھیل کے اشارے بہت واضح ہیں۔سیاسی مبصر نئی وقوع پذیر ہوتی صورتِ حال کو بھانپ رہے ہیں۔اس نئی صورتِ حال میں اپوزیشن جماعتیں اپنے لیے سپیس محسوس کررہی ہیں اور اُن کااعتماد بڑھ رہا ہے ۔
اگرچہ پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت اس اتحاد میں شامل پیپلزپارٹی اپنے لیے پیدا ہونے والے سپیس کا اندازہ کرچکی تھی۔آصف علی زرداری پر قائم ہونے والے مقدمات کراچی منتقل ہوچکے تھے ،شاید یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے تمام جلسوں میں بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کے دیگر سرکردہ رہنمائوں کی تقاریروں میں بہت احتیاط برتی گئی،بلاول بھٹو زرداری کی تقریر میں وزیرِ اعظم عمران خان پر تنقید تو کی جاتی ،مگر اداروں کے کردار پر سوالات اُٹھانے میں محتاط اور ذمہ داررویہ اپنا یا جاتا۔
جبکہ پی ایم ایل این کے رہنما سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز شریف کی جانب سے بہت سخت مؤقف اپنا یا جاتا رہا۔میاں نواز شریف نے جب گوجرانولہ کے جلسہ میں سخت تقریر کی تو پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے خاموشی اختیار کرلی۔گلگت بلتستان کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت کے باجود پیپلزپارٹی نے انتخابات کی صحت پر کوئی زیادہ شک کا اظہار نہیں کیاتھا۔پھرجیسے جیسے سینیٹ انتخابات قریب آتے گئے ،پیپلز پارٹی کا اندازِسیاست واضح طورپر تبدیل ہوتا چلا گیا۔
پیپلزپارٹی جو دوہزار تیرہ کے انتخابات کے نتائج کو دھاندلی زَدہ قراردیتی رہی ،نیز دوہزااَٹھارہ کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے برسرِاقتدار آنے پرتو اس کا نظام پر اعتماد ہی نہ رہاتھا ،مگر اب سینیٹ انتخابات میں نظام پر اعتماد بھی بحال ہوتا محسوس ہورہا ہے۔پیپلزپارٹی اپوزیشن کی دوسری بڑی پارٹی پی ایم ایل این سے ،اپنے لیے زیادہ سپیس محسوس کررہی ہے۔اس سپیس کی ایک مثال سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا اسلام آبادسے سینیٹ کی سیٹ پر میدان میں اُترنا ہے۔
یوسف رضا گیلانی کو یہ معرکہ مارنے کے لیے پی ٹی آئی اور اُس کی اتحادی جماعتوں میں سے بیس ووٹرز توڑنا ہوں گے۔ووٹرز کی یہ تعداد معمولی نہیں ۔سیاسی اُمور پر گہری نظررکھنے والے بھی یوسف رضاگیلانی کی جیت پر متزلزل خیالات کا اظہار کرتے پائے جارہے ہیں ،لیکن دوسری طرف یوسف رضاگیلانی اور اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کا اعتماد ،اپنے لیے پیدا ہونے والے سپیس کی طرف اشارہ کررہا ہے۔
اگرچہ یوسف رضا گیلانی حکومت او راُس کی اتحادی جماعتوں کے کئی ایم این ایز سے ذاتی اور دوستانہ مراسم رکھتے ہیں ،مگر ہم اس کو اعتماد کی وجہ نہیں قرار دے سکتے۔واضح رہے کہ حکومت اور اُس میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنما ،اپوزیشن جماعتوں کے کئی ایم این ایز سے دوستانہ تعلقات کے حامل ہیں ،اگر یوسف رضاگیلانی اور اُن کی جماعت ،دوسری پارٹیوں کے ایم این ایز کو اپنی ساتھ ملاسکتے ہیں تو ایسا دوسری طرف سے بھی ایسا ہوسکتا ہے۔پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کا یہ کہنا کہ سینیٹ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہوگا،بہت معنی خیز اور بدلتے سیاسی تناظر پر دال ہے۔
یوسف رضاگیلانی کا سینیٹ کے انتخابی معرکہ میں اُترنا ،سیاسی تجزیہ کاروں کے لیے حیران کن تھا۔جس وقت ٹی وی کی سکرینیں یوسف رضاگیلانی کی سینیٹ الیکشن لڑنے کی بریکنگ نیوز چلا رہی تھیں،اُس وقت اُن کی فیملی کی جانب سے مذکورہ خبروں کی تردید بھی بعض چینل چلا رہے تھے۔حتیٰ کہ پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کے لیے یوسف رضا گیلانی کا میدان میں اُترنا حیران کن تھا۔ملک کے ایک نامور اینکر نے تویہاں تک کہہ دیا کہ اُنھوں نے آصف علی زرداری کو فون کرکے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی بابت پوچھا تو آصف علی زرداری نے بھی لاعلمی پرمبنی حیرانی کا اظہار کیا اور ٹی وی پر چلنے والی خبرکی تردید کی۔
یہ ساری باتیں نئی اور تبدیل ہوتی صورتِ حال کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔سیاسی سپیس صرف پیپلزپارٹی کو ہی محسوس نہیں ہورہا ،اس سپیس کا ٹھنڈا جھونکا حمزہ شہباز کی ضمانت کی صور ت جاتی امرا کے محلات سے بھی ٹکرایا ہے۔اس سے بڑھ کر خوب صورت عمل کیا ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں پوری آزادی کے ساتھ اپنی جدوجہد اور سرگرمیوں کو سرانجام دیں۔ہر چھوٹی اور بڑی جماعت کا یہ پورا حق ہے کہ وہ اپنی با ت کرسکے اور الیکشن لڑ سکے۔
مذکورہ سپیس جس کی بابت یہاں بات ہورہی ہے ،کیونکر پیدا ہورہا ہے؟اس کی ایک بنیادی وجہ عمران خان کا طرزِ سیاست ہے۔عمرانِ خان اور اُن کی ٹیم نے جہاں اپنے طرزِ سیاست سے اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے قریب کیا ،وہاں شریف خاندان کے باہمی رشتوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی سپیس بھی پیدا کیا ہے۔
حمزہ شہباز شریف نے ضمانت پر رہائی کے بعد تقریر کی اور آخر میں میاں نوازشریف اور شہباز شریف کے نام کے نعرے لگوائے ،حمزہ شہباز نے اِن نعروں کے بعد مریم نواز کے نام کے نعرے لگوائے۔حمزہ کا مریم کے نام کے نعرہ لگوانا باہمی تعلقات کے اخلاص کو واضح کرتا ہے ،مریم نواز نے حمزہ شہباز کی گرفتاری کے دوران ہمیشہ حمزہ شہباز کا ذکر کیااور ملاقا ت پر گلے بھی لگایا۔وزیرِ اعظم عمران خان نے گذشتہ دور میں دھاندلی کو قومی مسئلے کو طورپر اُجاگر کیا تھا ،مگر اقتدار میں آکر اِن کی حکومت نے ڈسکہ کے ایک حلقہ کے الیکشن کو شفافیت سے ہمکنار کرنے میں معذوری کا ثبوت دیا۔علاوہ ازیں عوام نے پی ٹی آئی کے اس عرصہ ٔاقتدار میں اپنے لیے ریلیف بھی نہیں پایا۔
جب یہ سطریں لکھی جارہی تھیں توپیٹرول کی قیمتوں میں بیس روپے اضافہ کی تجویز کی خبریں چل رہی تھیں۔اگر پی ٹی آئی برسرِ اقتدار آکر آدھی مُدت پوری کرکے بھی سیاسی طرزِ چلن میں تبدیلی نہیں لاسکی اور عوام کو ریلیف بھی نہیں دے پائی تو اقتدار کی متمنی سیاسی جماعتوں کو سپیس ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر