دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

احمد عمر سعید شیخ کے حوالے سے اب وفاقی حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے کہ اس کیس میں پہلے وفاق کو نہیں سنا گیا ۔سندھ حکومت پہلے ہی نظرثانی کی اپیل کر چکی ہے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے چند دنوں سے اعلیٰ عدالتوں کے ایک فیصلے نے پاکستان اور امریکہ کے مابین عجیب طرح کی کشیدگی پیدا کر دی ہے۔اٹھارہ سال پہلے کراچی میں قتل ہونے والے امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی رہائی کے عدالتی فیصلے سے یہ مسئلہ پیدا کیا۔احمد عمر سعید شیخ جو عمر شیخ کے نام سے مشہور ہے، اسے ڈینئل پرل قتل کیس میں بارہ فروری 2002کو گرفتار کیا گیا۔
تب سے وہ جیل میں اسیر ہے۔ ماتحت عدالتوں سے اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی، تاہم سندھ ہائی کورٹ نے اسے بری کر دیا۔ دراصل کیس کی سماعت کے دوران اس پر اغوا میں معاونت کا الزام ہی لگتا تھا، جس کی سزا سات سال قید ہے، مگر عمر شیخ چونکہ اٹھارہ سال قید کاٹ چکا ہے، اس لئے ہائی کورٹ نے اسے بری کر دیا۔ اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ نے اپیل کی، مگر سپریم کورٹ نے وہ اپیل مسترد کر کے ملزموں کی فوری رہائی کا حکم دیا۔
اس فیصلے پر دنیا بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔اس کی وجہ ڈینیل پرل کیس ہے۔ ڈینئل پرل ممتاز امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کا سینئر نمائندہ تھا، اپنی موت کے وقت وہ سائوتھ ایشیا کے بیورو چیف کے طور پر کام کر رہا تھا۔ڈینئل پرل قتل عالمی سطح پر خاصا ہائی پروفائل کیس بنا۔ ڈینئل پرل قتل کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی گئیں، جن میں سے بعض بیسٹ سیلر بنیں۔ اس کیس پر ایک ہالی وڈ فلم اے مائٹی ہارٹ (A Mighty Heart)بھی بنائی گئی، جس میں ہالی وڈ کی نامور اداکارہ انجلینا جولی نے ڈینیل پرل کی بیوی میریان پرل کا کردار ادا کیا،
اس فلم میں بھارتی اداکار عرفان خان نے کراچی کے پولیس افسر کا کردار ادا کیا، جبکہ پاکستانی اداکار عدنان صدیقی کا بھی ایک کردار تھا۔ پچھلے دو دنوں سے خاکسار نے ڈینیل پرل کیس کے حوالے سے کئی سو صفحات پڑھ ڈالے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور قدرے متنازع کردار اسرا نعمانی نے بھی خاصا کچھ لکھ رکھا ہے۔ اسرا نعمانی
بھارتی نژاد امریکی صحافی ہیں۔ وہ اردو کے ممتاز ادیب شبلی نعمانی کی عزیزہ بتائی جاتی ہیں ، پوتی یا نواسی۔
اگرچہ اسرا نعمانی نے زیادہ کھل کر اس نسبت کو نہیں جتایا، تاہم ان کے بیٹے کا نام بھی شبلی ہے۔اسرا معروف فیمنسٹ ہیں۔ چند سال پہلے انہیں شہرت ملی تھی، جب ایک امریکی خاتون سکالر کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک نئے کام کا ڈول ڈالا کہ نماز کے حوالے سے خاتون بھی امامت کرا سکتی ہے۔ اسرا کی کوشش سے مردوں عورتوں کی مخلوط جماعت کی امامت ان خاتون سکالر نے کرائی۔اس پر مسلم دنیامیں شدید تنقید ہوئی کہ یہ چودہ سو برسوں کی دینی روایت کے منافی کام تھا۔اسرانعمانی ڈینئل پرل کی قریبی دوست تھیں، اپنے قتل کے وقت وہ اپنی بیوی کے ساتھ کراچی میں اسرا نعمانی کے گھر ہی ٹھیرا ہوا تھا۔
اسرا نعمانی نے جارج ٹائون یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ مل کر ایک انو یسٹی گیٹو تحقیقی منصوبہ’’ پرل پراجیکٹ ‘‘شروع کیا۔ پرل پراجیکٹ نے دس بارہ سال قبل سو ا سو صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی۔ وہ رپورٹ گزشتہ روز مکمل پڑھی بلکہ اسرا نعمانی نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک اور طویل مقالہ لکھا، اسے بھی لفظ بہ لفظ پڑھا۔ رات گئے مائی ہارٹ فلم بھی ٹورنٹ سے حاصل کر کے دیکھ ڈالی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ڈینیئل پرل کیس کے مختلف پہلوئوں اور اس میں جو سنسنی خیز واقعات پیش آئے ، ان کی پوری تفصیل نظر میں ہے۔ ان شااللہ اس پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے۔
اس وقت مگر احمد عمر سعید شیخ کی بات کرتے ہیں، کیونکہ ان صاحب کی وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے پہلے سے بگڑے تعلقات میں نئی کشیدگی پیدا ہوگئی۔ احمد عمر سعید شیخ کے حوالے سے اب وفاقی حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے کہ اس کیس میں پہلے وفاق کو نہیں سنا گیا ۔سندھ حکومت پہلے ہی نظرثانی کی اپیل کر چکی ہے۔
