شاہد دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماکھی وانگوں مٹھڑی بولی ہووی پیش سلام سرائیکی
ساڈا ورد وظیفہ توں ایں ہر صبح ہر شام سرائیکی
ماں بولی کے عالمی دن کے موقع پر ہم تمام زبانیں بولنے والوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں، ہم تمام زبانوں کا احترام کرتے ہیں لیکن اپنی ماں بولی سرائیکی زبان کا تحفظ اور اپنے حق کی آواز بلند کرنا ہمارا حق ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا حق چھین لیں گے،پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں میں بنیادی تعلیم کو مادری زبان میں دئیے جانے کا خصوصی اہتمام اور لازمی قرار دیا جائے نیز مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں بشمول سندھی پنجابی بلوچی پشتو سرائیکی زبانوں کو قومی درجہ قرار دیا جائے۔ ہم سب زبانوں سے پیار کرتے ہیں اور ہمیں کسی بھی زبان سے کوئی نفرت نہیں لہٰذا تمام قوموں کی زبانوں، ثقافتوں کا احترام کر کے ان کے یکساں فروغ کی حمایت کرتے ہیں اور سرائیکی زبان جو ملک کے چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے اس کو اس کا اصل حق صوبہ سرائیکستان دیا جائے۔
ان باتوں کا اظہار سرائیکی ادبی اکیڈمی کی طرف سے 21 فروری ماں بولی کے حوالے سے ایف نائن پارک سے نیشنل پریس کلب تک نکالی گئی ریلی اور نیشنل لائبریری پریس کلب میں منعقدہ سرائیکی مشاعرہ میں شریک شرکاء نے کیا۔ تقریب کی صدارت نامور سرائیکی شاعر و دانشور وفا چشتی نے کی ، مہمان خصوصی معروف سرائیکی شاعر مخمور قلندری تھے جبکہ سرائیکی ریلی کی قیادت سرائیکی ادبی اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری شاہد دھریجہ نے کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفا چشتی نے کہا کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اپنی زبان اور روایات چھوڑ کر کسی غیر کی زبان اور تہذیب و تمدن کو اپنا کر کبھی ترقی نہیں کی۔ کیونکہ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اسکے ساتھ ثقافتوں اور روایات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ جن معاشروں میں دانشوراپنی دھرتی کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں اور ان کا تعلق اپنی مٹی کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو ان ممالک کی عوام اپنی ثقافت، زبان اور اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہیں۔لہٰذا ہمیں ہر صورت اپنی ماں بولی کا بغیر کسی تعصب کے ضرورتحفظ کرنا چاہیے۔انہوں نے شہریوں سےاپیل کی کہ خود بھی اپنی ماں بولی زیادہ سے زیادہ بولیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں اور اپنی زبان اور ثقافت سے کبھی مت شرمائیں بلکہ فخر محسوس کریں تاھم رواداری کا تقاضا یہ ھے کہ دوسروں کی زبان اور ثقافت کا ہمیشہ احترام کریں۔
سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر و نیشنل پریس کلب کی نائب صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال نے آشرم تونسہ سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ وقت مادری و علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء اور محققین کی سرپرستی کرے، ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منوا سکے۔
تقریب کے آرگنائزر شاہد دھریجہ نے کہا کہ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشوو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرات ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی زبان کو آئوٹ کرنے کا مقصد کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی سے اس کی ماں بولی چھین رہے ہیں تو گویا ماں دھرتی اور ماں بولی کے علم سے دور رکھنے کی کوشش ہے۔
اس دن کی مناسب سے دوسرا سیشن سرائیکی مشاعرہ نیشنل پریس کلب کی لائبریری میں منعقد ہوا جس میں سرائیکی کے معروف شاعر سئیں جاوید ملک، سئیں سجاد شاہ، سئیں عمران شاکر مہروی، سئیں رمضان بے وس، سئیں اختر شامی ، سئیں دلشاد محور اور سئیں تنویر حسن نے خوبصورت کلام سنا کر خوب داد سمیٹی جبکہ مہمان شاعر سئیں مخمور قلندری نے اپنے مخصوص انداز میں کلام سنا کر حاضرین کے دل موہ لیے۔اس موقع تقریب کی میزبان ڈاکٹر سعدیہ کمال کے سسر سرائیکی لیجنڈ، دانشور و شاعر ارشاد تونسوی کی مغفرت و بلندی درجات کے لیے خصوصی دعا بھی کی گئی۔
جبکہ ایف نائن پارک اور نیشنل پریس کلب میں نوجوانوں نے سرائیکی نیلی اجرک زیب تن کر کے سرائیکی ثقافتی جھمر کھیل کر اپنی ماء بولی سے محبت کا اظہار کیا۔ انہوںنے زبان سے محبت کے لیے رنگین بینر پکڑ ہوا تھا جس پر درج تھا "اساکوں اپنی سرائیکی زبان نال پیار اے” اور وفاقی دارلحکومت سرائیکی نعروں سے گونجتا رہا۔ اس تقریب میں عمید علی حجانہ ، ملک شاکر ببر، رانا سرفراز، محرم پتافی، آصف بغلانی، محمد طلحہ، اظہر خان جتوئی، محمد ساجد ، بابر مظہر، جام ظفر، عمران فرید چانڈیہ، صدیق چانڈیہ، ماسٹر ندیم، عبدالرحمن عباسی، افضل ماموں، شفیق لغاری، اکرام گیلانی ، شماس جمیل، باسط ظفر، عقیل کھوسہ کے علاوہ تمام سرائیکی پارٹیز تےسرائیکی طلبہ یونین کونسل کے قائدین نے بھرپور شرکت کی۔
ماء بولی دا اے حق بنڑدے جو اینکوں سونے چاندی نال لکھوں
سونا چاندی کیا شئے ہے اینکوں گل دی رَت دے نال لکھوں
یہ بھی پڑھیے:
مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد
گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد
پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی