رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شک تو مجھے پہلے بھی نہیں تھا کہ ہم باتیں کرنے والے لوگ ہیں‘ چوری کھانے والے مجنوں۔ یہ سستی اور کاہلی محض پاکستانیوں کے حصے میں نہیں آئی یہ اس پورے خطے کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے۔ بھارت میں آج کل نیا رواج چل نکلا ہے کہ جو بھی سائنسی دریافت سامنے آتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے سے ہمارے ہاں موجود تھی۔ ایسے ایسے دعوے کیے جاتے ہیں کہ خود بھارتیوں نے ہاتھ جوڑے کہ ٹھیک ہے ہم بڑی تہذبیوں کے وارث ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ وزیراعظم خود دن رات قوم پرستی کے نام پر ایسے دعوے کرے جس پر دنیا ہنسے۔
بات وہی کہ سب کام باتوں سے چلانا ہے۔ بولتے رہیں‘ دعوے کرتے رہیں کس نے روکنا‘ کس نے پوچھنا ہے؟ ویسے بھی لوگوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے لہٰذا کچھ عرصے بعد وہ حکمرانوں کی باتیں اور وعدے بھول جاتے ہیں۔سستی اور کاہلی کا اگر مقابلہ ہو تو یقین کریں ہم یہ مہابھارت جیتیں۔ اس خطے کی سستی کی وجہ یہاں قدرت کی طرف سے دی گئی وافر مقدار میں نعمتیں ہیں جو ختم نہیں ہورہیں۔ اس خطے کو ہزاروں سال تک لوٹا گیا‘یہ لوٹ مار اب بھی چل رہی ہے لیکن مجال ہے اس خطے کے وسائل میں کوئی کمی آئی ہو۔ میں اکثر جب طعنے سنتا ہوں کہ اس خطے کے لوگ بزدل تھے‘ سست اور کاہل تھے کہ دنیا بھر سے کوئی بھی حملہ آور اُٹھا اس نے یہاں قبضہ کر کے راج شروع کر دیا‘ تو میں انہیں ہمیشہ یہی جواب دیتا ہوں: جب آپ کے پاس سات دریا ہوں‘ ہر موسم ہو‘ فصلیں ہوں‘ کھانے پینے کو سب کچھ وافر ہو تو پھر آپ جا کر دوسرے ملکوں یا تہذیبوں پر کیوں حملے کریں گے؟ جس کا پیٹ بھرا ہوگا وہ کیوں کسی کا پیٹ چاک کرے گا؟ جب آپ کو گھر بیٹھے سب کچھ مل رہا ہے تو پھر کیوں انسانوں کے قتلِ عام کا منصوبہ بنائیں گے اور بستیاں اجاڑ یں گے؟ یہ جنگیں تو اُن قوموں کے کام ہیں جو صحرا یا پہاڑوں کی زندگی سے‘ بھوک سے تنگ آئے اور انسانی تہذیبوں پر حملہ آور ہوئے۔ خوش حال تہذیبوں کو لوٹا اور ان پر راج کیا۔ ایک صحرا میں کتنے دن لومڑیاں کھا کر گزارہ ہوسکتا تھا یا پہاڑوں پر کتنے دن جانور کھائے جاسکتے تھے؟ ویسے بھی صحرا اور پہاڑوں کی زندگی ٹف ہوتی ہے‘ آپ کو ٹف ہونا پڑتا ہے‘ ایکٹو ہونا پڑتا ہے ورنہ اگلے لمحے زندہ نہیں رہیں گے۔ آپ کو زندہ رہنے کیلئے صبح شام نیچر سے لڑنا پڑتا ہے۔ ایسے کام زرعی‘ دریائی اور میدانی علاقے کے لوگوں کو نہیں کرنا پڑتے‘ لہٰذا ان کی عادات‘ نیچر اور رکھ رکھائو میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ آپ پہاڑ سے آئے لوگوں اور میدانی علاقے کے لوگوں کی فطرت اور مزاج میں باآسانی فرق محسوس کرسکتے ہیں۔
اس خطے کے لوگ کام کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ کوئی اگر کہیں وقت پر پہنچ جائے تو اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تخلیقی ذہنوں کی کمی ہے ‘لہٰذا اگر ہمارا کوئی بچہ برسوں بعد کوئی عالمی امتحان پاس کر لے یا پوزیشن لے جائے تو ہم پہلے حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں کہ کمال ہوگیا ہمارے کسی بچے نے گوروں کو ہرا دیا۔ پھر اس کامیابی کا برسوں تک ڈھول پیٹا جاتا ہے اور اپنی انا کا مساج کیا جاتا ہے کہ دیکھو ہم بھی کسی سے کم نہیں اور پھر اگلے کئی سال تک ایسا نہیں سنیں گے کہ کوئی اور قابل بچہ پیدا ہوا ہو۔ ہم نے دو تین کردار محفوظ کر لیے ہیں جن کی قابلیت دکھا کر ہم اپنا رانجھا راضی کرتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب کسی امتحان کے رزلٹ آتے ہیں تو لگتا ہے دنیا کے قابل ترین بچے ہمارے ہاں پیدا ہوئے ہیں لیکن سائنسی میدان میں اپنی ترقی کیلئے ہم بیرونی ممالک کے بچوں کی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ہم سے ایک ویکسین تک نہیں بن پاتی ۔
اسی ٹھنڈے مزاج ‘ ٹھنڈ پروگرام اورکسی کام کو سنجیدگی سے نہ لینے کا ایک اور ثبوت اس وقت سامنے آیا جب پچھلے ہفتے کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو کہا کہ اکتوبر 2018 ء میں ایک ٹاسک فورس بنائی گئی تھی اور پاکستان کے پرائیوئٹ سیکٹر اور سرکاری شعبوں سے چُن چُن کر قابل ترین ارکان کو اس کا ممبر بنایا گیا تھا۔ اس ٹاسک فورس میں پروفیسر عطاالرحمن تک شامل تھے۔ دو تین ٹیلی کام کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو اس کے ممبر تھے۔ اپنے اپنے شعبے کے کئی اورقابل لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا تھا کہ وہ حکومت کو بتائیں‘ پاکستان کیسے آئی ٹی میں ترقی کرسکتا ہے۔ اب ڈھائی برس بعد کابینہ نے اس ٹاسک فورس سے بریفنگ مانگ لی کہ جس ٹاسک فورس نے پاکستان میں آئی ٹی کی دنیا میں انقلاب برپا کرنا تھا‘ آئی ٹی ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے تجاویز دینا تھیں‘ نوجوانوں کیلئے نئے نئے آئیڈیاز اور کام ڈھونڈنے تھے‘ آئی ٹی فری لانس شروع کرنا تھی‘ ای گورننس متعارف کرانا تھی اور بہت سے منصوبوں میں مدد دینا تھی‘ عملی طور پر کیا کامیابیاں حاصل کر پائی ہے۔ وزیر اعظم صاحب‘ جو اس موضوع پر درجنوں ٹی وی انٹرویوز دے چکے تھے اوردعوے کر چکے تھے جب انہیں کابینہ میں اس ٹاسک فورس کی کارکردگی بارے بتایا گیا تو وہ یقین نہ کرسکے کہ وہ ٹاسک فورس‘ جس میں دنیا بھر کے اپنے تئیں جغادری بیٹھے ہوئے تھے اس نے ان ڈھائی سالوں میں ایک ٹکے کا کام نہیں کیا۔ سب وزیر حیرت سے اس بریفنگ کو سنتے رہے کہ کیسے نام بڑے لیکن درشن چھوٹے ہوتے ہیں۔ اونچی دکان اور پھیکا پکوان کا محاورہ اس وقت وزیروں کو سمجھ آیا۔
پاکستانیوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ ٹینکوکریٹ بڑے قابل اور محنتی لوگ ہوتے ہیں ۔یہ قابل لوگ حکومت میں ہوں تو ملک بہت ترقی کرے گا۔ بات ٹھیک ہے لیکن یہ ٹاسک فورس‘ جس میں بڑے بڑے ٹیکنوکریٹس بیٹھے تھے‘ اس کی کارکردگی سے لگتا ہے کہ انہیں اس کام سے دلچسپی نہ تھی‘ انہیں اس کام میں کوئی ذاتی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا‘ انہیں کوئی تگڑی تنخواہ یا سہولتیں نہیں مل رہی تھیں‘ لہٰذا انہوں نے ان ڈھائی برسوں میں ٹکے کا کام نہیں کیا۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ پاکستان کی روایتی بیورو کریسی اس طرح کی کمیٹیوں کو زیادہ پسند نہیں کرتی کہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ان سے بہتر اور قابل لوگ بھی موجود ہیں جو ان کی وزارت کو جدید خطوط پر چلا سکتے ہیں‘ لہٰذا بیوروکریسی ہمیشہ ایسے لوگوں کو discourageکرتی ہے۔ بابوز اکثر لکیر کے فقیر ٹائپ ہوتے ہیں اور ساری عمر ایک ہی لائن پر چلنا چاہتے ہیں۔ ماہوار تنخواہ انہیں اس قابل نہیں چھوڑتی کہ وہ کمفرٹ زون سے نکل کر کوئی نیا تجربہ یا کام کریں۔اگر ایسی صورت تھی تو سوال بنتا ہے کہ بڑے بڑے ناموں نے اس ٹاسک فورس کا حصہ بننے پر رضامندی کیوں ظاہر کی؟ اگر وہ ممبر بن گئے تھے تو انہوں نے کام کیوں نہیں کیا؟ ان سے جو توقعات باندھی گئی تھیں ان پر پورے کیوں نہیں اُترے؟ اگر لگ رہا تھا کہ یہ کام ان سے نہیں ہو پائے گا تو وہ چھوڑ جاتے تاکہ کوئی اور آتا جسے اس کام کا شوق ہوتا۔ اب ڈھائی سال بعد فرماتے ہیں کہ ہم سے یہ کام نہیں ہوسکا‘ آپ ہمیں لعن طعن کر لیں۔
میرے دوست خالد مسعود ایک لطیفہ سناتے تھے کہ ایک زمیندار گھوڑی لے آیا اور اپنے سردار ملازم سے کہا کہ خیال رکھنا گھوڑی بڑی قیمتی ہے‘ چور اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں‘ چوری نہ ہو جائے۔سردار بولا: میرے ہوتے کس کی مجال کہ گھوڑی چوری کر جائے۔ زمیندار نے پھر دو تین دفعہ تنبیہ کی کہ گھوڑی چوری ہو جائے گی‘ خیال رکھنا۔ تو سردار بولا :آپ بے فکر ہو کر سو جائیں‘ گھوڑی چوری ہوگئی تے مینوں در فٹے منہ کہنا۔ اس پر زمیندار مطمئن ہوکر سو گیا۔رات کوگھر کے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی تو مالک آنکھیں ملتا ہوا باہر نکلا اور آگے سردار کھڑا تھا۔بولا: سائیں آپ ٹھیک کہتے تھے‘ گھوڑی چوری ہوگئی ہے تُسی مینوں درفٹے منہ کہہ لو۔یہی کچھ اس ٹاسک فورس نے کابینہ میں کیا ہے کہ ڈھائی سالوں میں ہم سے کچھ نہیں ہوسکا‘ ہن تسی سانوں درفٹے منہ کہہ لو۔
یہ بھی پڑھیے:
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر