ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہیے کہ ہمیں اکثر اپنے قارئین کی ذہانت و فطانت دنگ کرتی ہے جو بھانپ لیتے ہیں کہ موضوع پہ بات کرتے ہوئے کہاں ہم دانستہ پہلو تہی کر گئے اور کہاں نادانستگی میں چوک ہو گئی۔
مانع حمل کی گفتگو میں خواتین کے زیر استعمال طریقے تو زیر بحث آئے لیکن مرد حضرات کی کہانی ہم نے اس لئے نہ چھیڑی کہ انہی سے تو شکوہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی سے بیر رکھ چھوڑا ہے۔ ایسے میں ان سے کچھ کہنا، سمجھانا اور منوانا دیوانے کی بڑ ہی ہوا کرتی ہے۔ ہماری کہانیوں میں زیادہ تر وہی شوہر شامل ہوتے ہیں جو کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کے زوجہ محترمہ کے جسم پہ اپنے اختیارات اور ان سے وابستہ اجازت کی طاقت سے حظ اٹھاتے ہوئے اپنی مردانہ بالادستی سے جڑی انا کی تسکین کرتے ہیں۔
تصور کی آنکھ سے ملاحظہ کیجیے کیا ہی بدصورت منظر ہے کہ اپنے آپ کو اپنی راجدھانی کا مطلق العنان حکمران سمجھتا ہوا مرد اپنے قبضے میں موجود ایک جیتے جاگتے با شعور انسان کے جسم پر ایسا اختیار رکھتا ہے کہ اس کی اثبات یا نفی میں ہلتی گردن دوسرے کے مقدر کا فیصلہ کرتی ہے۔اسی منظر میں ایک اور عورت دوسری عورت کا مقدمہ شد ومد سے لڑتی ہے لیکن یہی تو کھیل ہے کہ لفظ اجازت سے بندھی ہوئی طنابیں اس کی تنی ہوئی گردن کو اثبات میں جھکنے نہیں دیتیں۔
جتنا تنوع خواتین کے لئے رائج مانع حمل طریقوں میں پایا جاتا ہے وہ مقام اور معیار مرد حضرات کو حاصل تو نہیں ہوا لیکن پھر بھی ان صاحبان عشق کے لئے بھی کچھ نہ کچھ تو سائنس کی پٹاری میں موجود ہے جو سادہ بھی ہے اور اثر پذیر بھی۔ ضرورت محض چاہ اور ارادے کی رہ جاتی ہے۔
بہت عام اور کثرت سے استعمال ہونا والا طریقہ کنڈومز، جن کے متعلق اکثر حاملہ عورت شرما کے بتاتی ہے کہ وہ جی اس حمل کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن جی وہ…. وہ… کامیاب نہیں ہوا۔
کامیاب نہ ہونے کی کہانی کے پیچھے کچھ نہ کچھ تو وجہ تو بہرحال ہوتی ہے۔ ناکامی کی وجوہات پہ حال میں کسی نے تبصرہ کیا جو کسی بذلہ سنج واقف حال نے تفنن طبع کے لئے کیا تھا لیکن اسقدر دلچسپ اور انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھتا تھا کہ جی چاہتا ہے آپ کو بھی یہ پھبتی سنائی جائے۔ ” کووڈ میں مرد حضرات کی ٹھوڑی سے لٹکتے اور جھولتے ماسک دیکھ کر سمجھ آتا ہے کہ وہ… وہ… کی ناکامی کے پس پردہ کیا راز چھپا ہوتا ہے؟”
یوں ہم نے یہ بھی جان لیا کہ اتنے بیزار کن انداز میں کسی بھی چیز کا استعمال اس کے فوائد نظر انداز کرتے ہوئے اسے ناقابل برداشت بنا سکتا ہے اور اس میں بیسیوں کیڑے نکال کے اسے رد کیا جا سکتا ہے۔
مسئلہ یہی تو ہے کہ نازک مزاجی، سہل پسندی اور ناک پہ مکھی نہ بیٹھنے کی ضد مانع حمل طریقوں کا سارا بوجھ عورت پہ لاد دیا کرتی ہے۔
دوسرا دستیاب طریقہ تو اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے کہ اس کے نام کے ساتھ ایسے ایسے افسانے منسلک کر دیے گئے ہیں کہ اول تو نام سننا کوئی پسند نہیں کرتا۔ اور اگر کسی کو پکڑ دھکڑ کے کچھ کہہ بھی دیا جائے تو آگ اگلتے سورج کے تلے بھی ایسے کپکپی چھوٹتی ہے گویا پھانسی گھاٹ پہ لے جانے کی تیاری ہو۔
مردانہ نس بندی ایک ایسا طریقہ جس میں ایک ایسی نالی کو مستقل طور پہ بند کر دیا جاتا ہے جو سپرمز کو جائے پیدائش یعنی خصیوں سے باہر کی طرف منتقل کرتی ہے۔ اب یہ بھی یاد رکھیے کہ مادہ تولید بہت سے مائع مرکبات سے مل کر بنتا ہے اور اس نالی کے بند ہونے سے مادہ بننے پہ کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آپریشن کے بعد مادہ تولید یا سیمن کا خروج اور مقدار پہلے جیسا ہی رہتی ہے محض اس میں سپرمز نہیں پائے جاتے۔
یہ آپریشن نہایت سادہ اور چند منٹوں میں بغیر بے ہوشی کے کیا جاتا ہے۔لوکل یعنی مقامی طور پر سن کرنے والی دوا کا استعمال کافی سمجھا جاتا ہے۔
اس آپریشن کے حوالے سے ہوشربا انکشافات میں جنسی خواہش میں کمی، جنسی عمل میں کجی، مردانہ صلاحیتوں میں ادھورا پن اور نہ جانے کیا کچھ شامل ہے۔ اب کیا کہیے کہ یہ افسانہ طرازی شاید اصل موضوع سے بچنے کی ایک کوشش ہی نظر آتی ہے۔
مردانہ طاقت یا صلاحیتوں کا انحصار ٹیسٹوسٹیرون نامی ہارمون پہ ہوتا ہے اور نس بندی کے آپریشن کا اس ہارمون سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہاں یہ بات بتاتے چلیں کہ پچھلے دنوں ریپ کے مجرموں کے لئے نامردمی کی کیمیائی سزا کی جو بحث چلی تھی اس کا مرکزی خیال اسی ہارمون ٹیسٹوسٹیرون سے منسلک تھا۔ جسم میں ایسے کیمیائی اجزا انجکشن کے ذریعے داخل کرنا جو ٹیسٹوسٹیرون کو بننے سے روک دیں اور نتیجتاً جنسی فعل کے سامنے کمزوری کی ایک دیوار کھڑی ہو جائے، اس بحث کا مرکزی خیال تھا۔
اگرچہ ہم منٹو کی زبان میں بیان کر چکے ہیں کہ جنسی فعل کی نااہلیت کے باوجود جنسی خواہش زندہ رہتی ہے اور اس پہ بند نہیں باندھا جا سکتا۔ افسانہ شاداں میں ریٹائرڈ خان بہادر کو ان کی بیگم اور ڈاکٹر یہ گواہی دے کر بچا لیتے ہیں کہ وہ جنسی فعل کے قابل نہیں۔ مگر بستر کے نیچے پڑی مسواک، لہولہان شاداں کا مرتے دم خان بہادر کہنا اور خان بہادر کا بقیہ زندگی مسواک کا استعمال ترک کر دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ خواہش کا جنم کہیں اور ہوا کرتا ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجیے ایک چھوٹی سی نالی کا بند ہو جانا کہاں سے جنسی کارکردگی اور جنسی خواہش میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
سو بات وہیں پہ آن پہنچی کہ مانع حمل کے لئے ارادے اور یقین کی ضرورت ہے۔اگر زندگی ساتھ گزارنے والوں میں احساس کا سرمایہ باقی ہے تو یہ توقع کچھ زیادہ تو نہیں کہ مانع حمل کے طریقوں کے انتخاب میں مردانہ نس بندی بھی شامل ہو اور یہ امید کہ اس طریقے کو چن لینے سے کسی مرد کی انا کو امتحان کا سامنا نہیں ہو گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر