نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا فضل الرحمن کو ایک مشورہ۔۔۔ملک سراج احمد

مولانا سے سوال تو بنتا ہے کہ موجودہ حکومت کی تشکیل اورانتخابی نظام پرتنقید کرنے والی پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں دوران احتجاج گلگت بلتستان کا الیکشن کیوں اور کس امید پر لڑ رہی تھیں۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا شمار ملک کے ان چند سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن سے متعلق سنجیدہ حلقوں میں ایک رائے متفقہ طورپر پائی جاتی ہے کہ مولانا ان لوگوں میں سے ہیں جن کو مروجہ سیاست کی ہر باریکی کا علم ہے۔سیاست کے میدان میں کون سا مہرہ کس وقت چلنا ہے یہ مولانا سے بہتر شائد ہی کوئی جانتا ہو۔مولانا فضل الرحمن کے سیاسی نظریات سے بھلے کسی کو اختلاف ہومگر مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کے سب قائل ہیں۔اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد ایک دینی جماعت کا امیر بننا اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ جماعت ہی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگی مولانا کے لیے ایک کٹھن سیاسی سفر کا غاز تھا مگر مولانا نے ہمت نہیں ہاری ۔ بلکہ جنرل ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی میں مولانا کے قائدانہ کردار نے ثابت کیا کہ قید وبند کی صعوبتیں ان کی سیاسی جدوجہد کو روک نہیں سکتیں۔

مگر اس بار محسوس یہ ہورہا ہے کہ سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے مولانا فضل الرحمن سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔اس بار سیاسی بساط پر مولانا کے مہرے پٹ رہے ہیں ایسا کیوں ہورہاہے اس پر مولانا فضل الرحمن کو سوچنے کی ضرورت ہے۔آزادی مارچ کا فیصلہ کن حالات اور وعدوں کی بنیاد پر ہوا اور اس کا اختتام کس نہج پر ہوا اس پر زیادہ بہتر تبصرہ مولانا فضل الرحمن خود ہی کرسکتے ہیں۔ تبصرہ نا سہی مولانا دل میں ضرور سوچتے ہوں گے کہ کس کس نے ان سے وعدہ خلافی کی اور کیوں کی۔اگر آزادی مارچ میں شرکت نا کرکے کسی اتحادی نے وعدہ خلافی کی تھی تو حیرت اس بات کی ہے کہ مولانا نے پھراس بے وفا پر اعتبار کیسے کرلیا اور کیوں کرلیا۔اگر آزادی مارچ کا مقصد پریشر ڈال کر کسی کو ڈائیلاگ کی ٹیبل پر لانا تھا تو پھر ان ڈائیلاگ کاکیا ہوا۔

اگر یہ مان لیا جاے کہ پی ڈی ایم کا قیام آزادی مارچ کی وعدہ خلافیوں کا نتیجہ ہے تو چلیں پی ڈی ایم پر ہی بات کرلیتے ہیں۔20 ستمبر کو 11 سیاسی جماعتوں کے بننے والے اس اتحاد کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کو دے دی گی ۔عمومی طورپر تاثر بھی یہی پایا جاتا ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان کے بعد مولانا فضل الرحمن میں وہ صلاحیت ہے کہ وہ مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتے ہیں اور کسی حد تک یہ تاثر درست بھی ہے۔مگر صورتحال یہ ہے کہ مولانا کی سربراہی میں پی ڈی ایم وہ رنگ نہیں جما سکی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ایسا کیوں ہورہا ہے اس پر مولانا کو اپنے قریبی رفقا کے ساتھ بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے ان وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے نتائج نہیں مل رہے۔

مولانا سے سوال تو بنتا ہے کہ موجودہ حکومت کی تشکیل اورانتخابی نظام پرتنقید کرنے والی پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں دوران احتجاج گلگت بلتستان کا الیکشن کیوں اور کس امید پر لڑ رہی تھیں۔گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج توقع کے مطابق آئے تو سوال یہ ہے کہ ان انتخابات میں حصہ لے کرکیا حاصل ہوا سوائے اس کے کہ اپوزیشن کی شرکت سے یہ انتخابات جائز ہوگئے اب اس کا فائدہ کس کو ہوا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے بعد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے مختلف ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لینا شروع کردیا۔پی ڈی ایم کے سربراہ کے طورپر مولانا فضل الرحمن سے بصد احترام سوال تو بنتا ہے کہ 2018 کے انتخابات اور اس کے نتیجے کے طورپر بننے والی اسمبلیوں پر آپ کا جو موقف ہے اس کے بعد ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا کیا جواز ہے۔

پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد فیصلہ ہوا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے اراکین اسمبلی کے استعفے جمع کریں اور پھر ایک متفقہ لائحہ عمل کے تحت یہ استعفے جمع کرائے جائیں گے۔استعفے جمع ہوئے تاہم ان کے جمع کرانے پر پی ڈی ایم میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا اور شائد آگے چل کر بھی نا ہوسکے۔اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سول سپریمیسی کی خاطر استعفی نہیں دے سکتیں تو پھر ان کے پاس آخر ایسا کیا ہے جووہ اس سیاسی جدوجہد میں قربان کریں گی۔4 فروری کے پی ڈی ایم کے طویل اجلاس کے بعد دو باتوں پر اتفاق ہوسکا کہ پی ڈی ایم سینٹ کا الیکشن مل کر لڑئے گی اور 26 مارچ کو لانگ مارچ ہوگا تاہم اس کے بھی خدوخال واضح نہیں ہوسکے۔

مدعا یہ کہ پی ڈی ایم مل کر بھی وہ تاثر پیدا نہیں کرسکی جو اکیلے جے یو آئی نے آزادی مارچ کے دوران پیدا کیا تھا۔تو پھر کیا فائدہ ایسے اتحاد کے بنانے کا اس سے تو مولانا اکیلے ہی اچھا پرفارم کرسکتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن کو سیاست میں مشورہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے اس لیےبصد احترام اتنا کہوں گا کہ مولانا صاحب ستر ہزار خطوط پر مت جائیے گا بلکہ بحالی جمہوریت کی جنگ میں اپنے لشکر میں ان سپاہیوں کو رکھیں جن کی تلواریں وقت آنے پر نیام سے باہر آسکیں۔زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں چراغ بجھا کر جانے والوں کو جانے کی اجازت دے دیں۔اس مرحلے کے بعد جو باقی رہ جائیں گے وہ نا تو استعفیٰ دینے سے گھبرائیں گے اور نا ہی لانگ مارچ اور دھرنے سے پیچھے ہٹیں گے۔اور اگر چراغ کے دوبارہ جلنے پر مولانا اکیلے ہی خیمے میں رہ گئے تو بھی کچھ غلط نہیں ہوگا۔بلکہ مولانا شائد پی ڈی ایم سے زیادہ بہتر پرفارم کریں گے ۔کیونکہ نئی حکمت عملی کے تحت اگر اسمبلی اجلاس کی کاروائیاں شورشرابہ کرکے روکنی ہیں تو پھر محض اس کام کے لیئے 11 جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ڈی ایم ایک بارپھربیٹھ کراخلاص کے ساتھ اپنے اہداف کا تعین کرکے ایک نئی مگر جامع حکمت عملی ترتیب دے تب جا کر کچھ ہوسکتا ہے وگرنہ کچھ نہیں ہوسکتا ۔

برائے رابطہ 03334429707

وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author