یہ کیس ابھی چلے گا، مگر سپریم کورٹ نے فوری طور پر عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکال کرکسی سرکاری ریسٹ ہائوس میں نظربند رکھنے کا حکم دیا ہے، جہاں صبح آٹھ سے پانچ بجے تک ان کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ عمر شیخ کو البتہ فون اور انٹرنیٹ دینے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
امریکی اس فیصلے پر خاصے ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمر شیخ ڈینئل پرل قتل کیس کا مرکزی ملزم ہے ، اسے سزا ملنی چاہیے اور اگر اسے چھوڑا گیا ہے تو امریکہ کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اپنے ہاں مقدمہ چلا کر امریکی شہری کی موت کا حساب لے سکیں۔ امریکی مطالبہ تو خیر نہیں مانا جا سکتا کہ پاکستان اورامریکہ کے مابین ایسا کوئی قانون موجود نہیں۔ پاکستانی حکومت اب شائدمختلف قانونی حیلوں سے کیس کو لٹکانے کی کوشش کرے گی تاکہ عالمی دبائو کم کیا جا سکے اور عمر شیخ نظربند ہی رہ جائے۔
احمد عمر سعید شیخ پرانڈیا میں ایک فلم اومرتاOmerta بنائی گئی ہے، جس میں بالی وڈ کے بہت عمد ہ اداکار راج کمار رائو نے مرکزی کردار ادا کیا۔ ڈینیل پرل پر بنی فلم اے مائٹی ہارٹ میں بھی عمر شیخ کا کردار موجود ہے۔ عمر شیخ کی زندگی کے واقعات اس قابل ہیں کہ اس پر غیر جانبداری سے بھرپور ناول یا بائیوگرافی لکھی جائے ، ایک جاندار فلم یا ایکشن سے بھرپور نیٹ فلیکس سیزن بھی بن سکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ایک لاہوری خاندان کا چشم وچراغ جسے لندن کے ایک مہنگے پرائیویٹ سکول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملا، اس دوران وہ دو تین برسوں کے لئے ایچی سن کالج لاہور میں بھی زیرتعلیم رہا۔
وہ باکسنگ کا جونیئر چیمپین تھا، شطرنج کے کئی ٹورنامنٹ جیتے، لندن سکول آف اکنامکس جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں جانے کا موقعہ ملا۔ وہاں بھی شطرنج کا چیمپین رہا، ورلڈآرم ریسلنگ چیمپین شپ میں بھی حصہ لیا۔ پھر بوسنیا امدادی تنظیم کے ساتھ گیا اور واپسی پر تعلیم چھوڑ کر عسکریت پسندی اختیار کر لی۔ پاکستان کی کشمیری جہادی تنظیموں کا حصہ رہا۔
عمر شیخ ایک فرضی نام روہت شرما اختیار کر کے بھارت میں رہتا رہا۔ 1994ء میں چار مغربی سیاح اغوا کر لئے ۔اس آپریشن کی روداد بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔بھارتی فلم اس واقعے پر بنی ہے۔ عمر شیخ کا مشن ناکام رہا، وہ پانچ سال تک بھارتی جیل میں اسیر رہا۔ پھر ایک اور ڈرامائی ہائی جیکنگ کے واقعے میں مسعود اظہر اور مشتاق زرگر کے ساتھ عمر شیخ کو بھی رہا کرا لیا گیا۔ عمر شیخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے اسامہ بن لادن کا اعتماد بھی حاصل ہوگیا تھا۔
اسامہ نوجوان عمر شیخ سے متاثر ہوا اور اسے اپنا پسندیدہ بچہ( بیٹا)قرار دیا۔ نائن الیون کے بعد جب ابھی جہادی تنظیمیں اور پروطالبان عناصر دم بخود تھے، عمر شیخ نے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینئل پرل کو ایک باقاعدہ منصوبے کے ساتھ اغوا کر کے تہلکہ مچا دیا۔ اسی اغوا کے سلسلے میں عمر شیخ گرفتا ر ہوا، تب سے وہ باہر نہیں آ سکا۔
اس کی جیل کی زندگی بھی کسی ڈرامے سے کم نہیں۔ اس نے اپنی ایک جعلی فون کال کے ذریعے پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دھانے پر کھڑا کیا تھا۔ اس کی تفصیل اگلے کالموںمیں بیان کروں گا۔ عمر شیخ کی کرشماتی شخصیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ جیل میں اس کے حفاظتی عملے کو مسلسل تبدیل کیا جاتا رہا کیونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ چند دنوں میں اپنے گارڈز کو ورغلا کر اپنا حامی بنا لیتا تھا۔
آخر میں کئی سال تک اسے قید تنہائی میں رکھا گیا اور باقاعدہ ہدایات جاری کی گئیں کہ کوئی اس سے بات نہ کرے۔ اسی عمر سعید شیخ کے ڈیتھ سیل سے باہر آنے کے عدالتی فیصلے نے ایک بار پھر ہلچل مچا دی ہے۔ عمر شیخ کی زندگی ڈرامائی نشیب وفراز سے معمور ہے۔اگلے دوس تین کالموںمیں ان شااللہ عمر شیخ اور ڈینیل پرل قتل کیس کی سنسنی خیز تفصیلات پر بات کریں گے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

About The Author