ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد خان طارق کا اصلی نام احمد بخش اور احمد خان طارقؔ آپ کا قلمی نام ہے۔آپ کے والد گرامی کا نام بخش خان کھوسہ ہے۔احمد خان طارقؔ ڈیرہ غازی خان کی نواحی بستی شاہ صدردین میں 1924ء میں پید ہوئے اور پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد والد کے ساتھ آبائی پیشہ کھیتی باڑی سے منسلک ہوگئے۔احمد خان طارقؔ نے بھی اپنے جذبات کے اظہا رکے لیے شاعری کا سہارا لیا اورسرائیکی کے ایک عظیم شاعر نور محمد سائل کی شاگردی میں آگئے۔
جوہری نے پتھر کو تراش کر ہیرا بنادیا اور احمد خان طارق ؔ کااستاد الشعراء سئیں نور محمد سائل سے محبت،عشق اور وارفتگی کا عالم آج بھی وہی ہے جو ان کی حیات میں تھا۔سرائیکی شاعر ی میں انتہاوں کوچھونے والے احمد خان طارقؔاب بھی جب اپنے استاد گرامی کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کی نظریں جھک جاتی ہیں اور انکساری اور عاجزی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کو استاد کی عظمت کا اندازہ ہوتاہے کہ وہ کتنی بڑی ہستی تھے۔سئیں احمد خان طارقؔ خود کہتے ہیں کہ ”میں اَج وی کوئی شے لکھداں تاں ایویں لگدے جو او میڈے سینے وچ میڈی رہبری کریندے بیٹھن۔میں اَج وی صرف احمد خان ہاں طارق تاں او آپ ہے۔
میں ہک نکیہان شخص اوندی زات دے بارے کیا لکھ سگداں۔میں کون تے میڈی اوقات کیا؟انھاں جیہڑے لفظیں دی جاگ میکوں لئی ہے اوں حوالے نال ڈوہڑہ میڈی ساری سنجان ہے“۔شاعری کے سفر میں رہبرورہنما کی تلاش میں بھٹکتے احمد خان طارقؔ کی سئیں نور محمد سائل سے ملاقات کا واقعہ بھی شاندار ہے۔سئیں احمد خان طارقؔ کہتے ہیں کہ مجھے کچھ لکھنے کا شوق ہوا تو میں نے خود سے لکھنا شروع کردیا۔
کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کیا لکھ رہاہوں۔اسی طرح ایک طویل مدت تک لفظوں کے انتخاب اور مصرعوں کے جوڑ توڑ میں مصروف رہا۔مگر اس دوران ایک الجھن کا شکار رہا اور دل میں خیال آتا کہ جو کچھ لکھ رہا ہوں کیا یہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔
اسی ادھیڑ بن میں اندرونی کیفیات کو شعروں کی شکل میں کاغذپر منتقل کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ کسی استاد کے بغیر یہ سب کیسے ہوگا۔احمد خان طارقؔ کہتے ہیں کہ میں سئیں نورمحمد سائل کا نام سنتا تھا اور سوچتاتھا کہ کبھی اُن کی زیارت کروں اور یہی خواہش دل میں لیے ایک دن چادر کندھے پر ڈالی اور اپنی لکھی ہوئی شاعری کا ہاتھ میں لیا اور ڈیرہ غازی خان کی طرف روانہ ہوگیا۔سئیں نورمحمد سائل کا پوچھتے پوچھتے نعت خواں حاجی محمد کی دوکان پر پہنچ گیا اور وہاں پر استاد محمد رمضان رمضنؔ سے ملاقات ہوگئی۔
وہ محبت اور شفقت سے پیش آئے اور ڈیرہ غازی خان آمد کا مقصد دریافت کیا۔میں نے سئیں نورمحمد سائل سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بہت دلجوئی کی اور استاد محترم سے شام کو ملاقات کا پروگرام بنایا۔احمد خان طارقؔ کہتے ہیں کہ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ استاد محترم کے پرانے دوست سئیں استاد حسین بخش اور ان کے ایک ساتھی رحیم بخش ٹھٹھار بھی میرے سفارشی بن کر شام کو میرے ساتھ چل پڑے۔احمد خان طارقؔ استاد محترم سے ملاقات کا زکرکرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ”ڈیرہ غازی خان بلاک 44دی ہک گلی دی تھلی تیں میں پہلی واری اوں درویش،اوں قلندر دی زیارت کیتی تے پہلی ملاقات وچ میڈے دل گواہی ڈتی جو میڈا مرشد میڈا ہادی ایہو ہے،او ایہو ہے جیندی میکوں گول ہے“۔
ان کے مطابق اس ملاقات میں استاد رمضنؔ نے بات شروع کی اور استاد محتر م کے سامنے میرے شاگرد بننے کی خواہش کا اظہارکیا۔اس پر استاد محترم مسکرا دئیے اور فرمایا کہ ”کجھ سن گھندے ہیں“۔احمد خان طارقؔ کہتے ہیں کہ یہ میری زندگی کی بے حد خوش نصیب رات تھی۔استاد محترم کا کچھ سنانے کا حکم ملاتو میں نے کانپتے کانپتے اپنا کلام سنانا شروع کیا اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں رہا کہ میں نے کیا سنایا ہے اور کیا کہا ہے۔
بس اتنا احساس ہے کہ میرا کلام استاد محترم کو پسند آرہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اُس رات سے پہلے میرا نام اور میرا تخلص ”احمد“تھامگر استاد محتر م نے انتہائی محبت اور شفقت سے میرا تخلص طارق تجویز کیااور میں ایک ہی رات میں احمد خان سے احمد خان طارقؔ بن گیا۔اس کے بعد استاد محترم سے محبت اورعقیدت کاایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا اورمجھے فخر ہے کہ اپنے شاگردوں میں سے جتنا پیار انہوں نے میرے ساتھ کیا ہے کسی اور شاگرد کے ساتھ نہیں کیا۔سئیں نور محمد سائل کے شاگردوں میں احمد خان طارق ؔ کے علاوہ بے شمار سرائیکی شاعر شامل ہیں جن میں الحاج محمد رمضان طالبؔ،سئیں نور محمد فیضیؔ،سئیں حافظ رسول بخش،سئیں اختر کھوسہ،اقبال اختر فاروقی،سید بسملؔ،سید اسیرؔ،نبی بخش ساقیؔ،سئیں رمضان نذیر،سئیں رمز گاڈی،سئیں حاجی محمد رونق،سئیں عاشق حسین عارف،سئیں ساجد چنگوانی،سئیں محمد رمضان رمضنؔ،سئیں فیض شوکت،سئیں شفیع شہرت،سئیں صدیق صادق،محکم،سئیں غلام اکبرنادر،سئیں لیاقت علی ساقی،حافظ دین محمد(سناواں)شامل تھے۔احمد خان طارقؔ اپنے استاد سے اپنی عقیدت ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں کہ ”میکوں اے مان وی ہے جو میڈی پٹکی اُنھاں دے پیریں دی زینت بنی ہے“۔استاد سے محبت کا یہ اظہار اوربلاشبہ ایسا فقرہ احمد خان طارقؔ جیسا شاگرد ہی نور محمد سائل ؔ کے لیے کہہ سکتا ہے۔سرائیکی زبان کے اس عظیم شاعر کی فنی عظمت کا اندازہ اس دور کے لکھاریوں کے تاثرات سے لگایا جاسکتا ہے جس کا اظہار انہوں نے وقتافوقتا اپنی تحریروں میں کیا ہے۔
اشو لال فقیر لکھتے ہیں کہ ”ڈوہڑا وادی سندھ کا وہ ردھم ہے جو یہاں کے ہر دل میں صدیوں سے بجتا آرہا ہے۔سندھ وادی کا ہر بندہ ڈوہڑا نا صرف سوچ سکتا ہے بلکہ لکھ بھی سکتا ہے۔رامائن کی اس کو آج بھی پوری ایک اخلاقیات کا درجہ حاصل ہے۔سرائیکی شاعری میں ”خیر شاہ“کے بعد احمد خان طارق کو یہ درجہ اس طرح حاصل ہے جیسے عمر خیام کو رباعی پر اور حافظ شیرازی کو فارسی غزل میں حاصل ہے۔ہم خوش قسمت ہیں کہ جو آج بھی ڈوہڑے کو زندہ دیکھ رہے ہیں اور احمد خان طارق کے درشن کیے ہیں ۔
سرائیکی ڈوہڑے کا امام اور بادشاہ یہ مہان شاعر 93سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد 10فروری 2017ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔اس عظیم شاعر نے سرائیکی شاعری کے سات شعری مجموعے جن میں گھروں در تانڑیں،متاں مال ولے،میکوں سی لگدے،ہتھ جوڑی جُل،عمراں دا پورہیا،سسی اور میں کیا آکھاں شامل ہیں تخلیق کیئے۔اس عظیم شاعر کو فنی خدمات پر حکومتی سطح پر کسی بھی اعزاز سے محروم رکھا گیا تاہم مقامی سطح پر احمد خان طارق نے فنی خدمات پر لکھاریوں اور ہمعصر شعراء سے بھرپور داد وصول کی۔
تحریر:ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر