عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدا میں سرکس میں ناچنے والے سارے جانور کامیاب شو کرتے رہے۔ آغاز میں رنگ ماسٹر کے ہاتھوں چمڑے کا ہنٹر استعمال ہوتا رہا۔ شیر، چیتا، بندر، بکری یہاں تک کہ بلی بھی طرح طرح کے کرتب سیکھ گئی۔
ایک ایسا وقت آیا کہ سرکس کے جانوروں کو سدھانے والے ماسٹر نے شیر، چیتے، بندر سمیت سارے جانوروں کو مار مار کر اس طرح بنا دیا کہ محض ہاتھ کے اشارے سے جانور کرتب دکھانے لگے۔ شیر چیتے کی، چیتا شیر کی، بندر بکری کی اور بکری بلی کی ٹانگیں کھینچتی۔
یوں سارے جانور رنگ کے اندر ہی اندر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے رہتے اور ماسٹر سائیڈ پر بیٹھ کر تماشا دکھاتا رہتا۔ دیکھنے والے تالیاں بجاتے رہتے، شور مچتا رہتا جب عوام اُکتا جاتے تو کھیل شیر کی بجائے چیتے سے اور کبھی بندر سے شروع کر دیا جاتا۔
ایسا کرتے کرتے جانور تھک گئے اور تماش بین اُکتا گئے، عوام کو آہستہ آہستہ جانوروں پر ترس آنے لگا۔ وہ اُنھیں رہا دیکھنا چاہتے تھے لیکن جانور اپنے اپنے پنجروں میں بند دُبک کر بیٹھ گئے۔
ایک دن ایسا آیا کہ ماسٹر کے اشاروں کے باوجود جانوروں میں ناچنے کی سکت ہی نہ رہی۔ رنگ ماسٹر نئے جانوروں کی تلاش میں نکلا، نئے جانوروں کے آتے ہی پُرانے جانوروں کو احساس ہوا کہ اب تو وہ جنگل جانے اور وہاں کام کرنے کے بھی قابل نہیں رہے اور یہاں بھی کوئی پُرسان حال نہیں۔
پُرانے جانوروں کو ماسٹر کی بات ماننا پڑی اور یوں سرکس کے جانوروں میں اضافہ ہو گیا مگر کھیل پُرانا ہی جاری رہا۔ تماشائیوں کے پاس کوئی اور تفریح نہ تھی لہذا سرکس چلتا رہا، شو بکتا رہا۔
اب رنگ ماسٹر نے نئی ترکیب بدلی، بظاہر نظر آنے والا ہاتھ کا ہنٹر غائب کر دیا اور ہاتھوں پر دستانے پہن لیے۔ جانوروں نے اسے کسی حد تک اپنی کامیابی گردانا اور سوچا کہ اب ماسٹر کی بات مانی جا سکتی ہے لہذا پھر سرکس کا آغاز ہو گیا۔
رنگ ماسٹر پیچھے رہ کر سرکس سجاتا رہا اور جانور مانتے رہے یہاں تک کہ سرکس کا سارا انتظام ان دیکھے ہاتھوں میں چلا گیا، جانوروں نے اپنے تمام حقوق پس پُشت ڈال دیے لیکن ایک دن ماسٹر نے پھر فیصلہ کیا کہ ان سب جانوروں کو سبق سکھایا جائے اور پنجرے میں دوبارہ قید کیا جائے۔
یوں ایک بار رنگ ماسٹر نے ہنٹر دوبارہ اُٹھا لیا۔
یہ کہانی میانمار کی ہے جہاں کی رہنما آنگ سان سوچی نے فوج کی ہر بات مانی، روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش رہیں، فوج کو اقتدار میں 25 فیصد حصہ دے کر اختیار دیا۔ انسانی حقوق کے تمام ایوارڈ، تمام نشان دنیا نے واپس لیے، رُسوائیاں ہاتھ آئیں، آہستہ آہستہ عزت جاتی رہی۔ آخر مصلحت اور اقتدار کی خاطر خاموشی کسی کام نہ آئی نتیجہ ایک اور مارشل لا کی صورت میں نکلا۔
کہانی کا نتیجہ: آمریت کی پرورش کرتے رہنے سے اقدار نہیں بچتے، اقتدار بچ تو جاتا ہے مگر زیادہ دیر تک نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر