نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنگ ٹپائو کالم لکھنے کا مواد پیر کی دوپہر اسلام آباد کے وکلاء نے فراہم کر دیا تھا۔ میرے گھر سے تھوڑی ہی دور اسلام آباد کا F-8 مرکز ہے وہاں ضلعی انتظامیہ اور نچلی عدالتوں کے دفاتر بھی ہیں۔ ان سے رجوع کرنے والے سائلین سے رابطہ کیلئے وکلاء نے ’’کھوکھے‘‘ بنا رکھے ہیں۔ ہر اعتبا ر سے وہ ’’تجاوزات‘‘ ہی شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے سیکٹر کے کئی گھرانے ان سے نالاں رہتے ہیں۔ ہمسایوں سے ملاقات ہو تو اکثر مجھے’’صحافتی ذمہ داریاں‘‘ یاد دلاتے ہوئے تجاوزات کے بارے میں ’’کچھ لکھنے‘‘ کو اُکسایا جاتا ہے۔ ذاتی طور پر عرصہ ہوا میں نے ’’کچھ لکھنے‘‘ کی ’’اوقات‘‘ دریافت کرلی ہے۔ بغیر کوئی وعدہ کئے موضوع بدل دیتا ہوں۔
سوشل میڈیا کے محتاج ہوئے کالم نگاروں کو اگرچہ تجاوزات جیسے موضوع پر لکھنے سے گریز نہیں برتنا چاہیے۔ ’’وکلا گردی‘‘ کی اصطلاح ویسے بھی ہمارے ہاں گزشتہ چند برسوں سے بہت مقبول ہو چکی ہے۔ اسے بنیاد بنا کر سیاپا فروشی سے آج کی روٹی کمانے کا بندوبست کرلینا چاہیے تھا۔ دل مگر مائل نہیں ہوا۔ اسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے مذکورہ واقعہ کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہنگامہ آرائی کے مرتکب افراد کی نشاندہی ہو چکی۔ ان کیخلاف مقدمات بھی قائم ہوگئے ہیں۔ اُمیدہے وکلاء کی سینئر قیادت کو آن بورڈ لے کر اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش ہوگی کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ قانون پر مہارت کی بدولت رزق کمانے والے خود بھی قانون کا احترام کرتے نظر آئیں۔
ایک عام شہری ہوتے ہوئے اگرچہ یہ سوچنے کو بھی مجبور محسوس کر رہا ہوں کہ وکلاء کے کھوکھے اور تجاوزات ’’اچانک‘‘نمودار نہیں ہوئے۔ 1990 سے F-8 مرکز کے اِردگرد آباد محلوں میں قیام پذیر ہوں۔ دفتری اوقات میں جب بھی روزمرہّ ضروریات کی وجہ سے خریداری یا بینک جانے کی مجبوری لاحق ہوئی تو بے ہنگم ہجوم، ٹریفک اور تجاوزات نے ہمیشہ خون کھولا دیا۔ سوال اٹھانا لازمی ہے کہ ’’تجاوزات‘‘ ختم کرنے کے فیصلے ’’اچانک‘‘ کیوں ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں کارروائی ہوتی ہے تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ ’’مذاکرات‘‘ سے نام نہاد درمیانی راہ نکالنے کی کاوشیں ہوتی ہیں اور بالآخر ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپسی ہو جاتی ہے۔ کوئی مستقل بندوبست ہوا نظر نہیں آتا۔ امید باندھ لیتے ہیں کہ اب کی بار کوئی مستقل حل میسر ہو جائے گا۔ سیاپا فروشی کے ذریعے ڈنگ ٹپانے سے لہٰذا پرہیز برتا جائے۔
میرے ساتھ ویسے بھی مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ چند روز قبل نیویارک ٹائمز میں ایک تفصیلی مضمون پڑھا ہے ۔ یہ ایک محقق Michael Goldhaber کے بارے میں تھا۔ ابلاغ کے ہنر سے علمی اعتبار سے نا آشنا ہوتے ہوئے بھی اس محقق نے آج سے دو دہائیاں قبل حیران کن ذہانت سے دریافت کرلیا تھا کہ انٹرنیٹ بالآخر معاشرے میں فقط ہیجان ہی بھڑکائے گا۔ اسے استعمال کرنے والے اپنی پسند کے موضوعات پر صرف سیاپا فروشی کرینگے اور کسی ایک بھی اہم موضوع پر سنجیدہ بحث و تمحیص کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔
انٹرنیٹ کی بدولت پھیلے ہیجان کی وقت سے کئی برس قبل پیش گوئی کرتے ہوئے مذکورہ محقق نے ایک اصطلاح استعمال کی -Attention Economy- ’’توجہ کی معیشت‘‘ غالباً اس کا اُردو متبادل ہو سکتا ہے۔ اپنے تئیں یہ دونوں اصطلاحات مگر اصل معاملے کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ذرا غور کرنے کے بعد ہی یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ انسان جبلی طور پر دوسرے انسانوں کی توجہ کا طلب گار رہتا ہے۔ دُنیا کے ہر موضوع کے بارے میں اس کی اپنی ’’رائے‘‘ ہوتی ہے۔ وہ شدت سے خواہشمند ہوتا ہے کہ اس کے گرانقدر خیالات سنے جائیں۔ اظہار کے ذرائع پر لیکن مخصوص لوگوں کا اجارہ رہا ہے۔ قدیم زمانے میں مثال کے طورپر شاعر ہوا کرتے تھے ۔ وہ انسانی جذبات کے اظہار کے ’’اجارہ دار‘‘ بن گئے۔ صنعتی انقلاب کے بعد پریس ایجاد ہوا تو اخبارات کی صنعت بھی نمودار ہوگئی۔ یہ صنعت لوگوں کو ’’باخبر‘‘ رکھنے کی دعوے دار بن گئی۔ خبروں کا سیلاب آیا تو ان کے ’’تجزیے‘ ‘کیلئے مبصرین کی طلب بڑھی ۔ یوں کالم نگاری کا آغاز ہوا۔ وہ ’’ذہن ساز‘‘ شمار ہونا شروع ہوگئے ۔ اخبارات کے بعد ریڈیو اور ٹیلی وژن بھی آگئے۔ ان سب نے باہم مل کر Mass Media کی صورت بنائی۔ خلق خدا کی بے پناہ اکثریت کی مگر تسکین نہ ہوئی۔ وہ شدت سے محسوس کرتی رہی کہ نام نہاد ماس میڈیا فقط چند موضوعات کی تکرار اور مباحثے تک محدود رہتا ہے۔ بتدریج یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ ماس میڈیا درحقیقت منافع کمانے ہی کا ایک اور دھندا ہے۔ اپنے دھندے کو بچانے اورمنافع کمانے کی قوت برقرار رکھنے کو ماس میڈیا کے ’’مامے‘‘ ہوئے لکھاری اور اینکر ایسے کئی موضوعات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو خلق خدا کی اکثریت کو حقیقی معنوں میں پریشان کئے ہوئے ہیں۔
خلق خداکی اس پریشانی کی تسکین کے لئے فیس بک اور ٹویٹر جیسی Apps ایجاد ہوئی۔ انہوں نے عام انسانوں کی اکثریت کو گماں دلایاکہ اسے اپنی رائے کے اظہار کیلئے پلیٹ فارم میسر ہو گئے ہیں۔ وہ انہیں بہت لگن سے استعمال کرنا شروع ہوگیا ۔ کئی برس گزر جانے کے بعد اب دریافت ہو رہا ہے کہ اپنی رائے کے اظہار کے بجائے عام انسانوں کی اکثریت نے مذکورہ پلیٹ فارموں کو درحقیقت لوگوں کی توجہ کے حصول کیلئے استعمال کیا۔ ٹک ٹاک اور انسٹا گرام جیسی Apps اس ضمن میں بہت کامیاب رہیں ۔ انہوں نے صارفین کو ’’مداحین اور شائقین‘‘ فراہم کئے ۔ ’’اظہار رائے‘‘ کے بجائے یہ دونوں Apps خودنمائی کو مریضانہ حد تک پھیلانا شروع ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر اصل مقابلہ اب زیادہ سے زیادہ Likes اور Shares حاصل کرنے کیلئے ہوتا ہے ۔Michael Goldhaber نے دو دہائی قبل پیش گوئی کر دی تھی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی تڑپ بالآخر سیاست دانوں کو بھی گھیر لے گی۔ وہ اپنے معاشرے اور ملک کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے غور کے بعد کوئی ممکنہ حل پیش کرنے کے بجائے لوگوں کی توجہ طلب کرنے کی خاطر ’’ڈھٹائی کی حد تک بے شرم‘‘ہو جائینگے۔ امریکہ میں ڈونلڈٹرمپ کے عروج نے اسے برحق ثابت کردیا۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئے مضمون کو بہت غور سے پڑھنے کے بعد میں جب بھی یہ کالم لکھنے کیلئے قلم اٹھاتا ہوں تو فوراً یہ سوال ذہن میں اُمڈ آتا ہے کہ آج کا کالم لکھتے ہوئے میں کیا کرنا چاہ رہا ہوں۔ لوگوں کی کونسے موضوع پر ’’ذہن سازی‘‘ مقصود ہے یا فقط نظرآنے والے حقائق کو ہوبہو بیان کر دینا ہی مناسب ہوگا۔ ’’حقائق‘‘ کی بات چلے تو ایسے بے شمار معاملات بھی ذہن میں آجاتے ہیں جن کے بارے میں کوئی ’’ذاتی مفاد‘‘ نہیں بلکہ دیگر مجبوریاں خاموش رہنے کو مجبور کردیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’خوف فساد خلق‘‘ کے خدشات بھی لاحق رہتے ہیں۔ ایسے خدشات کے اعتراف کے بجائے ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ کالم نگار مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’تجاوزات‘‘ کی بابت ہوئے ہنگاموں تک محدود رہتے ہوئے شہری متوسط طبقے کے دلوں میں’’وکلا گردی‘‘ کیخلاف اُبھرتے غصے کو تلخ اور جذباتی الفاظ کے ذریعے مزید اُجاگر کر دیا جائے۔ منگل کی صبح اس جانب مگر جی مائل نہیں ہوا۔ توجہ طلب گاری والے تصور سے گھبرا گیا ہوں۔ رزق کمانے کی مجبوری مگر کالم لکھنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں دکھاتی۔ اُمید ہے جلد ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس لوٹتے ہوئے اپنے ’’گرانقدر خیالات‘ ‘کا اظہار شروع کر دوں گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر