نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کالم چھپنے تک اُمید ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان یہ طے کردے گی کہ مارچ 2021 میں سینٹ کی خالی ہونے والی 48 نشستوں پر صاف و شفاف انتخاب کس انداز میں کروایا جائے۔ حبیب جالبؔ کے بقول ’’جہل کا نچوڑ‘‘ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو ’’قیمے والے نان‘‘ کھلا کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں در آئے ’’چور اور لٹیرے‘‘ ممکنہ فیصلے کی بدولت اپنے ووٹ بیچ نہیں پائیں گے۔ صرف ان امیدواروں کی حمایت میں ٹھپے لگائیں گے جنہیں ان کی پارٹی قیادت نے نامزد کیا ہے۔ ایسا بندوبست یقینی بنا دیا گیا تو اسلام آباد سے تحریک انصاف کے نامزد کردہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب بآسانی ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہوجائیں گے۔ یوسف رضا گیلانی جنہیں اپوزیشن کی جماعتوں نے عمران حکومت کو وختہ ڈالنے کے لئے ’’متفقہ امیدوار‘‘ نامزد کیا ہے شرمندگی اور خجالت سے دوچار ہوں گے۔
گیلانی صاحب کے لئے ممکنہ شکست عمر کے اس حصے میں مزید تکلیف دہ ہوگی۔ 2008 کے انتخاب کے بعد وہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ قومی اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں نے باہمی اختلافات بھلاکر انہیں اعتماد کا ووٹ بھی دیا تھا۔ ہماری سیاسی تاریخ میں انہونی دِکھتی یہ حمایت بھی تاہم انہیں سپریم کورٹ کے غضب سے محفوظ نہ رکھ پائی۔
’’عوامی جدوجہد‘‘ کی بدولت جب مارچ 2008 میں افتخار چودھری صاحب چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر لوٹے تو انہوں نے وزیر اعظم کو حکم صادر کیا کہ سوئس حکومت کو ایک چٹھی لکھی جائے۔ اس چٹھی کے ذریعے معلوم کیا جائے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت -آصف علی زرداری- نے کتنے ارب ڈالر کون سے سوئس بینک میں جمع کروا رکھے ہیں۔ ہمارا تحریری آئین واضح الفاظ میں صدرِ مملکت کو اس کے عہد اقتدار میں عدالتی کارروائی سے استثناء فراہم کرتا ہے۔ مذکورہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے گیلانی صاحب نے ایک غیر ملک کو اپنے ہی ملک کے صدر کو بدنام کرتی چٹھی لکھنے سے انکار کردیا۔ ان کا انکار توہین عدالت شمار ہوا۔ اس کی پاداش میں وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کردئیے گئے۔ انہیں برطرف کرتے ہوئے عالمی ادب کے دلدادہ اور بہت ہی جی دار منصف جناب آصف سعید کھوسہ نے اپنی قوم کی بابت ’’حیف‘‘ کی دہائی بھی مچائی جو گیلانی جیسے شخص کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھا دیتی ہے۔ ’’جہل کا نچوڑ‘‘ ہمارے عوام مگر سدھرنے کو تیار نہیں۔ ان کی ’’نمائندگی‘‘ کی دعوے دار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) جیسی جماعتوں نے گیلانی صاحب کو اب ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے ذہین اور صاف ستھرے کردار کے حامل ٹیکنوکریٹ کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔ وقت کی مجبوری ہے کہ سپریم کورٹ کوایک بار پھر ہمیں سیدھی راہ پر چلانے کے لئے متحرک ہونا پڑا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کے خلاف یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اُتارتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) میں جمع ہوئی خود غرض جماعتیں یہ حقیقت بھول گئیں کہ 2008 سے 2018 کے درمیان اقتدار میں باریاں لیتے ہوئے انہوں نے قومی خزانہ خالی کر دیا تھا۔ اگست 2018 میں جب سپریم کورٹ کی جانب سے صادق اور امین ٹھہرائے عمران خان صاحب نے اقتدار سنبھالا تو وطن عزیز کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ اسد عمر نے بطور وزیر خزانہ اس ضمن میں بہت ہاتھ پائوں مارے۔ عمران خان صاحب جیسے خوددار وزیر اعظم کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے شہزادوں کی گاڑیاں خود چلانا پڑیں۔ ان کی دلجوئی کی بدولت ہمارے خزانے میں کچھ ڈالر امانتاً رکھوا دئیے گئے۔ بات مگر بنی نہیں۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے -IMF- سے بالآخر رجوع کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف میں بیٹھے مہاجنوں کو لیکن اپنے اعتماد کا بندہ بھی درکار تھا۔ ان کی تسکین کے لئے حفیظ شیخ صاحب سے درخواست ہوئی کہ وہ پارلیمان کے رکن نہ ہوتے ہوئے بھی بطور مشیر ہماری وزارتِ خزانہ کی سربراہی قبول فرمائیں۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں شیخ صاحب تیار ہوگئے۔ آئی ایم ایف سے انہوں نے قسطوں میں 6 ارب ڈالر کی ’’امدادی رقم‘‘ حاصل کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ اس معاہدے کے تحت سستی بجلی کی عادی بنی قوم کو تقریباََ ہر دوسرے مہینے اپنے گھروں کو روشن رکھنے کے لئے اضافی رقوم ادا کرنا پڑرہی ہیں۔
عالمی معیشت کے نگہبان مصر ہیں کہ بجلی کی کم از کم اتنی قیمت ہر صورت ادا کریں جو اسے پیدا کرنے میں خرچ ہوتی ہے۔ انگریزی زبان میں اسےCost Recovery کہا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق پیٹرول اور گیس کے نرخوں پر کرنا بھی لازمی ہے اور ان تمام اشیاء کے نرخ طلب اور رسد کے عین مطابق طے کرنے کے لئے ستمبر 2020 تک مہلت ملی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہوئی شرائط پر شیڈول کے مطابق عمل نہ ہوا تو 6 ارب ڈالر کی بقیہ اقساط میسر نہیں ہوں گی۔ عرب ملکوں کے شہزادے بھی اب مہربان نہیں رہے۔ آئی ایم ایف ہی ہماری آخری امید رہ گیا ہے۔ اس حقیقت کو تاہم اپوزیشن کی ’’سفاک‘‘ جماعتوں نے نظرانداز کردیا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کی اہمیت یاد دلانے کے لئے لہٰذا دو دن قبل اعلان ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے 500 ملین ڈالر پر مشتمل دوسری قسط دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب سے چند ہی دن قبل یہ اعلان واضح انداز میں یہ عندیہ دے رہا ہے کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب جیسے ذہین اور صاف ستھرے کردار کے حامل ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ کو پاکستان کا با اختیار وزیر خزانہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اگر انہیں سینیٹ کی اسلام آباد کے لئے مختص ہوئی نشست پر شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تو عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کو پیغام جائے گا کہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی پاکستان کی معیشت کوسنوارنے کے لئے آئی ایم ایف کے تیارکردہ نسخے کو قابلِ اعتماد تصور نہیں کرتی۔ حفیظ شیخ کی شکست عمران حکومت پر ہی عدم اعتماد تصور نہیں ہوگی۔ یہ آئی ایم ایف کو بھی آنکھیں دکھاتی نظر آئے گی۔ وقت کی لہٰذا یہ مجبوری ہے۔حفیظ شیخ ضروری ہے۔
میں حیران و پریشان ہوں کہ محض ووٹوں کی خرید و فروخت کے خلاف سینہ کوبی فرماتے ہمارے ذہن ساز اینکر خواتین وحضرات نے اس پہلو کی جانب توجہ ہی نہیں دی۔ وہ یہ بھی سمجھ نہیں پا رہے کہ ’’قیمے والے نان‘‘ کے عوض ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے یرغمال ہوئے ’’جہل کا نچوڑ‘‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے افراد کو اپنا ووٹ بیچنے سے روکنے کی ’’اخلاقی جرأت‘‘ سے محروم ہیں۔ اسی باعث سپریم کورٹ کو ہمیں سیدھی راہ پر دھکیلنے کو متحرک ہونا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی مداخلت نے بھی تاہم عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کو مطمئن نہیں کیا۔ اعلان کردیا کہ پاکستان کو 500 ملین ڈالر کی دوسری قسط فراہم کردی جائے گی۔ مذکورہ اعلان میں یہ پیغام بھی مضمر تھا کہ اگر یہ رقم درکار ہے تو حفیظ شیخ صاحب کی سینیٹ میں آمد کو یقینی بنائو۔
عالمی معیشت کے نگہبان ادارے خود کو دُنیا کے روبرو جمہوریت کے ’’مامے‘‘ بناکر بھی پیش کرتے ہیں۔ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی جب شیخ صاحب کی حمایت میں ووٹ ڈالے گی تو IMF سینہ پھلا کر یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ پاکستان کی معیشت سنوارنے کے لئے اس نے جو نسخہ تیار کیا ہے اسے ہماری پارلیمان نے بھی دل و جان سے قبول کیا ہے۔ اسے سامراج کا مسلط کردہ ’’نسخہ‘‘ قرار نہ دیا جائے جسے ’’غیر منتخب ٹیکنوکریٹ‘‘ کے ذریعے ’’قیمے والے نان‘‘ کھانے اور سستی بجلی کی عادی ہوئی قوم کو ’’بدہضمی‘‘ سے بچانے کے لئے کڑوی گولی یا وقتی تکلیف پہنچانے والے انجکشن کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔
یوسف رضا گیلانی بدنصیب تھے۔ ان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی آئی ایم ایف نے انہیں حفیظ شیخ صاحب کی ذہانت سے رجوع کرنے کا موقعہ فراہم کیا تھا۔ بطور وزیر خزانہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے شیخ صاحب مگر جو تجاویز دیتے رہے’’عوامی ردعمل‘‘ کے خوف سے گیلانی صاحب ان پر عملدرآمد کرنے سے ہچکچاتے رہے۔ سیاسی اعتبار سے ’’غیر مقبول‘‘فیصلوں کو Own کرنے کی ہمت وجرأت وطن عزیز میں فقط عمران خان صاحب جیسے دلاور کو نصیب ہوئی ہے۔ اسی باعث ہماری ریاست کے دیگر ادارے اور عالمی معیشت کے نگہبان ان کی معاونت کو ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں۔ ’’قیمے والے نان‘‘ کے بل بوتے پر چلائی ’’جمہوریت‘‘ کے دن تمام ہوئے۔ اب وہی ہوگا جو منظورIMF ہوگا۔ رات سونے سے قبل خدارا گھر کی تمام بتیاں بجھائیں۔ ایئرکنڈیشن جیسی ’’عیاشی‘‘ سے گریز کریں۔ درختوں کے سائے تلے دن گزاریں اور رات کو کھلی چھت پر سونے کی عادت اپنائیں۔ ’’ارطغرل‘‘ جیسے دلاوروں کی کامیابی و کامرانی بجلی اور گیس کی محتاج نہیں تھی۔ ہمیں اس کے دور میں واپس لوٹنا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر