نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زمانہ تھا ۔سینما ہوتے تھے۔ ان میں فلموں کی نمائش ہوتی۔ زندگی کی مشکلوں میں گھرے عوام کی کثیر تعداد انہیں دیکھ کر جی بہلانے کی کوشش کرتی۔ چند فلمیں اتنی مقبول ہوجاتیں کہ 25 اور 50 ہفتوں تک مسلسل نمائش کے بعد ان کی سلور یا گولڈن جوبلی بہت اہتمام سے منائی جاتی۔ فلم دیکھنے کے لئے اگرچہ ’’بارہ آنے‘‘ کی ٹکٹ بھی مل جاتی۔ اس کے لئے مختص نشستوں کی تعداد مگر بہت ہی کم ہوتی۔ محلوں اور تھڑوں میں روز کی روٹی کمانے کی اذیت میں مبتلا کم نصیب مگر ان سے بھی حظ اُٹھانے کے قابل نہیں تھے۔ ایسے محروم لوگوں کی تسکین کے لئے ہماری گلیوں میں چند داستان گو ہوتے۔ وہ ہر فلم کی کہانی مکالموں کی بھرپور ادائیگی کے ساتھ لوگوں کے روبرو بیان کردیتے۔ میں نے اپنے بچپن میں ایسے افراد کی مہربانی سے کئی فلمیں ’’دیکھی‘‘ ہیں۔ مثال کے طورپر دلیپ کمار کی ’’انداز‘‘ اور اس کا نرگس سے گولی کھانے کے بعد ’’تم مجھے نہیں مارسکتی‘‘ والا مکالمہ بڑبڑاتے ہوئے ادا کرنا۔
فلموں کی کہانی سناتے داستان گو اپنے سامعین میں اشتیاق کی لہر تیز کرنے کے لئے ایک خاص مقام پر ڈرامائی انداز میں خاموش ہوجاتے۔ ڈرامے کی زبان میں اسے وقفہ یا Pause کہا جاتا ہے۔ وقفہ تجسس کی جو خواہش بھڑکاتا ہے اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انگریزی زبان کے ایک ڈرامہ نگار Harold Pinter نے اسے کمال مہارت سے استعمال کرنا شروع کیا۔ اس نے جو طرح متعارف کروائی اسے Pinter’s Pause پکارا جاتا ہے۔ لاہور کی گلیوں میں فلموں کی کہانی سنانے والوں کو یقینا اس کاعلم نہیں تھا۔ اس سے منسوب تکنیک سے تاہم وہ جبلی طور پر آگاہ تھے۔ کسی فلم کی کہانی سناتے ہوئے وقفہ لیتے تو سامعین میں بے چینی اُکسانے کے بعد انتہائی جذباتی انداز میں آواز بلند کرتے ہوئے اعلان کرتے ’’اور یہاں کہانیTurn لیتی ہے‘‘۔
سینما اب نہیں رہے۔ فلم سازی بھی ہمارے ہاں تقریباََ معدوم ہوچکی ہے۔ زندگی کی مشکلوں میں گھرے عوام کو مشغول رکھنے کے لئے اب 24/7 چینل ہیں۔ وہاں ڈرامے بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اصل رونق مگر ملکی سیاست کو زیر بحث لاتے ٹاک شوز تھے۔ ان کی بدولت ذلتوں کے مارے لوگوں کو علم ہوتا کہ ہماری اشرافیہ اقتدار کے کھیل کو کیسے جاری رکھے ہوئے ہے۔ 2002 سے تقریباََ پانچ برس تک ان شوز نے کافی رونق لگادی تو عدلیہ بحالی کی تحریک شروع ہوگئی۔ بعدازاں اسلام آباد میں لال مسجد والا سانحہ بھی ہوگیا۔ حکمرانوں کو احساس ہوا کہ Live کیمروں کے سامنے واہی تباہی بکتے ہوئے اینکر خواتین و حضرات وطن عزیز میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ Ratings کی ہوس میں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے دشمنوں نے ہم پر 5th Generation War مسلط کر رکھی ہے۔ ذمہ دارانہ صحافت کو یقینی بنانے کے لئے کوئی ’’ضابطہ اخلاق‘‘ طے کرنا ہوگا جس کا احترام سب پر لازمی ہو۔
اگست 2018 میں 22 سال کی طویل جدوجہد کے بعد عمران خان صاحب وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔ ہماری اعلیٰ ترین عدالت نے انہیں صادق اور امین بھی ٹھہرا رکھا ہے۔ ’’تخریبی‘‘ اینکروں کو ان کے ہوتے ہوئے اجازت نہیں دی جاسکتی کہ واہی تباہی بکتے ہوئے حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کریں۔ ہمارے ایک بہت ہی ذہین سیاست دان جناب فواد چودھری صاحب وزیر اطلاعات ہوئے تو انہوں نے برسوں سے صحافت کے کاروبار سے جڑے اخباری مالکان کو سمجھایا کہ ان کا ’’بزنس ماڈل‘‘ فرسودہ ہوچکا ہے۔ ذمہ دارانہ صحافت کی مبادیات کھمبیوں کی طرح نمودار ہوئے ٹی وی چینلوں کو سمجھانے کے لئے یوسف بیگ مرزا صاحب کی صلاحیتوں سے بھی رجوع کرنا پڑا۔ نواز شریف صاحب نے ا پنے دوسرے دور حکومت میں انہیں دریافت کیا تھا۔ سرکاری ٹی وی کے مدارالمہام ہوئے۔ نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مگر جنرل پرویز مشرف نے بھی انہیں PTV کو درست راہوں پر رواں رکھنے کے لئے انکے عہدے پر بحال رکھا۔ جنرل مشرف کے بعد آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت آئی تو اس کے قیام کے دو برس بعد ہی ’’آزاد ‘‘ میڈیا نے اس کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا ماحول بنانا شروع کردیا۔ ان کے توڑ کے لئے زرداری صاحب کو بھی بالآخربیگ صاحب کی معاونت درکار ہوئی۔ عمران حکومت بھی ان کی فطانت پر انحصار کو مجبور ہے۔
’’ذمہ دارانہ صحافت‘‘ نے مگر ٹی وی سکرینوں کو ’’ٹھنڈا‘‘ بنا ڈالا ہے۔ ڈرامائی تجسس و چپقلش کی گرمی برقرار رکھنے کے لئے اب یوٹیوب پر بنائے چینل ہیں۔ ’’کھل کر گفتگو‘‘ کرتے ہیں۔ ’’اندر کی خبریں‘‘ دیتے ہیں۔ رونق لگا دیتے ہیں۔ 1975 سے مجھے صحافت علت کی طرح لاحق ہوگئی تھی۔ 2014 سے مگر شدت سے احساس ہونا شروع ہوا کہ میں اس شعبے کی مبادیات تک کو سمجھ نہیں پایا ہوں۔ اپنی بے ہنری کی دریافت کے بعد گوشہ نشین ہوگیا۔ سیاست پر نگاہ رکھنے کی مگر لت لگ چکی ہے۔ مرتے دم تک ساتھ رہے گی۔ اسی باعث ’’ذمہ دار‘‘ ہوئے ٹی وی چینل تو نہیں دیکھتا۔ یوٹیوب پر چھائے ذہن سازوں سے رہ نمائی حاصل کرتا ہوں۔
بدھ کے دن خبر آئی کہ شہباز شریف کے فرزند -حمزہ- کو لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ و ہ ایک سال آٹھ مہینوں سے جیل میں بند تھے۔ ان کی گرفتاری کے دوران عمران حکومت کے لگائے بقول منوں بھائی ’’احتساب دے چیف کمشنر‘‘ جناب شہزاد اکبر مرزا صاحب نے پے در پے پریس کانفرنسیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’تحقیقاتی صحافت‘‘ کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوئے جی دار صحافی بھی ہیں۔ ان صاحب نے باہم مل کر مجھ جیسے سادہ لو ح اور قانون کی نزاکتوں سے قطعی لاعلم شخص کو قائل کردیا کہ حمزہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے ٹھوس ثبوت دستیاب ہوگئے ہیں۔ ڈرائیوروں اور پاپڑ بیچنے والوں کے نام پر موصوف کروڑوں روپے TT کے ذریعے بیرونی ملکوں سے وصول کرتے رہے۔ جو ثبوت مجھ جیسے سادہ لوح کو دکھائے گئے ان کے ہوتے ہوئے احتساب عدالت کو ابھی تک حمزہ کے خلاف سنگین سزا سنادینا چاہیے تھی۔ ایک سال آٹھ ہفتے گزرجانے کے باوجود یہ ہو نہیں پایا۔ اس تناظر میں حمزہ شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی ’’معمول‘‘ ہی تصور ہونا چاہیے تھی۔
یوٹیوب پر چھائے ذہن ساز مگر اصرار کر رہے ہیں کہ حمزہ شہباز شریف کو ضمانت پر رہا ’’کروایا‘‘ گیا ہے۔ یہ بتانے سے اگرچہ گریز برتا کہ وہ کون ہے جس نے حمزہ شہباز شریف کو ضمانت پر رہائی دلوائی۔ اس حقیقت کو بھی ذہن میں نہیں رکھا جارہا کہ جب ’’رہا کروانے‘‘ کی بات چلے تو ہماری عدلیہ کی ساکھ کی بابت بھی چند سوالات اُٹھ جاتے ہیں۔ بہرحال جس کسی نے بھی ضمانت کروائی ہے اس کی ’’گیم‘‘ یہ بتائی جارہی ے کہ حمزہ شہباز شریف جیل سے لوٹ کر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا کنٹرول سنبھالیں۔ گزشتہ چند مہینوں سے یہ جماعت مریم نواز شریف کے ’’انتہا پسند‘‘ بیانیے کی غلام ہوئی نظر آرہی تھی۔ مریم نواز کو قابو میں لانے کے لئے ضروری تھا کہ حمزہ شہباز شریف جاتی امراء لوٹیں۔ اپنی جماعت کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ لوگوں کو بتائیں کہ ہماری جماعت غدار، انقلابی اور تخریب کار نہیں۔ روایتی سیاست دانوں کی طرح محض اقتدار کے حصول کی کوشش کرتی ہے۔ اقتدار مل جائے تو ریاست کے دیگر ستونوں کے ساتھ کامل ہم آہنگی کے ذریعے اسے برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ مریم نواز صاحبہ تند و تیز بیانات دیتے اور تقریباََ ہر دوسرے دن پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے اسے ’’اندھے کنوئیں‘‘ کی جانب دھکیل رہی ہیں۔ مسلم لیگ (نون) کو کھائی میں گرنے سے اب حمزہ اور ان کے والد ہی بچا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں امید یہ بھی دلوائی جا رہی ہے کہ حمزہ صاحب کے بعد شہباز شریف بھی ضمانت پر رہا ہوجائیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کا واضح جواب ہمارے ذہن سازوں نے فراہم نہیں کیا۔ ان میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ مریم صاحبہ کا مکو ٹھپنے کے لئے انہیں جیل بھیجنا ہوگا۔ دوسرے گروہ کا مگر خیال ہے کہ رہائی کے بعد حمزہ شہباز شریف اپنی ’’گڑیا آپا‘‘ کو قائل کریں گے کہ وہ ’’تایا جی‘‘ کی تیمارداری اور اپنی ’’سرجری‘‘ کے لئے لندن تشریف لے جائیں۔ کہانی میں گویا ایک نیا Trun آگیا ہے۔ دیکھتے ہیں ’’آخری ریل‘‘ تک کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ میں اگرچہ یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ ہمارے ایک جی دار اور اصول پسند منصف جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے لاہور کے شریف خاندان کو ’’سسیلین مافیا‘‘ قرار دیا تھا۔ مافیا کے بارے میں جو فلمیں دیکھی اور ناول پڑھے ہیں ان کے مطابق ’’جرائم کی عادی‘‘ فیملی اپنے گاڈفادر کی قیادت میں ہمیشہ متحد رہتی ہے۔ ان میں سے ہوا بھی نہیں گزر پاتی۔ کھوسہ صاحب درست ہیں تو حمزہ اور ان کی ’’گڑیا آپا‘‘ بالآخر ایک ہی رہیں گے۔ آگے تیرے بھاگ لچھیے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر