نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ضمنی انتخابات، سینٹ الیکشن اور مہنگائی مارچ||ملک سراج احمد

یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ اس میں عوامی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے کیونکہ جمہوری طرز حکومت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتی ہے اور عوامی فیصلوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا حکومت وقت کی زمہ داری ہوتی ہے۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان ایک جوش اور ولولے کے ساتھ جب برسراقتدار آئے توعوامی امنگیں انتہاوں کو چھو رہی تھیں۔عوامی مقبولیت اور پسندیدگی کے ہمالیہ کی سب سے بلند چوٹی پر براجمان کپتان کو اتنی بلندی سے ہر چیز محض چھوٹی ہی نہیں بہت پست بھی نظر آرہی تھی۔اپوزیشن کے سلیکٹڈ کے بیانیے کو ایک لمحے کو مسترد کرتے ہوے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سات دھائیوں سے روایتی سیاست سے تنگ عوام نے تبدیلی کے لیے دل کھول کر کپتان کا ساتھ دیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور نا ہی یہ کوئی خلاف عقل بات ہے۔
مان لیتے ہیں کہ ٹکٹوں کی واپسی سے لے کر حلقہ جاتی سیاست میں طاقتور امیدواروں پر تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے دباو کی حقیقت محض اپوزیشن کی طرف سے گھڑی جانے والی الف لیلیٰ کی داستان سے زیادہ کچھ نہیں ہے تو بھی پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔عوام حکومتوں سے خائف بھی ہوتی ہے اور اپنی پسند اور نا پسندیدگی کا اظہار انتخابات میں ووٹ کے زریعے کرتی ہے اور یہی جمہوریت ہے۔
یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ اس میں عوامی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے کیونکہ جمہوری طرز حکومت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتی ہے اور عوامی فیصلوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا حکومت وقت کی زمہ داری ہوتی ہے۔ کسی بھی حکومت کے عہد میں ضمنی انتخابات بنیادی طور پر حکومتی کارکردگی کو چیک کرنے کا پیمانہ ہوتے ہیں۔اگر عوام حکومتی کارکردگی س مطمئن ہوتی ہے تو حکومتی امیدواروں کی کامیابی یقینی ہوتی ہے اور اگر عوام نالاں ہوتو نتائج مختلف ہوتے ہیں ۔
یہی کچھ موجودہ حکومت کے دو سالہ اقتدار کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں ہورہا ہے ۔عوامی رائے کو اگر معیار اور کارکردگی جانچنے کا پیمانہ مقرر کیا جائے تو پھر حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج حکومت کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوئے ۔رواں سال کا پہلا ضمنی الیکشن 18 جنوری کو سندھ کے صوبائی حلقہ پی ایس 52عمر کوٹ میں ہوا۔جہاں وفاقی حکومت کے تشکیل کردہ جی ڈی اے کی طرف سے سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم پیپلزپارٹی کے امیرعلی شاہ سے 25ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ارباب غلام رحیم جیسے سیاست دان کے لیے یہ ایک بڑی اور بہت بری شکست تھی۔
ارباب غلام رحیم کو جن وعدوں اور تسلیوں کے ساتھ انتخابی میدان میں اتارا گیا نا تو وہ وعدے پورے ہوسکے اور نا ہی تسلیاں عوامی رائے پر اثرانداز ہوسکیں۔یہی وجہ ہے کہ اس الیکشن میں شکست کے بعد ارباب غلام رحیم پریس کانفرنس میں کپتان کی بے اعتنائی کا شکوہ کرتے نظر آئے ۔تاہم اس میڈیا ٹاک کے بعد وہ منظر سے غائب ہیں اب معلوم نہیں کہ اُن کی اشک شوئی ہوئی یا نہیں ۔ویسے بھی یہ شطرنج کا اصول ہے کہ شاہ کو مات سے بچانے کے لیے قربانی دینے والے پیادوں سے شاطر کو کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ۔ان پیادوں سے توقع ہی یہی کی جاتی ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ بلاجھجک قربانی دیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ پیادوں کی قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی بساط پر شاطر کی ہر چال الٹ ہورہی ہے ہر پیادہ پٹ رہا ہے بلکہ بری طرح پٹ رہا ہے۔گزشتہ روز 16فروری کو سندھ کے دو صوبائی حلقوں پی ایس 43 سانگھڑ3 اور پی ایس 88 ملیر2 کی دونوں صوبائی نشستیں پیپلزپارٹی نے جیت لیں۔ وفاقی حکومت کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوے توقع کی جارہی تھی کہ صوبائی حکومت کے امیدوار یہ نشستیں جیت جائیں گے اور توقع کے مطابق نتیجہ آیا مگر جتنے ووٹوں سے فتح ہوی وہ فرق خلاف توقع تھا۔پی ایس 88 ملیرمیں تو تحریک انصاف کا امیدوار تیسرے نمبر آیا۔
سندھ کی طرح بلوچستان کے حلقہ بی پی 20 پشین 3 میں جے یو آئی ف کے سید عزیز اللہ 13ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار عصمت اللہ ترین 6ہزار109ووٹ لے سکے۔بلوچستان میں مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد کے پارٹی چھوڑنے کے بعد اندازہ کیا جارہا تھا کہ شاید جے یو آئی ف بلوچستان میں کمزور ہوئی ہے تاہم حالیہ انتخابی نتیجے سے مولانا فضل الرحمن کا مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد کے پارٹٰی چھوڑنے پر تبصرہ کہ موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں سچ ثابت ہو گیا ہے۔بلاشبہ اس نتیجے سے جے یو آئی ف کو بلوچستان میں کافی تقویت ملے گی۔
19 فروری کو قومی اسمبلی کے دوحلقوں این اے 75سیالکوٹ اور این اے 45 کُرم اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 51گوجرانوالہ اور کے پی کے کےحلقہ پی کے 63 نوشہرہ میں پولنگ 19 فروری ہوگی۔پنجاب کے دو حلقوں پر ن لیگ کے امیدوار حکومتی امیدواروں کا مقابلہ کریں گے اور ان کو پی ڈی ایم کی حمایت حاصل ہے۔تحریک انصاف حکومت کی کوشش ہوگی کہ کسی طرح پنجاب کے حلقوں میں وہ کامیابی حاصل کرئے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ جیت بھی جائیں گے کیونکہ موجودہ سیاسی حالات میں ن لیگ کا ضمنی الیکشن جیتنا شائد کسی طاقتور حلقے کو قبول نا ہو۔اور یہ بات برسراقتدارحکمران جماعت کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔
قبول تو شائد سینٹ الیکشن کے نتائج بھی نہیں ہوں گے اور اسی لیئے سینٹ الیکشن کی ووٹنگ کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے پر بحث چل رہی ہے۔سینٹ الیکشن میں ووٹنگ بیلٹ سے ہو یا شو آف ہینڈ سے ہو حکومت کو امیدواروں کے انتخاب پر اپنی ہی پارٹی میں شدید دباو اور تنقید کا سامنا ہے ۔کچھ امیدواروں سے ٹکٹ بھی واپس لیے گئے ہیں ۔لگتا ہے حکومت نے سینٹ الیکشن کے لیے ہوم ورک نہیں کیا ہوا تھا۔ایسے میں اگر پی ڈی ایم اچھا پرفارم کرکے کچھ سیٹیں اضافی جیت جاتی ہے تو یقینی طورپر یہ حکومت کے لیے ایک دھچکا ہوگا۔اور اگر حکومت کسی غیبی مدد سے اس دھچکے سے بچ بھی گئی تو 26 مارچ کو پی ڈی ایم اسلام آباد کی طرف جو مہنگائی مارچ کررہی ہے اس میں مزید شدت آجائے گی۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مہنگائی مارچ کی شدت کو کم رکھنے کے لیے اس بار تھوڑی بہت قربانی دے دی جائے۔ہر دوصورت میں اپوزیشن نے بال مخالف کورٹ میں پھینک دی ہے۔
تحریر:ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author