احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میلان کنڈیراکہتا ہے’’بڑے ناول ،ہمیشہ اپنے مصنفین سے کچھ زیادہ ذہین ہوتے ہیں ،وہ ناول نگار جو اپنی کتابوں کی نسبت زیادہ ذہین ہیں ،انھیں کوئی اور کام اختیار کرنا چاہیے‘‘ہم کالم میں میلان کنڈیرا کے اس نظریہ کی طرف پلٹیںگے۔
اگر ہم ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’’مراۃ العروس ‘‘کو اُردو زبان کا پہلا ناول قراردیں تو یہ اَٹھارہ سواُنہتر میں چھپا تھا۔یوں اُردو ناول کا یہ سفر آج ڈیڑھ صدی پر محیط ہو چکا ہے۔اس ڈیڑھ صدی میں اُردو زبان میں سینکڑوں ناول لکھے گئے۔اِن سینکڑوں ناول میں چند ہی ایسے ہیںجو پڑھنے والوں کے ساتھ موجود ہیں ،ورنہ زیادہ تر ناول اپنا وجودکھوچکے ہیں۔بعض ناول ایسے ہیں ،جو اپنے مصنفین سے بڑے ہوں؟
اس پر اَدبی ناقدین کی جانب رُجوع کرنا پڑے گا۔اُردو ناول کے مذکورہ سفر میں مرزاہادی رُسوا کا ناول ’’امرائو جان ادا ‘‘اُنیس سوپانچ میں چھپتا ہے تو ناول میں پیش کی گئی زندگی کا رشتہ زمین سے جڑتا ہے۔یوں پینتیس برس بعد ناول کا رشتہ زمین پر بسنے والے انسانوں کی حقیقی زندگیوں اور اُن کے مسائل سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد بھی اپنے ناولوں میں جو کچھ پیش کررہے تھے ،وہ سب کچھ بھی زندگی سے جڑا ہواتھا ،لیکن اس میں اصلاح کا عنصر غالب تھا۔اُن کے ناولوں میںاصلاح کے عنصر نے زندگی کی تعبیر کو محدود کرکے رکھ دیا تھا۔پریم چند کے ناول ایک نیا موڑ ثابت ہوتے ہیں ،مگر یہ اہم فکشن نگار بھی کوئی بڑا ناول قارئین کو نہ دے سکا۔
قراۃالعین حیدر اور عبداللہ حسین تک جب یہ فن پہنچتا ہے تو درمیان میں کئی ناول نگار اور اُن کے ناول سامنے آتے ہیں ،مگر اِن کے نقش محدود حامل کے تصور ٹھہرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ’’آگ کا دریا‘‘اور ’’اُداس نسلیں‘‘رجحان ساز ثابت ہوئے ہیں۔انتظار حسین ،شوکت صدیقی،خدیجہ مستور،بانوقدسیہ ،شمس الرحمن فاروقی ،محمد اشرف ، مرزاطہر بیگ ،عاصم بٹ،خالد فتح محمد،علی اکبر ناطق،اختر رضا سلیمی ،کاشف رضا، آغا گل، زیف سید،تک ناول سفر کر چکا ہے۔
اُردو زبان میں لکھے گئے بعض اہم ناول جن دو ناولوں کا اُوپر ذکر ہو چکا سمیت اپنے مصنفین سے زیادہ ذہین ہیں؟ ناول نگار دوست اختر رضاسلیمی کہتے ہیں کہ یہ ناول اور مزید براں ’’بستی‘‘’’راکھ‘‘اور ’’بہائو‘‘اپنے مصنفین سے زیادہ ذہین ناول ہیں۔مَیں اس رائے کا احترام کرتا ہوں ،مگر میں ایک قاری کی حیثیت سے اُردو میں لکھے جانے والے کسی بڑے ناول کا منتظر ہوں۔ایسے ناول کا انتظار جو ،مارکیز،ٹالسٹائی،دستوفسکی، گورکی، یوسف القعید،میلان کنڈیرا،نجیب محفوظ، یاسوناری کاواباتا،چنوااچیبے،پائیلو کوہلو،ہرمن ہیسے، سارتر، کافکا، اور اِن جیسے دیگر مصنفین لکھ چکے ہیں۔
ہمارے آج کے ناول نگاروں اور ناول کے قارئین کو میلان کنڈیرا کا وہ خطبہ ذہن میں محفوظ کرلینا چاہیے جو اُنھوں نے یروشلم میں ،وہاں کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ وصول کرتے ہوئے ،پیش کیا تھا۔میلان کنڈیرا نے اپنے خطبے کے آغاز میں کہا تھا ’’مَیں یہ انعام بحیثیت ناول نگار قبول کرتا ہوں،مَیں ناول نگار کہہ رہا ہوں ،مصنف نہیں۔فلابیئر کے الفاظ میں ناول نگار وہ ہے جو اپنے کام کے پسِ پردہ خود غائب ہو جانا چاہتا ہے،اس کامطلب ہے کہ سماجی شخصیت کے کردار سے خوف کو الگ کرنا،ایسا آج کل آسان ہرگز نہیں…میرے خیال میں ناول نگار کسی شخص کی ترجمانی نہیں کرتا،بلکہ مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے نظریات کا ترجمان نہیں ہے…‘‘
اب ہم میلان کنڈیرا کی اُس بات کی طرف پلٹتے ہیں ،جس کا حوالہ کالم کی ابتدائی سطروں میں آچکا ہے۔میلان کنڈیرا اپنے خطبے میں ٹالسٹائی کے ایک ناول کا حوالہ دے کرکہتا ہے’’لکھنے کے دوران ٹالسٹائی اپنے ذاتی اور اخلاقی نظریے کے بجائے ایک اور ہی آواز سن رہا تھا،اُس آواز کو جو ٹالسٹائی سن رہا تھا،مَیںاُس کو ناول کی دانائی کہنا چاہوں گا۔
ہر سچا ناول نگار اس ماورائے ذات دانائی کو سنتا ہے ،جس سے اُس اَمر کی وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں بڑے ناول ہمیشہ اپنے مصنفین سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔وہ ناول نگار جو اپنی کتابوں سے زیادہ ذہین ہیں،انھیں کوئی اور کام اختیار کرنا چاہیے‘‘میلان کنڈیرا اُس دانائی کا ذکر کرتا ہے ،جس کا حوالہ وہ ٹالسٹائی کے حوالے سے دیتا ہے’’مگر وہ دانائی کیا ہے؟وہ ناول کیا ہے؟
میلان کنڈیرا کے اس خطبے کا ایک ایک لفظ بہت قیمتی ہے۔اُردو ناول نگار اور اُن کے ناول یقینی طورپر اپنی اہمیت رکھتے ہیں ،مگر مجھے ایک قاری کی حیثیت ’’ماورائے ذات دانائی ‘‘کی ہمیشہ تلاش رہی ہے ،جس کو ناول نگار سنتا ہے ،جس سے اُن کا فن پارہ اُن سے بڑا ہوجاتا ہے۔ہمارے ہاں ناول سے زیادہ مصنف بڑے ہیں،یا وہ خود کو بڑا تصورکرتے ہیں۔تو ایسے مصنفین کے بارے میلان کنڈیرا نے ٹھیک کہا ہے کہ اُنھیں کوئی اور کام اختیار کر لینا چاہیے۔ہم ایسے ناول نگاروں کواُن کی سہولت کے لیے چند کام بتاسکتے ہیں۔
مگر یہ سب ناراض ہو جائیں گے۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اُن کو کیا کام کرنے چاہئیں؟مگر بضد ہیں اور ناول نگار ہی بننا چاہتے ہیں ،افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ میرے جیسے عام صحافی بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی افسانوی تحریر کو ناول کی تحریر سمجھ رہے ہیں۔مَیں نے اپنے محدود مطالعہ میں جو کچھ پڑھا ہے ،خصوصاً ناول کے ضمن میں تو اُدھورے پن کا احساس ضرور ہوا۔یہ ہمارے ناول نگاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا اعتبار قائم کروائیں۔
۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر