دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انگلش امارے حلق میں پھنس جاتا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

تمھیں خود پہ اعتماد ہوگا تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اشاروں سے بھی بات کروگے تو اگلے کو سمجھنا پڑے گی، نہیں تو انگریزی میں ہکلانے والے یہاں پہلے ہی بہت ہیں۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد سے دبئی کی پرواز تھی، کرونا (کورونا) کے باعث کافی نشستیں خالی تھیں۔ دور دور جو چند ایک بیٹھے تھے ان میں کچھ دبئی کمانے کے لیے جانے والے مزدور تھے، کچھ افراد اپنے گھر والوں کے ہمراہ تھے اور بعض کو دبئی سے یورپ امریکہ جانے کے لیے اگلی پرواز دبئی سے پکڑنی تھی۔

تو یہ کہانی ہے اسلام آباد ائیرپورٹ سے سفر کرنے والے ایک نوجوان ہنر مند کی جو پہلی بار ہوائی جہاز سے سفر کر رہا تھا۔

اس جوان کی کہانی سے دلچسپی تب ہوئی جب اسلام آباد ائیرپورٹ پر ایف آئی اے کے کاؤنٹر سے اونچی آواز آئی۔ اہلکار اس لڑکے کو طنزیہ انداز اور سخت لہجے میں بتا رہا تھا کہ اسے پہلے ٹکٹ دکھا کر بورڈنگ پاس لینا ہے، اور اس عمل کے شروع ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔

کوئی پچیس چھبیس برس کا یہ لڑکا خوبرو، صاف ستھرے قمیض شلوار کے نیچے جوگرز میں ملبوس صحت مند دکھائی دے رہا تھا لیکن اہلکار کے چیخنے پر وہ کسی بلی کے بچے کی طرح دبک سا گیا اور بات سمجھ میں نہ آنے کے باوجود اپنا سامان اٹھا کر پیچھے چلا گیا۔

اللہ جانے اس نے کیسے نہ کیسے کرکے بورڈنگ وغیرہ کا مرحلہ طے کیا ہوگا۔ جہاز میں سوار ہوئے تو وہی لڑکا جہاز کی درمیانی نشست پر بیٹھا تھا۔

پہلا امتحان سیٹ بیلٹ باندھنا تھا۔ ائیر ہوسٹس انگریزی میں سر سر کہہ کر اسے سمجھا رہی تھی اور وہ منہ کھولے تک رہا تھا۔

ائیر ہوسٹس نے چڑ کر آواز اونچی کی اور انگریزی میں کہا ’سر کیا آپ مجھے سن پارہے ہیں؟‘ یہ سن کر اگلی نشست پر بیٹھے ایک صاحب کی ہنسی نکل گئی۔ وہ لڑکا بمشکل انگریزی کے دو چار لفظ بول سکا ایسے کہ وہ اسی کو سنائی دے، اس کا چہرہ صاف سِلیٹ کی طرح تھا جس پر پریشانی عیاں تھی اور ہونٹ سفید پڑ رہے تھے۔

آس پاس بیٹھے وہ پاکستانی مسافر جو انگریزی جانتے تھے کن انکھیوں سے نوجوان کا تماشا دیکھ رہے تھے، ان کے چہروں پر تفاخر، طنز، احساس برتری کی لکیریں محو رقص تھیں۔

چند لمحوں میں فضائی عملے کی اس ائیر ہوسٹس کو بلایا گیا جسے اردو آتی تھی۔ اس نے بیلٹ لگانے کا طریقہ بتایا اور چلی گئی۔ ذرا سی بات تھی لیکن ہم سب کی نظروں کی تپش نے اس جوان کی مشکل بڑھا دی تھی۔

جہاز اڑ گیا مگر اس کا چہرہ لٹکا ہوا تھا، وہ ٹکٹکی باندھے سامنے لگی سکرین کو ایسے تکنے لگا جیسے انگریزی نہ بول سکنے اور نہ سمجھ پانے کی اپنی معذوری کو کوس رہا ہو، جیسے شرمندگی کے گھڑوں پانی میں شرابور ہو۔

کچھ دیر گزری مسافر نشستیں خالی ہونے کے باعث جوتے اتار کر چار چار سیٹوں پر لمبے لیٹ گئے۔ میں نے ساتھ والی لائن میں دیکھا، وہ لڑکا ویسے ہی کسی روبوٹ کی طرح الرٹ بیٹھا تھا، اندازہ ہوا کہ گردن میں سریا صرف غرور و تکبر سے ہی نہیں ندامت اور نروس ہونے کے باعث بھی آتا ہے، مارے وحشت کے بندے کی گردن کے پٹھے اکڑ سکتے ہیں۔

میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ سب ٹھیک ہے؟ اس نے ہولے سے مسکرا کر گردن جھکا لی۔ میں نے کہا بھائی آپ نے ٹکٹ کے پیسے دیے ہیں یہ کمبل تکیہ آپ کے لیے ہیں انہیں اوڑھو اور آرام سے لیٹ جاؤ، اس نے اشارہ کیا کہ وہ ایسے ہی ٹھیک ہے۔

پوچھا تو کہنے لگا چچا کی سفارش پر ایک اماراتی کمپنی میں کارپینٹر کی نوکری ملی ہے۔ انٹرمیڈیٹ تک پڑھا اور بڑھئی بن گیا نوجوانی کے کئی برس لکڑی کو فرنیچر کی شکل دیتے دیتے گزر گئے اب زندگی کو کوئی شکل دینے پہلی بار ملک سے باہر جارہا ہے۔

’ام اتنا لکا پڑا نئی، اس سے پہلے کبھی انگلش میں بات نئی کی اس لیے توڑا مسئلہ ہوگیا۔‘

وہ میرے سوالات سے سمجھ گیا کہ شاید میں ہمدردی جتانے کے لیے بات چیت کررہی ہوں جھینپ کر خود ہی عذر دینے لگا۔

میں نے اسے بتایا کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوجاتا ہے، زبان نہ سمجھ آئے تو اشاروں میں پوچھ لیں لیکن گھبرانا نہیں چاہیے،ایک زبان ہی تو ہے۔

لیکن میڈم آپ لوگ پھر انگلش بول لیتے ہو امارہ تو بالکل آواز نئی نکلتا، انگلش امارے حلق میں پھنس جاتا اے‘، اس نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا۔

میں نے اسے یاد دلایا کہ ہنر والا اپنے ہاتھ سے کام بناتا ہے زبان سے نہیں۔ جس کام کے لیے اسے دبئی بلایا جارہا ہے وہ اس ہنر میں ماہر ہے، سر پر پڑ رہی ہے تو انگریزی بھی آجائے گی لیکن اپنے ہنر پہ بھروسہ اور اپنے آپ پر اعتماد اسے خود سیکھنا ہوگا۔

میں اسے انگریزی زبان کی ٹریننگ لینے کا کوئی مشورہ نہیں دینا چاہتی تھی کیونکہ جب تک بولنے اور سننے کا موقع بار بار نہ ملے انگریزی سیکھ کر اس کا اچار ہی ڈالا جاتا ہے۔

جہاز محو پرواز رہا، خوش شکل ائیر ہوسٹس کھانا بانٹ کر چلی گئیں لیکن اس کا اعتماد بحال نہ ہوسکا، وہ بمشکل ہی کچھ کھا سکا، دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا ہوگا کہ جہاز دبئی اترے اور یہ امتحان ختم ہو۔

اس جوان نے تو انگریزی پریشر کے ساتھ پرواز کے دو گھنٹے جیسے تیسے گزار لیے لیکن ہمارے درمیان ایسے کتنے ہی بیچارے ہیں جن کی انا انگریزی زبان اور کالے انگریزوں کے ہاتھ روز کچلی جاتی ہے۔

جن کی زبان غیر مادری بولی بولتے ہوئے لکنت کا شکار ہوجاتی ہے، انگریزی جنہیں بہت کوشش کے باوجود سمجھ نہیں آتی، سمجھ آجائے مگر بولی نہیں جاتی انہیں انگریزی سے زیادہ خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔

میں اس ہنرمند نوجوان کو بتانا چاہتی ہوں کہ کیسے میں نے یونیورسٹی کی ایک اکھڑ مزاج ہم جماعت سے دوستی کی تھی کہ وہ فُل انگلش میں بات کرتی تھی اور انٹر میں اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے باوجود میں انگریزی کا ایک جملہ بنا جھجھک کے نہیں بول پاتی تھی۔

میں اسے وہ لمحہ بتانا چاہتی ہوں کہ جب ایک امریکی سکالرشپ کے انٹرویو میں گورے صحافی نے تیزی سے انگریزی بولتے ہوئے سوال کیا تو ٹھنڈ کی اک لہر مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی تک محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے کہ میری آواز کانپتی اعتماد نے انگریزی پر غلبہ پالیا۔ مجھے سکالرشپ مل گئی۔

میں اسے ایک برطانوی سکالرشپ انٹرویو کی روداد سنانا چاہتی ہوں کہ جب انگریزی میں تابڑ توڑ سوال ہوئے تو مجھے اپنی زبان خشک ہو کر تالو سے چپکتی محسوس ہوئی۔

میں نے پوری ہمت مجتمع کی اور ایک گلاس پانی مانگا، انٹرویو پینل مجھے گھور رہا تھا اور میں ہر گھونٹ کے ساتھ خود کو یقین دلا رہی تھی کہ مجھے اس انٹرویو میں میرے صحافتی کام کے اعتراف میں بلایا گیا ہے نہ کہ میری انگریزی سننے۔

وہ سکالرشپ مجھے ملی اور ایسی ملی کہ برطانوی فارن آفس کی تقریب میں پاک برطانیہ ثقافتی تعلقات پر خطاب کے لیے مدعو کیا گیا۔

اس لڑکے کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ وہ تو ہاتھ کا مزدور ہے یہاں پڑھے لکھے مزدوروں یعنی ڈاکٹرز، صحافی، استاد، وکیل وغیرہ میں بھی زبان کی وجہ سے گروہ بندی اور درجہ بندی ہے۔

اسی انگریزی زبان کی وجہ سے بہت سے کرکٹرز بہترین کھیل کر بھی تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں، شاندار کارکردگی دکھانے والی اداکاراؤں کو بھی مذاق میں اڑا دیا جاتا ہے۔

 ایک طرف انگریزی بولنے والے ہیں جن میں قابلیت چاہے دو ٹکے کی بھی نہ ہو لیکن انگریزی ان کی لاج رکھ لیتی ہے، دوسری طرف اردو میڈیم یا پیلے سکول والے ہیں جو ہزار بار قابل بن جائیں لیکن قسم اٹھا رکھی ہے کہ منہ تیڑھا کرکے انگریزی بولنے والوں سے مرعوب ہو کر ہی رہیں گے۔

میں اس جوان بڑھئی کو اپنی ایک عزیزہ کا قصہ سنانا چاہتی ہوں کہ کیسے فرفر انگلش نہ بول سکنے کی وجہ سے انہیں کراچی میں میڈیکل ریسرچ کے ایک بڑے پراجیکٹ میں تمام تر مہارت اور قابلیت کے باوجود مسترد کر دیا گیا۔ آج وہ برطانوی یونیورسٹی میں طب پڑھاتی ہیں وہ بھی اسی اٹکی اٹکی سی انگریزی کے ساتھ۔

 پیارے بھائی! تم کیوں نادم ہو کہ زبان نے اس وقت تمہارا ساتھ نہ دیا جب انگریزی کے دو لفظ تمہارے توقیر بچا سکتے تھے۔ یاد رکھو، تمہاری محنت اخلاص اور ہنرمندی تمہاری عزت افزائی کے لیے کافی ہیں۔

تمھیں خود پہ اعتماد ہوگا تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اشاروں سے بھی بات کروگے تو اگلے کو سمجھنا پڑے گی، نہیں تو انگریزی میں ہکلانے والے یہاں پہلے ہی بہت ہیں۔ انگریزی ایک زبان ہی تو ہے جب ضرورت پڑے گی تو ٹوٹی پھوٹی سہی تمھیں بھی آجائے گی۔

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

About The Author