صحافیوں سے دعا سلام کے بعد حسن علی ان سے محوِ گفت گو ہوئےکہ میں جس مقصد کے لیے آیا ہوں مجھےآپ میڈیا پرسنز کی اشدضرورت ہے کیونکہ مسائل کی نشاندہی میڈیا کے ذریعے ہی ممکن ہے آپ تو جانتے ہیں میرا جس محکمے سے تعلق ہے وہ کتنا حساس ہے لیکن بد قسمتی سے ہم نے اس طرف کم ہی توجہ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ توجہ نہیں دی ہے اور ہماری عدم توجہ کی وجہ سے یہ محکمہ کھائی کی نذر ہو چکا ہے۔
آپ لوگوں کی بڑی نوازش کہ آپ لوگ یہاں آئے اور مجھے قوی امید ہے کہ آپ اپنے حصے کی شمع ضرور جلائیں گے اور میرا ساتھ دیں گے۔
صحافی حضرات محو حیرت ہوئے کہ پہلی بار اس محکمے کے ایسے آفیسر سے ملاقات ہوئی ہے جو محکمے کی بہتری کی بات کرتا ہے ایسا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
اس سے پہلے تو جتنے بھی آفیسرز آۓ تھے وہ ہمارے ساتھ گپیں لگاتے اور طرح طرح کے پوز دے کر تصاویر نکلواتے تھے انہوں نے تو کبھی بھی ایسی بات نہیں کی ہاں اتنا ضرور کہتے کہ اخبار میں جو تصویر لگے وہ واضح ضروری ہونی چاہیئے اور خبر جاندار ہو یعنی تعریفی کلمات وزنی ہونے چاہیئے ۔
صحافیوں کے جانے کے بعد حسن علی نے بیل بجائی
خاوند بخش کمرے میں آیا
خاوند بخش کسی اچھے سے میکنک کو لے کر گاڑی کی خرابی دور کروائیں کیونکہ کار سرکار کے واسطے ہمیں اس کی ضروت پڑے گی حسن علی کہا۔
خاوند بخش مودبانہ انداز میں
جی صاحب میں ابھی جاتا ہوں یہ کہتے ہی خاوند بخش جھٹ پٹ کمرے سے نکل گیا۔
حسن علی کا آفس میں پہلا دن تھا وہ آفس کے لیے اور آفس اس لیے اجنبی تھی.
اس شہر میں اس کی جان پہچان والا کوئی نہ تھا اسے معلوم تھا چند دن اکتاہٹ محسوس ہو گی اور وہ رفتہ رفتہ اس ماحول سے مانوس ہو جائیں گے۔
یہ مسافت اوراجنبیت اس کےلیے دقت نہ تھی کیونکہ وہ پڑھائی کے سلسلے بیرون ملک بھی قیام کر چکا تھا پھر یہ تو ان کا اپنا دیس تھا وطن مالوف.
جمعہ خان اسی شش پنج میں تھا کہ صاحب کو بتایاجائے کہ فلاں فلاں روز اول سے آفس نہیں آتے تاکہ وہ صاحب ڈانٹ ڈپٹ سے بچ جائے
یہ چوہدری کے آدمی ہیں پھر اسے چوہدری کا خیال آتا۔
آخر چوہدری کس طرح معاملے کو نمٹائے گا وہ ہاتھ مروڑتے ہوئے بڑبڑایا۔
گلاب گانا گنگاتے ہوئے پودوں کو پانی دے رہا ہے
گلاب کی بڑی سریلی آواز ہے
وہ کچھ وقت سے اپنی دھن میں مگن ہے اسے معلوم نہ تھا صاحب پیچھے کھڑا مزے سے اس کا گیت سن رہا ہے
گلاب جیسے ہی پیچھے کی طرف مڑا صاحب کو دیکھ کر اس کے ہاتھ سےپائپ گر پڑا اور وہ لڑا کھڑا گیا۔
واہ گلاب آپ تو بہت اچھا گاتے ہیں اور نصرت صاحب تو میرے پسندیدہ گلوکار ہیں.
گلاب نصرت فتح علی خان کا گیت “دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں”دن کی روشنی میں ایسا گیت گنگاتے پکڑا گیا تھا.
گلاب نظریں نیچے کیے خاموش کھڑا تھا گویا اس نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہوا ہے اور خیال کر رہا تھا کہ شاید صاحب طنز کر رہے ہیں لیکن بات اس کے بر عکس تھی حسن علی کو واقعی گلاب کی آواز اچھی لگی.
پھر مسکراتے ہوئے گلاب کو کہا اب ہمارا وقت اچھا گزرے گا فرصت میں آپ سے نصرت صاحب کے گیت سنیں گے.
گلاب ساکت کھڑا رہا.
حسن علی نے کہا او کے آپ پودوں کو پانی دیں میں نے آپ کے کام میں خلل ڈالا.
گلاب پائپ کھینچ کر دوسری جانب پودوں کو پھر سے پانی دینے لگا.
آفس کے احاطے میں مختلف قسم کے پودے اور درخت لگے تھے مین گیٹ کے ساتھ برگد اور پیپل کے درخت تھے اور مین گیٹ سے سیدھا سڑک پہ بھی مختلف قسم کے درخت لگے ہوئے تھے جو خوب صورتی میں اضافہ کر رہے تھے.حسن علی ان پودوں اور درختوں کو تکتے رہے اور اسے اپنا گاؤں یاد آیا جب وہ ایسے برگد اور پیپل کے درخت دیکھاتا تھا اور دیہاتی لوگ ان کے نیچے بیٹھ کر حقے کی نے منہ میں ڈالے گڑ گڑ باتیں کرتے تھے کیا سادگی کا زمانہ تھا ان درختوں کے درمیاں ہمارا تو بچپن گزرا ہے کیسے نہ ان سے انس ہو.انھی خیالوں میں گم سم تھے اچانک اسے سامنے سے ایک نوجوان مگر معذور شخص دکھائی دیتا ہے جو لنگڑاتے ہوئے آفس کی طرف چلا آتا ہے کھڑکی سے جمعہ خان کی بھی اس پر نظر پڑ گئی . جمعہ خان کمرے سے باہر نکلا کیونکہ جمعہ خان نے بھانپ لیا تھا کہ شہزادہ
صاحب کی طرف جائے گا اور صدا لگائے گا جمعہ خان نے اسے مخاطب کیا شہزادہ کہاں ہے تو دو چار دن سے تو نظر نہیں آیا شہزادہ بولا صاحب طبیعت ٹھیک نہیں تھی آج طبیعت بحال ہوئی تو آج روزی روٹی کے سامان کے لیے نکل پڑا.
جمعہ خان حسن علی سے مخاطب ہوئے صاحب! یہ یتیم بچہ ہے بچپن میں اسے پولیو ہوا تھا یہاں آس پاس کسی کوٹھی میں اپنی ماں اور بہن کے ساتھ رہتا ہے یہاں آفس چکر لگاتا رہتا ہے دو چار روپے ملتے ہیں سامان سلف لے کر گھر جاتا ہے حسن علی نے جیب میں ہاتھ لگایا اور مٹھی بند کر کے اسے پیسے دیے نا جانے کتنے تھے
اتنے تھے کہ جب شہزادے نے لیے تو اس کے چہرے پہ خوشی کے آثار نمودار ہوئے اور وہ آفس سے چلتا بنا.
اس اثنا میں خاوند بخش بھی آگیا اور کہنے لگا صاحب گاڑی ٹھیک ہو گئی اور چلنے کے قابل ہے یہاں شہر کے مشہور میکنک سے ٹھیک کروائی ہے.
گڈ خاوند بخش مجھے آپ سے یہی توقع تھی حسن علی نے داد دی…
آفس کا وقت بھی تمام ہوا چاہتا تھا
حسن علی نے ایک نظر پھر اس تختی کو دیکھا جس کا رنگ اتر چکا تھا اور کھر دری ہو چکی تھی صرف لفظ آفیسر اس پہ واضح تھا.
خاوند بخش کل آپ نے پہلی فرصت میں اور مجھے پتا ہے کہ آپ ہی یہ کام صحیح سر انجام دیں گے یہ تختی اتارنا کیونکہ اب یہ تختی بوسیدہ ہو چکی ہے اور اتنی ہی ناپ کی نئی تختی لینا اور پینٹر سے کلر کروا کے اس پہ “ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فیض آباد”لکھوانا….
تختی کی تبدیلی نے خاوند بخش کو محو حیرت کر دیا کیونکہ یہ اس کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی تھی..
یہ بھی پڑھیے:
کار سرکار(1) ۔۔۔ احمد علی کورار
کار سرکار(2) ۔۔۔ احمد علی کورار
گریڈز کی تعلیم ۔۔۔ احمد علی کورار
ماہ ِ اکتوبر اور آبِ گم ۔۔۔ احمد علی کورار
”سب رنگ کا دور واپس لوٹ آیا ہے“۔۔۔احمد علی کورار
مارٹن لوتھر کا ادھورا خواب اور آج کی تاریخ۔۔۔احمد علی کورار
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر